باسمہ تعالی
ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل قسط نمبر 1 از ؛ محمد ہارون قاسمی بلند شہر یوپی انڈیا فون ، 9412658
؛؛ لمحوں نے خطا کی تھی ۔۔۔۔۔ ؛؛
کھیل بگڑنا شروع ہوا ۔ 1919 میں جہاں تک پہنچتے پہنچتے مسلمانوں کی فکر و بصیرت کی حامل خدا شناس مخلص قیادت یا تو تھک چکی تھی یا پھر اللہ کو پیاری ہوچکی تھی اور اب اس کی جگہ لینے کے لئے جو قیادت ابھر کر سامنے آئی اس کے سینے اس فراست سے یکسر خالی تھے جس کو رہبر اعظم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زبان میں فراست مومن کہا گیا ہے ۔۔
ابتک کی صورت حال یہ تھی کہ مسلمان قریب ڈیڑھ سو سال سے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں بلا شرکت غیر قوم کی قیادت کر رہے تھے ۔۔ ملک مسلمانوں کا تھا حکومت مسلمانوں کی تھی اور انگریز نے اقتدار بھی مسلمانوں سے چھینا تھا لہذا فطری اعتبار سے تکلیف بھی مسلمانوں کو تھی اور انگریزی اقتدار کے خلاف مزاحمت اور محاذ آرائی بھی صرف اور صرف مسلمانوں کی طرف سے تھی ۔۔۔
جبکہ انگریزی اقتدار سے دوسری قوموں کی زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا وہ پہلے بھی محکوم تھیں اور اب بھی محکومانہ زندگی جی رہی تھیں بلکہ مسلم اقتدار کی بنسبت انگریز ی اقتدار ان کے لئے زیادہ تسکین قلب کا باعث تھا ۔۔ لہذا انگریزی اقتدار سے انہیں کچھ خاص پریشانی نہیں تھی اور نہ انگریز سے محاذ آرائی میں انہیں کوئی خاص دل چسپی تھی بلکہ بہت سی ہندو قومیں تو انگریز کے شانہ بشانہ مسلمانوں کے خلاف شریک جنگ تھیں ۔۔ لیکن ۔ 1919 میں اچانک ہواوں نے اپنا رخ بدلا حالات نے یکایک پلٹا کھایا اور ملک کی سیاسی صورتحال بڑی تیزی سے بدلنا شروع ہوگئی ۔۔۔
پہلی جنگ عظیم ابھی ابھی ختم ہوئی تھی برطانیہ فتح کے باوجود ابھی ہانپ رہا تھا اور اس میں سیدھا کھڑا ہونے کی سکت بھی باقی نہیں تھی اور دوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کی طرف سے شدید مزاحمت جاری تھی ۔۔ اس کو اندازہ ہو چلا تھا کہ اب وہ اور زیادہ دنوں تک ہندوستان پر ہی نہیں بلک اپنے دیگر مقبوضہ ممالک پر بھی اپنا اقتدار برقرار نہیں رکھ سکے گا ۔۔ لہذا اس نے طے کیا کہ ہم اپنے زیر قبضہ تمام بیرونی ریاستوں کو آزاد کردینگے اور اب ہم صرف اپنے ہی ملک (انگلینڈ) کے استحکام اور تعمیر و ترقی پر توجہ دیں گے ۔۔۔
اس صورتحال پر اکثریتی طبقہ کے فطرت شناس ایک گروہ کی بڑی گہری نگاہ تھی وہ جان چکا تھا کہ ملک آزاد ہونے والا ہے اور ہندو اکثریتی ملک ہندوستان کا اقتدار پھر سے مسلمانوں کے ہاتھوں میں جانے والا ہے ۔۔ لہذا وہ ملک کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے ایک اہم اور بڑے منصوبہ کے ساتھ بلا تاخیر قومی سیاست میں کود پڑا ۔۔۔۔
تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ اکثریتی طبقہ کی بڑی زیرک باصلاحیت اور ایک نہایت دوراندیش قوم پرست قیادت تھی ۔ جس نے بڑی اعلی دانش مندی کے ساتھ اکثریتی طبقہ کی ذہنی و فکری تعمیر کی اس کے قومی شعور کو جگایا اور اس کو سیاسی اعتبار سے پوری طرح بیدار کردیا ۔۔۔۔ اور دوسری طرف یہ بڑی چالاکی کے ساتھ ملکی سیاست میں اپنی زمین تیار کرنے کے لئے مسلمانوں بلکہ علماء کی صفوں میں شامل ہوگئی ۔۔۔ اور یہی تاریخ کا وہ سیاہ ترین باب ہے جہاں سے حالات نے ایک نہایت خطرناک اور خوفناک رخ اختیار کرلیا ۔۔۔۔۔
؛ ہندو کی امامت ؛
مسلمانوں کی مفلوج اپاہج اور کور باطن قیادت نے کسی اچانک ظاہر ہونے والے مسیحا کی حیثیت سے اس ہندو قیادت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اس کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور اس کی عظمت اور تقدس کا خیال رکھتے ہوئے اس کے لئے مصلی چھوڑ دیا اور خود مقتدیوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ۔۔۔ اس نو وارد ہندو قیادت نے مسلمان رہنماوؤں کو سمجھایا کہ حکومت تو ابوبکر صدیق(رض) اور عمر فاروق(رض) جیسی ہونی چاہئیے ۔۔ خلافت کا پھر سے زندہ ہونا ضروری ہے اور یہ کہ دنیا کے تمام دھرموں میں سب سے بہتر دھرم اسلام ہے ۔۔۔۔
صنم خانوں سے نمودار ہونے والے کعبہ کے پاسبانوں کے اس مقدس گروہ نے مسلم قیادت کا بوجھ ہلکا کردیا جو اپنی ضعیف النظری اور ضعیف الفکری کے سبب پہلے ہی تعب و تھکان کا شکار تھی ان کی بصارت اور بصیرت دونوں کمزور ہوچکی تھیں اور ان کے اندر صحیح فیصلہ لینے کی کوئی قوت اور صلاحیت باقی نہیں رہی تھی ۔۔۔
لہذا وہ خود ہی رضاکارانہ طور پر اپنے منصب سے سبک دوش ہوگئے اور اب ملکی سیاست کی زمام قیادت اور تحریک آزادئ ہند کی باگ ڈور ہندو قیادت کے ہاتھوں میں تھی ۔۔۔ تاہم مسلم قوم کو ہندوستانی سیاست میں ہمیشہ کے لئے بے اثر اور بے ضرر بنانے کے لئے ابھی ان خدا رسیدہ بزرگوں کی ضرورت تھی ۔۔۔
لہذا مسلمانوں کی جزوی قیادت ابھی بھی انہیں بلند مرتبہ مرشدوں کے ہاتھوں میں تھی اور اپنے تمام تر ضعف و نکاہت کے باوجود یہ مقدس روحیں پوری مستعدی اور خلوص کے ساتھ اپنے فرض کی ادائیگی میں مصروف تھیں ۔۔۔۔
انہوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور قوت دلیل کے ساتھ مسلمانوں کو ہندو قیادت کی اتباع کی طرف بلایا اور الہامی طور پر بتایا کہ موجودہ بحرانی حالات میں کانگریس ہی وہ کشتئی نوح ہے جس کی شمولیت پر ہندی مسلمانوں کی نجات کا دارومدار ہے اور روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت انہیں لوگوں کو حاصل ہوگی جن کا حشر و نشر کانگریسیوں کے ساتھ ہوگا اور جو گاندھی نہرو اور پٹیل کی صف میں ان کے جتنے قریب کھڑے ہونگے ان کو جنت کے اتنے ہی اعلی درجات حاصل ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
؛ گردش دوراں تو دیکھئے ؛
وقت کی گردش اور حالات کا انقلاب دیکھئے کہ اب وہ قوم جو ایک ہزار سال سے نہایت شان و شوکت کے ساتھ ملک پر فرمانروائی کرتی آرہی تھی اور جو صدیوں سے ملک کی آزادی کے لئے انتہائی دلیری اور بہادری کے ساتھ جنگ لڑ رہی تھی اچانک حاشیہ پر تھی اور اب وہ اپنی حاکمانہ حیثیت سے گرکر محکومانہ پوزیشن میں آچکی تھی ۔۔۔
وقت بدل چکا تھا حالات بدل چکے تھے اور میدان ہاتھ سے نکل چکا تھا اب پکی پکائی فصل کی مالک وہ قوم تھی جو پچھلے ایک ہزار سال سے محکومانہ زندگی جیتی آرہی تھی آسمان اس پر مہربان تھا اب اس کی تقدیر بدل چکی تھی اور وہ یکایک محکومانہ پوزیشن سے نکل کر حاکمانہ پوزیشن میں آچکی تھی ۔۔۔
مگر مسلم قیادت کے لئے یہ کوئی ناگوار صورت حال نہیں تھی بلکہ یہ ان کا ایک عظیم ایثار تھا جس پر وہ پوری طرح مسرور و مطمئن تھے اور اس پر عند اللہ اجر کے امیدوار تھے ۔۔۔
اب موہن داس کرم چند گاندھی جو ان کے نزدیک روح القدس کی حیثیت رکھتے تھے جن کے مساجد کے ممبروں پر خطابات ہوتے تھے جن کو مہا آتما کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ان کے عظیم رہنما تھے جبکہ نہرو اور پٹیل ان کے لئے بہترین آئڈیل اور ان کے تازہ دم قائد تھے ۔۔۔۔
ایک قوم پرست قیادت کے جملہ اوصاف اس نوزائیدہ ہندو قیادت میں بدرجہ اتم موجود تھے وہ ماضی سے بخوبی آگاہ تھی وہ حال سے پوری طرح باخبر تھی اور مستقبل پر اس کی گہری نگ??ہ تھی ۔۔۔
اس کا قوت حافظہ غضب کا تھا ماضی کی ہزار سالہ تاریخ اس کو ازبر تھی اور وہ پورے فکر و شعور کے ساتھ اس کو انڈر لائن کر رہی تھی آٹھ سوسالہ مسلم دور اقتدار کے قرض کا حساب اس کو اچھی طرح یاد تھا اور اب مسلمانوں سے اپنے عظیم ترین اور قدیم ترین قرض کی قسط وار وصولیابی اس کا پہلا اور اہم ترین مشن تھا ۔۔۔
چنانچہ سب سے پہلے اس نے مسلمانوں کی حالیہ تاریخ یعنی ملک کی دوسو سالہ مسلح جدوجہد آزادی پر خط نسخ پھیرا اور اپنے عمل سے بتایا کہ انگریز کے خلاف مسلمانوں کی ابتک کی ساری مسلح مزاحمت اور جدوجہد ایک فضول مکروہ اور ناجائز عمل تھا ۔۔۔۔ اس نے امن شانتی اور اہنسا کا نعرہ دیا اور دنیا کو بتایا کہ مسلمان اپنے عقیدے اور مذہب کی رو سے ایک جھگڑالو قوم ہے جو بلاوجہ انگریز سے برسر پیکار ہے آزادی تو پر امن ڈاندی مارچوں کے ذریعہ حاصل کی جاتی ہے نہ کہ کسی مار دھاڑ اور لڑائی جھگڑے سے ۔۔۔۔
مسلمانوں کی مادر وطن کی آزادی کی راہ میں دی جانے والی جان و مال کی بے مثال قربانیوں کی عظیم ترین اور روشن تاریخ پر ہندو قیادت کے ذریعہ مارا گیا یہ پہلا شب خون تھا ۔۔۔ اب مسلمان ملک کی آزادی کے منظر نامہ سے غائب اور ندارد تھے اور اب آزادئ ہند کا سہرا امن کے دوت موہن داس کرم چند گاندھی اور ان ساتھیوں کے سر تھا ۔۔۔۔۔
ہندو قیادت کے مشن کا ایک بڑا مرحلہ بغیر کسی مزاحمت کے نہایت آسانی کے ساتھ پورا ہوچکا تھا مسلمان تاریخ کی نظریاتی جنگ میں یکطرفہ طور پر شکست کھاچکے تھے وہ آزادئ ہند کی اپنی روشن اور تابناک تاریخ کی متاع گراں کو کھو چکے تھے ۔۔۔۔۔
اب انگریز کے وفا شعار ہندوستان کی آزادی کے علم بردار تھے اور ملک کی آزادی کے لئے بے پناہ قربانیاں دینے والی اور صدیوں سے مسلح مزاحمت کرتی آرہی مسلمان قوم ایک مشکوک اور نا پسندیدہ قوم تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔