ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل قسط 8 از ؛ محمد ہارون قاسمی بلند شہر ۔ یوپی ۔ انڈیا فون ، 9412658062
؛؛ ممکنہ لائحہ عمل ؛؛
آج ملت اسلامیہ ہند جن مہلک اور خطرناک امراض میں مبتلا ہے ان کا علاج میٹھی میٹھی گولیوں سے کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے اس کو کچھ تلخ گولیاں نگلنا ہی ہوں گی ۔۔۔۔
لہذا ملت کا وہ حصہ جو فالج کی زد اور اس کے اثرات سے تاحال محفوظ ہے اور جس میں ابھی کچھ حس و حرکت باقی ہے اس کو موجودہ اصلاحی تدابیر سے اوپر اٹھ کر سوچناہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؛؛ ہندوستان ہمارا وطن ہے ؛؛
جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب لکیروں کو پیٹنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔۔۔۔ اب تو اپنی خود نوشت آپ کو اپنے ہاتھوں سے لکھنی ہوگی اب یہی سچائی ہے کہ تمام تر ناموافق حالات اور تمام تر پر خطر مسائل کے باوجود ہندوستان ہمارا ملک ہے ہمارا مسکن ہے ہمارا وطن ہے اور ہمیں یہیں رہنا ہے ۔۔۔اور یہیں پر ہمیں اپنے مستقبل کی تعمیر کرنی ہے ۔۔۔ لہذا فرقہ پرست قوتوں کی طرف سے تمام تر اشتعال انگیزی کے باوجود ہمیں انتہائی محطاط رہنا ہے اور آئین ہند کے دائرے میں رہ کر مومنانہ فراست کے ساتھ اپنی قوم کے استحکام پر توجہ دینی ہے یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ جو قوم ہجوم کشمکش میں اپنا حوصلہ کھودیتی ہیں وہ معرکہ حیات میں کبھی فتح یاب نہیں ہو سکتی ۔۔۔ لہذا اپنے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا کیجئے منفی احساسات سے باہر نکلئے اور یہ بات ذہن سے نکال دیجئے کہ آپ کمزور ہیں کچھ کر نہیں سکتے آپ کا حریف طاقتور ہے اس لئے حالات بدل نہیں سکتے اور یہ یقین دل میں بٹھا لیجئے کہ جس خدا پر آپ ایمان رکھتے ہیں وہی غالب ہے اور اس کی طاقت کے سامنے کوئی طاقت نہیں ۔۔۔ اور آج جو طاقتیں آپ کو ناقابل تسخیر نظر آرہی ہیں ان کی حیثیت خدا کی نظروں میں ایک مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے وہ جس کو چاہتاہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتاہے ذلیل کردیتا ہے وہ جب چاہتا ہے بڑی بڑی طاقتوں کو زیر کردیتا ہے اور وہ جب چاہتا ہے بہت چھوٹی جماعتوں کو بڑے بڑے لشکروں پر غالب کردیتا ہے ۔۔۔ اس لئے باطل قوتوں کا خوف دل سے نکال دیجئے اور عجز و لاچاری کے مصنوعی خول سے باہر نکل کر دفاعی پوزیشن میں نہیں بلکہ اقدامی پوزیشن میں آئیے اور یہ سمجھ لیجئے کہ فرقہ پرست گروہوں کی ظالمانہ سرگرمیوں کو حوصلہ صرف آپ کی بزدلی پست ہمتی نفاق اور خود غرضی سے حاصل ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور جس دن آپ للہیت اور ایمانی جذبہ کے ساتھ اقدامی پوزیشن میں آگئے اس دن یہ لاچاری اور بے بسی کے سیاہ بادل پانی کی کائی کی طرح چھٹتے چلے جائیں گے ظلمتوں کا دور ختم ہوگا اور انشاءاللہ ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا ۔۔۔۔
؛؛ منصوبہ عمل ؛؛
سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہم کیا کریں اور ہم کیا کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ تو ہمیں جان لینا چاہئے کہ یہ دنیا ممکنات سے عبارت ہے یہاں امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے یہاں راہیں کبھی بند نہیں ہوتیں یہاں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا کوئی حل نہو اس کےلئے صرف عزم ہمت حوصلہ اور صحیح لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔ لہذا سب سے پہلے ہمیں ان امکانات پر غور کرنا چاہئیے جو قانون فطرت کے مطابق ہر عسر میں یسر کی شکل میں چھپے ہوتے ہیں ۔۔۔۔
اب ذرا دیکھئے کہ وہ امکانات کیا ہیں اور کیا ہوسکتے ہیں ؟؟؟؟
تو سب سے پہلے آپ کو یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ آپ کوئی یتیم اور لاوارث قوم نہیں ہیں آپ کے پاس قرآن جیسا روشن ہدایت نامہ ہے آپ کے پاس سیرت پاک کا عظیم سرمایہ ہے اور آپ اپنے اسلاف کی ایک نہایت تابناک اور حوصلہ افزا تاریخ کے وارث ہیں ۔۔۔۔
لہذا بغیر کسی خوف اور ڈر کے قرآن کو ویسے ہی پرھئیے اور پرھائیے جیساکہ اس کا حق ہے اس کی روح تک پہنچنے کی کوشش کیجئے اور اس کو اپنی زندگی میں اتار نے کا عزم اور تہیہ کیجئے ۔۔۔۔ سیرت نبی ص اور اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے اور ان سے وہ روشنی حاصل کیجئے جو آپ کی پرتاریک زندگی کے ہر گوشہ کو جگمگا دے ۔۔۔۔۔ بتاتے چلیں کہ یہاں ہمارے مخاطب صرف وہی زندہ دل اور بیدار مغز لوگ ہیں جو ملت کے حالات پر فکر مند ہیں اور اس کی خیر و فلاح اور تعمیر و ترقی کے آرزو مند ہیں اور انہیں اس راہ کی تلاش ہے جو انہیں ان کی حقیقی منزل تک پہنچا سکے ۔۔۔ ایسے لوگ آگے آئیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے عمل لاکر ایک خاص نظریہ کے تحت سردست درج ذیل چار نکاتی منصوبہ پر عمل کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) ؛؛ خدا سے اپنا معاملہ صاف کیجئے ؛؛
آپ کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا مسئلہ جس کو تمام مسائل کی بنیاد کہ سکتے ہیں یہ ہے کہ آپ کا اپنے خدا سے معاملہ صاف نہیں ہے اور جبتک آپ اپنے خالق و مالک سے اپنا معاملہ صاف نہیں کرلیتے اس وقت تک ملت کا کوئی بھی مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ اور خدا تعالی سے معاملہ صاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جس حیثیت سے آپ نے اختیار کیا ہوا ہے اور آپ کے ایمان کی جو کیفیت ہے اس پر آپ نظر ثانی کیجئے ۔۔ در اصل یہی وہ گتھی ہے جس کے سبب ملت اسلامیہ کے سارے مسائل الجھے ہوئے ہیں نہ ان کی عبادات میں کوئی روح پیدا ہو رہی ہے اور نہ ان کی دعاوں میں کوئی اثر پایا جارہا ہے ۔۔۔ لہذا سب سے پہلے آپ کو اس گتھی کو سلجھانا ہوگا ۔۔۔
سوال یہ ہے کہ کیا آپ مومن ہیں ؟؟؟؟ اگر آپ مومن ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو مومنین کے لئے تو خدا کا رفعت اور سربلندی کا وعدہ ہے ۔۔۔۔ انتم الاعلون ان کنتم مومنین ۔۔۔۔ تو آپ کو تو غالب اور سربلند ہونا چاہئیے مگر آپ تو ذلت مسکنت اور پسماندگی کی عبرت آمیز تصویر بنے ہوئے ہیں ۔۔ کیوں ؟؟؟ غور کیجئے اس زندہ اور سنجیدہ سوال پر ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں دو باتوں میں سے ایک بات آپ کو تسلیم کرنی ہوگی ۔۔۔۔۔ اگر آپ مومن ہیں اور بالکل ٹھیک ٹھیک چل رہے ہیں آپ کے ایمان میں کوئی کمی نہیں ہے ۔۔۔ تو لازما خدا تعالی کی ذات پاک پر وعدہ خلافی کا الزام آئے گا جبکہ اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ان اللہ لایخلف المیعاد یا پھر کہنا پڑے گا کہ آپ کے ایمان کے اندر کہیں نہ کہیں کوئی بڑی کھوٹ ہے اور کوئی نہ کوئی بڑی کمزوری ہے ۔۔۔ جو خدا کی مدد و نصرت اور اس کی رحمت و رافت کو آپ کی طرف متوجہ ہونے سے روکے ہوئے ہے اور آپ کے حق میں غلبہ اور استخلاف فی الارض کا خدائی وعدہ پورا نہیں ہو رہا ہے ۔۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان تو ٹھیک ہے مگر سارے مسلمانوں کا ایمان تو ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔ جس کے سبب خدا کا وعدہ پورا نہیں ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ تاویل اپنی ایمانی کمزوری پر پردہ ڈالنے کی ایک بچکانہ سی کوشش ہے کیونکہ سو فیصد کامل اور مکمل ایمان والے مسلمان تو شاید نہ کسی دور میں رہے ہیں اور نہ شاید یہ ممکن ہے ۔۔۔۔۔۔
اس لئے کہنا ہوگا کہ بعض مسلمانوں کے ایمان پر ہی خدا کے وعدے کی تکمیل متفرع ہے اور بعض کو آپ بلا دلیل کسی خاص تعداد پر محمول نہیں کرسکتے ۔۔۔۔۔ لہذا ایک جماعت بھی اگر ایمان والی موجود ہے تو اس کے لئے بھی ۔ انتم الاعلون ان کنتم مومنین ۔ کا خدا کا وعدہ ہے ۔۔۔۔۔ اب ہندوستان کے اندر تو مومنین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو ولایت کے درجہ پر فائز ہے سمجھاجاتا ہے کہ خدا تعالی ان کی دعائیں رد نہیں کرتا لوگ اپنی مرادیں منوانیں اور اپنی حاجت راوئی کے لئے ان کے پاس دعاوں کی درخواستیں لیکر جاتے ہیں ۔۔۔۔
مگر بیمار اور نحیف ملت کے حق میں ان کی دعائیں سرسے اوپر نہیں اٹھ رہی ہیں اور ان کے کامل ایمان پر بھی خدا کا وعدہ پورا نہیں ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تسلیم کرنا ہوگا کہ آپ کے ایمان کے اندر کھوٹ ہے آپ کے ایمان کے اندر خامی ہے خرابی ہے ۔۔ اور بہت ہی کڑوی سچائی یہ ہے کہ آپ مسلمان تو ہیں مگر آپ مومن نہیں ہیں ۔۔۔ اور آپ کے ایمان کی کیفیت وہی ہے جو عرب کے بدووں کے ایمان کی تھی ۔۔۔۔ قالت الاعراب آمنا قل لم تومنوا ولیکن قولوا اسلمنا انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے اللہ نے فرمایا نہیں یہ ایمان نہیں لائے ہیں ایمان ان کے دل کے اندر نہیں اترا ہے ان سے کہو کہ وہ یہ کہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔۔۔۔۔ اور آپ کو یہ یاد رکھنا چاہئیے اللہ کے تمام وعدے مومنین کے لئے ہیں ایمان سے عاری مسلمین کے لئے خدا کا کوئی وعدہ نہیں ہے
لہذا جبتک آپ مومن نہیں بنیں گے تب تک آپ اپنی تمام تر عبادات ریاضات اور مجاہدات کے باوجود خدا کی مدد و نصرت کے مستحق نہیں بن سکیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ کھوٹ در اصل ہے کیا ۔۔۔۔۔۔۔ تو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ایمان کے دو جز ہیں ۔۔ ایمان بااللہ اور کفر بالطاغوت ۔۔۔۔ فمن یکفر بالطاغوت ویومن باللہ ۔۔۔۔ اور ترتیب کے لحاظ کفر بالطاغوت کو اولیت حاصل ہے یعنی پہلے آپ کو طاغوت کا انکار کرنا ہوگا اور پھر اللہ پر ایمان لانا ہوگا تب آپ کا ایمان معتبر ہوگا اور آپ کامل مومن کہلائیں گے ۔۔۔۔ اور خدا کی مدد و نصرت کے مستحق قرار پائیں گے اور خدا کا وعدہ آپ کے حق میں پورا ہوگا ۔۔۔۔۔ کفر بالطاغوت کے بغیر ایمان بااللہ خدا کے نزدیک ہرگز معتبر نہیں ہے ۔۔۔۔۔
اور آپ کے ایمان کی صورتحال یہ ہے کہ اس میں ایمان بااللہ کا جز تو ہے مگر اس میں کفر بالطاغوت کا جز موجود نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ اس سے بڑھ کر حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایمان بااللہ کے ساتھ ایمان بالطاغوت بھی بدرجہ کمال موجود ہے ۔۔۔۔ ہوسکتا ہے آپ کہنے لگیں کہ ہم کونسا مندروں میں گھنٹا بجارہے ہیں ہم کونسا بتوں کو پوج رہے ۔۔ جو ہمارے ایمان میں کفر بالطاغوت نہیں ہے تو یاد رکھئے کہ بتوں کی پرستش تو چھوٹے درجہ کا ایمان بالطاغوت ہے مگر باطل کے نظام پر تسلیم و رضا اس سے کہیں بڑے درجہ کا ایمان بالطاغوت ہے ۔۔۔۔ خدا کا نظام بھی آپ کے نزدیک درست ہو اور طاغوت کا نظام بھی آپ کے نزدیک صحیح ہو ۔۔ کفر کے نظام پر آپ کے دل کے اندر کوئی کراہیت نہو اور اسلام کے نظام کے نفاذ کا آپ کے اندر کوئی جذبہ نہو بلکہ طاغوتی نظام کے مقابلے آپ اسلام کے نظام میں کتر بونت کرڈالیں اور کفر کے نظام سے ٹکراو اور تصادم سے بچنے کے لئے جزوی اسلام پر مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں ۔۔۔ اگر یہی آپ کے ایمان کا فلسفہ ہے تو یہ ایمان خدا کے نزدیک ہرگز معتبر نہیں اور نہ خدا کو ایسے ایمان والوں کی کوئی ضرورت ہے اور اگر سارا کرہ ارض بھی ایسے ایمان والوں سے بھرجائے تب بھی حالات میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔۔۔۔ کفر بالطاغوت کا مطلب ہی یہ ہے کہ طاغوت کا نظام جس شکل میں بھی ہو کھلے بندوں اس کا انکار کیا جائے کھلکر اس کی مخالفت کی جائے اور اس کو کسی صورت قبول نہ کیا جائے ۔۔۔۔۔ بازووں میں طاقت ہو تو اس کو توڑ دیا جائے زبان و قلم آزاد ہوں تو اس پر تیشہ چلایا جائے اور اگر ضعف اور کمزوری کی حالت ہے تو دل سے اس سے نفرت اور کراہیت کا اظہار کیاجائے ۔ اور حتی المقدور اس پر حق کے غلبہ کے لئے جدوجہد کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ حالت استضعاف میں ہیں اور کفر کے غلبہ کے سبب مکمل طور پر اسلام پر عمل نہیں کرپا رہے ہیں تو ممکن ہے خدا تعالی آپ کے ضعف اور کمزوری پر نظر کرتے ہوئے آپ کو معاف کردے لیکن اگر آپ غالب نظام کفر پر رضا مند اور مطمئن ہیں تب آپ مجرم ہیں اور سخت سزا کے مستحق ہیں ۔۔۔ ہجرت مدینہ کے وقت کچھ مسلمان ایسے بھی تھے جو ہجرت نہیں کرسکے تھے اور مکہ میں کفر کے ماحول میں رہ رہے تھے ان میں بعض لوگ وہ بھی تھے جنہیں بدر میں کفار مکہ کے ساتھ بحالت مجبوری مسلمانوں کے خلاف لڑنے کےلئے آنا پڑا تھا ۔۔۔ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی ۔۔ ان الذین توفھم الملئکتہ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض اللہ واسعتہ فتھاجروا فیھا فالئک ماواھم جھنم وسائت مصیرا ۔۔۔ فرشتوں نے جب ان لوگوں کی روح قبض کی جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے (مسلمانوں کے ساتھ رہنے کے بجائے کافروں کے ساتھ رہ رہے تھے) تو فرشتوں نے ان سے کہا یہ تم (کفر کے ماحول میں)کس حال میں جی رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہم زمین میں کمزور تھے(مگر ان کا یہ عذر قبول نہیں کیا گیا ) اور فرشتوں نے ان سے کہا کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم وہاں ہجرت کرجاتے ۔۔۔۔۔۔ ان سب کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ جس حال میں جی رہے ہیں اس کے جواز کے لئے آپ کے پاس جو بھی عذر ہو اس کو مذکورہ آیت کی روشنی میں پہلے کانٹے پر تول لیجئے گا کہ خدا کی عدالت میں وہ چل بھی سکتا ہے یا نہیں ۔۔۔۔
بیت اللہ شریف میں بت رکھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں نماز بھی پڑھی ہے اور طواف بھی کیا ہے مگر اپنے تمام تر ضعف اور کمزوری کے باوجود اس شرک کے غالب نظام کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ کھل کر اس کی مخالفت کی ہے اور اس سے مکمل بیزاری کا اظہار کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ طاغوت کے غالب نظام پر رضا مند ہوجانا اور جزوی اسلام پر قانع اور مطمئن ہوکر بیٹھ جانا یہ وہ سنگین جرم ہے جس نے پہلی امتوں کو بھی ہلاک کیا ہے اور آپ کےلئے بھی یہ سب سے بڑے خطرہ کی گھنٹی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اگر آپ اپنے نظریہ کی صحت و صداقت پر مصر ہیں تو یقین کیجئے کہ آپ خدا کے قہر و غضب کو دعوت دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں ۔۔۔ تو سب پہلے ہم خالص جذبہ للہیت کے ساتھ اپنی غلطی کا احساس کریں اپنے جرم کا اعتراف کریں اور خدا کی بارگاہ میں توبہ کریں اور معافی مانگیں ۔۔۔ اللہ معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے ۔۔۔ اور آپ کے اندر ایمان بااللہ کی جو کیفیت ہے وہی ۔ کفر بالطاغوت کی کیفیت بھی اپنے اندر پیدا کریں اگر آپ ایمان بااللہ سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو آپ کو کفر بالطاغوت سے بھی ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئیے ۔۔۔۔ اس کے بعد آپ کو حکمت و دانائی اور فراست ایمانی کے ساتھ ۔۔۔۔ ادخلوا فی السلم کافتہ ۔۔۔ کی ممکنہ راہیں تلاش کرنی چاہیئے ۔۔۔۔۔ جس کی ایک شکل یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی ذات اپنے گھر اپنے خاندان اور اپنے حلقہ اثر میں ایک مقصد کے تحت دین اسلام کو ایک دستور حیات کی شکل میں اختیار کرنے کے لئے ان کی ذہن سازی کریں اور نظام زندگی کو اسلامی خطوط پر لانے کی کوشش کریں ۔۔۔۔۔ جس کے لئے ضلعی سطح پر بامقصد شرعی عدالتیں قائم کریں اور عامتہ المسلمین کو ان کی طرف متوجہ کریں کہ وہ اپنی زندگی کے مسائل شریعت کے قانون کے مطابق حل کرائیں ۔۔۔۔ اور اسلام کو ایک نظام حیات کی حیثیت سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اختیار کر نے کی کوشش کریں ٹکراو اور تصادم سے حتی المقدور اجتناب کرتے ہوئے حق کے باطل پر غلبہ کےلئے ممکنہ جدوجہد کریں ممکن ہے خدا تعالی ہمارے عذر استضعاف کو قبول کرلے اور اس کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2) ؛؛ اپنی معیشت کو مضبوط کیجئے ؛؛
کسی بھی قوم کی معیشت اس کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ معاشی اعتبار سے کمزور ہیں اور آپ کی اس کمزوری نے آپ کے اندر ہزاروں دوسری کمزوریاں پیدا کردی ہیں آپ اپنی معیشت کو اپنے ہاتھوں میں لیجئے اور خود کو معاشی اعتبار سے مضبوط کیجئے ۔۔۔ شکم سیر قومیں ہی غلبہ اور حاکمیت کے منصوبے تشکیل دیتی ہیں بھوک کی ماری قوموں کی نگاہیں کچھ زیادہ دور تک نہیں جاتیں اور ان کی ساری سرگرمیاں دو وقت کی روٹی حاصل کرنے تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مقتدر قوتوں کا گلہ شکوہ چھوڑئیے کہ آپ کو ملازمتیں نہیں مل تیں خدا پر بھروسہ کیجیئے اور اپنی تقدیر خود اپنے قلم سے لکھنے کا اپنے اندر حوصلہ پیدا کیجئے ۔۔۔ تجارت کو ہتھیار بنائیے گجراتی مسلمانوں کا پیٹرن اختیار کیجئے بڑے بڑے تاجر لوگ نچلے درجے کے لوگوں کی مدد کریں چھوٹے چھوٹے تجارتی گروپ تشکیل دیں اور پوری قوم کو ایک منصوبہ بند طریقہ سے تجارت سے جوڑنے کی کوشش کریں ۔۔۔۔ تجارت ایک عظیم سنت ہے جس میں خدا تعالی نے برکت رکھی ہے اور پھر یہ تجارت محض تجارت نہو بلکہ اس کو شعوری طور پر قومی تعمیر کا ذریعہ بنائیے اور اس کو اسلامی دعوت کے لئے استعمال کیجئے ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ممکن راستہ ہے جسے آپ شعوری طور پر اختیار کریں تو انشاءاللہ بہت کم وقت میں بڑی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔
(3) ؛؛ ایک تلخ اور منفی فیصلہ ؛؛
یہاں آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک نہایت سخت اور تلخ فیصلہ لینا ہوگا۔۔۔۔ اور وہ یہ ہے کہ آپ کو موجودہ گندی اور غلیظ سیاست پر جو در حقیقت تجارت کی ایک بدترین شکل ہے لعنت بھیجی ہوگی ۔۔۔۔۔ اس سیاست کو بالکل ترک کردیجئے اس سے کلیتہ کنارہ کشی اختیار کرلیجئے ۔۔۔۔ اس سیاست نے قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس سیاست سے آپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے اور نہ آئندہ کچھ ہونے والا ہے ۔۔ جبکہ اس سے کنارہ کشی سے آپ کو ذرہ برابر کوئی نقصان نہیں ہوگا پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں آپ کا کوئی ممبر نہ ہو آپ زندہ رہیں گے اور آپ کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا انشاءاللہ دوسری بہت سی قومیں ہندوستان میں موجود ہیں جن کا کوئی نمائندہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نہیں ہے مگر وہ پھر بھی زندہ ہیں اور آپ سے زیادہ خوش حال اور بہتر حالت میں ہیں ۔۔ آپ کی موجودہ سیاست کا فائدہ یاتو اغیار کو حاصل ہوا ہے یا پھر قوم کے ان نام نہاد مسلمان رہنماؤں کو حاصل ہوا ہے جو خائن اور غدار ہیں جو بزدل اور نامرد ہیں جو فریبی اور مکار ہیں جن کے اندر قومی غیرت نہیں اور جن کے سینے ایمان کی روح سے خالی ہیں ۔۔۔ جو در اصل سیاسی رہنماؤں کے بھیس میں نہایت شاطر اور چالاک تاجر ہیں ۔۔۔ جنہوں نے قوم کی عزت اور وقار کو فروخت کرکے اس کے حقوق اور مفادات کا سودا کرکے اپنی ذاتی زندگیوں کو تو خوب جگمگایا ہے مگر انہوں نے اپنی قومی زندگی کو تاریک سے تاریک تر کرکے رکھدیا ہے ۔۔۔
آپ پوری قوت کے ساتھ علی الاعلان الیکشن کا بائیکاٹ کیجئے اور کھلم کھلا بولئے کہ جب ہمارے حقوق ہی محفوظ نہیں ہماری جان و مال کا تحفظ نہیں ہماری ووٹ کا کوئی فائدہ نہیں پھر ہمیں ووٹ ڈالکر کیا حاصل ہوگا ۔۔۔۔۔ آپ کے پاس کھونے کےلئے کچھ بھی نہیں ہے ایک بار یہ تجربہ کرکے دیکھئے اور پھر دیکھئے کہ ہندوستانی سیاست میں کیسا بھونچال آتا ہے اور کیسا طوفان اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔ اگر ایک بار آپ نے صرف چند سالوں کے لئے یہ فارمولہ استعمال کرلیا جو آپ کرسکتے ہیں تو آپ اس کے ناقابل یقین حیرت انگیز نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے انشاءاللہ ۔۔۔ فرقہ پرست قوتیں اپنی موت آپ مر جائیں گی اور آپ کے نام نہاد قائدین کی عقل بھی ٹھکانے آجائے گی ۔۔۔ اور پھر آپ کی اس منفی سیاست سے ایک مثبت سیاست نمودار ہوگی جو انشاءاللہ آپ کی زندگی میں ایک نئی روشنی لیکر آئے گی ۔۔۔۔۔
(4) ؛؛ آر ایس ایس کو اپنا آئڈیل بنائیے ؛؛
تیسرا بڑا مسئلہ آپ کا اجتماعیت اور قومی تعمیر کا ہے جس کے لئے آپ کو سردست اپنی زندگی کی سرگرمیوں کا صرف رخ بدلنا ہوگا ۔۔۔۔ آپ اپنے اندر ہمت پیدا کیجئے حوصلہ پیدا کیجئے آپ کو گھبرانے کی ہرگز ضرورت نہیں ۔۔۔۔ قرآن و سنت کا عظیم سرمایہ آپ کے پاس ہے ۔۔۔ مگر غلامی کی متعفن فضا نے ان سے آپ کے اندر اجنبیت کا احساس پیدا کردیا ہے اور آپ نے ان سے تحریک لینا چھوڑ دیا ہے آپ کا ذہن باطل قوتوں کی ظاہری چمک دمک اور کامیابی سے جلد متاثر ہوجاتا ہے ان کے نقوش کی پیروی پر جلد آمادہ ہوجاتا ہے مگر بدقسمتی سے ان کے اندر موجود اپنی کامیابی کے مخفی اشارات کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے ۔۔۔۔ آپ نے دوسروں سے ان چیزوں کو لیا جو آپ کو تباہ کرنے والی تھیں مگر آپ نے ان چیزوں کو اختیار نہیں کیا جو آپ کی فلاح و کامیابی کا ذریعہ ثابت ہوسکتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے غیروں کی طرز پر تنظیمیں بنائیں سیاسی پارٹیاں تشکیل دیں مگر آپ شخصی (مادی) کامیابی سے آگے نہ بڑھ سکے اور آپ کی قوم کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکا ۔۔۔۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی اغیار کی کامیاب سرگرمیوں پر نظر تو گئی مگر کچھ زیادہ بلندیوں تک نہیں جا سکی ۔۔۔ آپ کی نظر کچھ فلاحی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں پر تو گئی اور آپ نے ان کو آئڈیل بھی بنایا مگر آپ کی نظر ؛؛؛ آر ایس ایس ؛؛؛ پر نہیں جاسکی اور اس کو آئڈیل بنانے کا آپ کو خیال تک نہ آیا جہاں آپ کے مسائل کی گتھی سلجھ سکتی تھی اور آپ کو اپنی کامیابی کا سرا مل سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن بہرحال یہ ایک امکان موجود ہے اور آپ ایسا کرسکتے ہیں اور آپ کو یہی تکنیک اختیار کرنی چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔
لہذا اگر آپ اپنی قوم کے سچے خیرخواہ ہیں ۔۔ اور آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی قوم کو موجودہ مصائب و مشکلات سے نجات ملے اور آپ اپنی قوم کی عظمت رفتہ کے حصول کے آرزو مند ہیں تو آپ ؛؛؛ آر ایس ایس ؛؛؛ کو اپنا آئڈیل بنائیے اور اسی کے نہج پر ایک کل ہند سطح کا ایک ( مسلم آر ایس ایس ۔۔۔۔۔۔ علامتی نام ) آرگنائزیشن قائم کیجئے ۔۔۔ جس کا ایک نظریہ ہو جس کا ایک مقصد ہو اور جس کا ایک نصب العین ہو ۔۔۔۔۔ خذ ما صفا دع ماکدر ۔۔۔ اچھی چیز کو لے لو اور بری چیز کو چھوڑ دو کے زرین اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسی کی آئڈیا لوجی کو اختیار کیجئے ۔۔۔ اس کا تنظیمی ڈھانچہ اس کا نظم و ضبط اسکی علمی و مذہبی سرگرمیاں اس کی فلاحی اور تعمیری جدوجہد اس کی محنت اس کی قربانیاں ان تمام چیزوں کو اپنے لئے نمونہ اور آئڈیل بنائیے ۔۔ آپ بھی راشٹر واد سمیت اس کے تمام منصوبہ جات کو اختیار کیجئے ۔۔۔۔ اس آرگنائزیشن کی آر ایس ایس کی ہی طرز پر ہر شہر ہر بستی ہر گلی اور ہر محلہ میں برانچیں قائم ہوں اس کے مختلف طبقات پر مشتمل مضبوط ونگ قائم کئے جائیں مثلا علماء ۔ وکلا ۔ ڈاکٹرس ۔ صحافیوں اور تاجروں کے علیحدہ علیحدہ ونگ قائم ہوں اور ان کو الگ الگ ذمہ داریاں سپرد کی جائیں ۔۔۔۔۔۔۔
وکلا کا ایک مضبوط ونگ ہو جو قوم کے مسائل کے حل کے لئے پوری قوت کے ساتھ قانونی مدد فراہم کریں تاکہ قوم کے اندر ایک ہمت اور حوصلہ قائم ہو اور کسی طرح کی لاوارثی کا احساس باقی نہ رہے
اس کا اپنا ایک خاص اور مضبوط میڈیا سینٹر ہو جس کے ذریعہ میڈیا کی فریب کاریوں کا پردہ چاک کیا جائے اور جس کو شعوری طور پر دعوت الی اللہ اور عوام کے اندر فکری بیداری کے لئے استعمال کیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی کے زیر نگرانی ایک سیاسی ونگ کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا نہج موجودہ مکروہ اور تاجرانہ سیاست سے بالکل مختلف ہو اور جو قوم کے اندر سیاسی فکر و شعور کو بیدار کرے ۔۔۔۔۔
یہ ایک بہت بڑا امکان ہے اور یہ ایک محفوظ شاہ راہ ہے جو بنی بنائی آپ کے سامنے ہے ۔۔۔ جس پر ان حضرات کو سنجیدہ فکر کے ساتھ غور کرنا چاہئیے جن کو خدا تعالی نے فہم و فراست کی دولت سے نوازا ہے جن کے پاس وسائل ہیں اور جو قوم کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں
یقین کیجئے اگر آپ نے یہ پیٹرن اختیار کرلیا تو بہت جلد صورت حال بدلنی شروع ہوجائے گی اور کسی بڑے انقلاب کے آثار صاف نظر آنے لگیں گے ۔۔۔ چونکئیے مت ۔۔۔۔ اور آپ کو یہ جان کر حیرت بھی نہیں ہونی چاہئیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؛؛؛ آر ایس ایس ؛؛؛ ہندوستان کے اندر خلافت اسلامیہ کا ہندو موڈل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ الموفق و المعین و ھو حسبی و نعم الوکیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔