ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل قسط نمبر 5

ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل قسط نمبر 5 از :  محمد ہارون قاسمی بلندشہر ۔یوپی۔انڈیا فون :  9412658062

* اور مسلمان تقسیم ہوگئے *

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں یہ گروہ اپنے مذموم منصوبہ میں بہت حد تک کامیاب ہوگیا اس نے ملت کی وحدت کو توڑ دیا اس نے ملت کی اجتماعی طاقت کو دو ٹکڑے کردیا اس نے ملک کی تقسیم کی ہیئت کو بدل دیا ۔ مسلمانوں کے درمیان سرحد قائم ہوگئی اور تقسیم وطن کے نام پر مسلمانان ہند دو خطوں میں تقسیم ہوگئے ۔۔۔ آدھے سے کچھ زیادہ مسلمان اپنے نو ساختہ ملک میں چلے گئے اور ایک تہائی سے زیادہ(تقریبا ساڑھے تین کروڑ ) مسلمان ہندو کی غلامی کے لئے ہندوستان میں باقی رہ گئے ۔۔۔۔۔۔

اگر اس ناعاقبت اندیش گروہ کی یہ منفی سیاست نہ ہوتی تو شاید اس خطہ کی تصویر بالکل دوسری ہوتی اگر تقسیم وطن کا عمل صحیح خطوط پر باہمی مفاہمت اور آپسی رضامندی سے انجام پاتا تو یہ خطہ اس عظیم افتاد سے بچ سکتا تھا جو تقسیم کے وقت اس پر آن پڑی تھی ۔۔۔ اور شاید ہندو مسلمان کے درمیان یہ سخت نفرت اور تلخی کا ماحول بھی نہ ہوتا جو آج اس خطہ میں پایا جاتا ہے ۔۔۔ ملک میں سر اٹھانے والے وہ بہت سے مسائل بھی نہ ہوتے جو ہندو مسلمان کے درمیان وجہ نزاع بنے ہوئے ہیں نہ ہندووں کےلئے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے میں کوئی دقت ہوتی اور نہ مسلمانوں کو کسی اکثریتی طبقہ کی غلامی کا کوئی احساس ہوتا ۔۔۔

خطہ کی دو بڑی قومیں اپنے اپنے ملکوں میں اطمینان و سکون سے رہتیں اور کم از کم ان کے درمیان ہندو مسلمان کی نسبت پر کوئی ایسی کشیدگی نہ ہوتی جو آج ان میں پائی جاتی ہے ۔۔۔۔ اور دونوں مملکتوں میں جو ناقابل اعتناء ہندو مسلم اقلیتیں ہوتیں ان کو بھی شاید ان مسائل کا سامنا نہ کرنا ہوتا جن کا ان کو آج سامنا ہے ۔۔۔۔۔۔

؛؛ منفی پالیسی کے نتائج ؛؛

مگر وطن کے پرستاروں نے سارا کھیل ہی بگاڑ کر رکھدیا اور اپنی مذموم پالیسی کے سبب تقسیم کے ماحول کو سخت پراگندہ کردیا اس نے ہندو مسلمان کے درمیان ذاتی انا پر مبنی ؛؛؛ لے کے رہیں گے ہرگز نہیں دیں گے ؛؛؛ جیسی نفرت آمیز فضا پیدا کردی ۔۔۔۔ جس کے نتیجہ میں خطہ کا سکون درہم برہم ہوگیا نہ علیحدہ ملک کی صحیح خطوط پر تشکیل اور تقسیم ہوسکی اور نہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے مستقبل کے لئے کوئی صحیح لائحہ عمل طے کیا جاسکا اس غلط اور مضر پالیسی کا جو نتیجہ ہوسکتاتھا وہی ہوا ۔۔۔ مسلمانوں کی خداداد مملکت جلد ہی دو حصوں میں ٹوٹ کر بکھر گئی اور یہ نو زائدہ ریاست اپنے اندرونی عدم استحکام کے سبب بہت سے پرخطر مسائل سے دوچار ہوگئی ۔۔۔۔

اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو اس سے کہیں زیادہ بڑی اور بھاری قیمت چکانی پڑی ۔۔ تقسیم وطن کے بعد ہی سے ان کو سخت ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور آج ان کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے انہیں اپنے ملک میں ہندو اکثریت کے سخت عتاب کا سامنا ہے اور وہ اپنے محسنوں کی مہربانیوں کی بدولت اپنے ہی وطن میں دلتوں سے بدتر زندگی جینے پر مجبور ہیں ۔۔۔

جو چالاک ملحد اپنے سیاہ اعمال نامہ کے ساتھ سرحد پار چلے گئے وہ تو ۔۔۔ جان بچی لاکھوں پائے ۔۔ کے مصداق ماضی کے اپنے تمام جرائم کی سزا اور سارے حساب کتاب سے بچ گئے ۔۔۔

مگر عقیدت کا مارا ہندوستانی مسلمان بیچارہ کہیں کا نہ رہا ۔۔۔ اس کو تو ۔۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔۔۔ سرحد پار کے مسلمان کے نزدیک وہ غدار ٹہرا جس نے مسلمانوں کے ساتھ رہنے کے بجائے ہندو کے جوار رحمت میں رہنا پسند کیا ۔۔۔ اور اپنے ہم وطن ہندو کے نزدیک وہ معتوب قرار پایا کیوں کہ وہ ملک کا وفادار نہیں اور تقسیم وطن کا قصور وار ہے ۔۔۔

لہذا اب ماضی اور حال کے تمام جرائم کی تمام دفعات اسی نصیب کے کمزور ہندی مسلمان پر عائد کردی گئیں جس کی سزا اس کو ملنی ہی تھی اور مل رہی ہے اور شاید بہت لمبے عرصہ تک ملتی رہیگی ۔۔۔ کیوں کہ تاریخ کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ وہ کسی قوم کی سیاسی غلطی کو کبھی معاف نہیں کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؛؛ لمحہ فکریہ ؛؛

اس سیاق و سباق کو سامنے رکھ کر خالی الذہن ہوکر غور کیجئے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور ہندوستان میں ان کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے ؟؟؟

اگر آپ کا علم آزاد ہے آپ کی فہم پر کسی اندھی عقیدت کا پہرہ نہیں ہے اور آپ کی فکر کسی بت کی پابند سلاسل نہیں ہے تو سب سے پہلے آپ کو اس طلسماتی تصور کو توڑنا ہوگا کہ ۔۔۔۔۔ آپ آزاد ہیں ۔۔۔ اگر آپ سر پر ٹوپی لگانے کرتا پائجامہ پہننے چہرہ پر داڑھی رکھنے نماز پڑھنے زکوہ دینے روزے رکھنے اور حج کرنے وغیرہ جیسی انفرادی عبادات کی اجازت کو آزادی سمجھتے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں ۔۔۔۔

اور پھر آپ ہی نہیں بلکہ کہنا پڑے گا کہ آپ کے وہ بزرگ بھی غلطی پر تھے جو بلاوجہ صدیوں تک انگریز سے آزادی کے لئے ہنگامہ آرائی کرتے رہے کیوں کہ یہ آزادی بلکہ اس سے کئی گنا بہتر آزادی تو آپ کو انگریز کے دور میں بھی حاصل تھی ۔۔۔۔۔

سروں پر ٹوپیاں اور چہروں پر داڑھیاں تو اس وقت بھی تھیں کرتا پائجامہ اس وقت بھی پہنا جاتا تھا نمازیں تو اس وقت بھی ہو رہی تھیں مسجدیں تو اس وقت بھی آباد تھیں اور بتاتے چلیں کہ بڑے بڑے مدارس اسلامیہ اور بڑی بڑی مسلم یونیورسٹیاں انگریز کے دور میں ہی قائم ہوئی تھیں اور سرکاری عہدوں ۔ منصبوں اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب کبھی بھی چالیس فیصد سے کم نہیں رہا تھا ۔۔۔ مگر پھر بھی آپ کے بزرگوں کے نزدیک آپ آزاد نہ تھے ۔۔۔۔۔۔

اور آج آپ کی صورت حال کیا ہے ؟؟ آج آپ کس حال میں جی رہے ہیں ؟؟ خود غور کیجئے ۔۔۔ مگر پھر بھی آپ سمجھ رہے ہیں اور آپ کو سمجھایا جارہا ہے کہ آپ آزاد ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمانوں سے زیادہ خوش حال اور بہتر حالت میں ہیں ۔۔۔۔۔

اگر خدا نے آپ کو آزاد فکر عطا کی ہے تو سمجھ لیجئے کہ یہی وہ تھپکی ہے جس کے ذریعہ آپ کو گزشتہ ایک صدی سے مسلسل غلامی کی آغوش میں سلائے رکھنے کی ایک نہایت منظم اور منصوبہ بند کوشش کی جارہی ہے تاکہ آپ غلامی کی نیند سے بے بیدار نہ ہوسکیں یہی وہ نشہ ہے جو مسلسل آپ کو پلایا جارہا ہے تاکہ آپ غلامی کے خمار میں مدہوش رہیں اور کسی آزادی کا تصور نہ کرسکیں اور یہی وہ زہر ہے جو آپ کو مسلسل دیا جارہا ہے تاکہ آپ نیم مردہ حالت میں پڑے رہیں اور کبھی آپ کے اندر کسی زندہ اور آزاد قوم کی طرح آزاد زندگی جینے کا جذبہ سر نہ ابھار سکے ۔۔۔۔۔۔۔

لہذا آپ کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ آپ ماضی کی غلامی سے بدتر غلامی کے دور میں جی رہے ہیں اور آپ ایک ایسی زندہ شاطر اور طاقتور قوم کے غلام ہیں جو از روئے قرآن ۔۔ آپ سے سب سے سخت نفرت اور عداوت رکھنے والی ہے ۔۔۔ بیسویں صدی کا ایک عظیم مفکر جس کو ۔۔۔۔ اکال الامم ۔۔۔۔۔۔کہتا ہے جو بڑی بڑی قوموں کو نگل گئی جس نے ہندوستان کی سرزمین سے بدھ ازم (جیسی قدیم ترین اور عظیم تہذیب( کا خاتمہ کردیا ۔۔۔ اور آج آپ اس کے نرغہ میں ہیں ۔۔۔۔

جو سمجھتی ہے کہ آپ نے اس کو ایک ہزار سال تک ظالمانہ طریقہ سے غلام بناکر رکھا ہے آپ کے آبا و اجداد نے اس کو بارہا ذلت ناک شکستوں سے دوچار کیا ہے اور ناجائز طریقہ سے صدیوں تک اس پر حکمرانی کی ہے آپ نے اس کو زبردستی مسلمان بنایا ہے آپ نے اس کے مندروں کو توڑا ہے ۔۔۔۔ پھر آپ تقسیم وطن کے مجرم ہیں آپ اپنے لئے ایک علیحدہ ملک لے چکے ہیں اور پھر بھی یہاں آپ اس کے حقوق میں مساویانہ شرکت کے دعوے دار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے وہ آپ کے وجود کو اور آپ کے آبا و اجداد کی وراثت کے نقوش کو اپنی شکست اور ہزیمت کی زندہ علامت سمجھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا خیال ہے کہ ہندوستان اس کی دیوی دیوتاؤں کی سرزمین ہے جس پر صرف اسی کو حکمرانی کا حق ہے اور جس کو وہ صرف ہندو راشٹر کی شکل میں دیکھنا چاہتی ہے مگر آپ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ لہذا وہ ہندوستان کی سرزمین پر آپ کے حقوق کو تسلیم کرنا تو کجا وہ بحیثیت مسلمان آپ کے وجود کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ لہذا جبتک آپ اپنے اہل وطن ہندووں کے ان تحفظات اور مزعومات کو دور نہیں کردیتے اس وقت تک آپ کو ہندو قوم کی جانب سے اپنے حقوق کے تحفظ اور امن و سلامتی کی کوئی ضمانت حاصل نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور آپ ان کے مذکورہ تحفظات اور مزعومات کو دور نہیں کرسکتے تا آنکہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں سے نہ نکل جائے ۔۔۔۔۔ نتیجہ صاف ہے کہ آپ کی راہوں میں ابھی دور تک کانٹے ہیں اور صرف کانٹے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان پرخار راہوں پر آپ کو اس وقت تک چلنا ہوگا جبتک آپ اپنا راستہ نہیں بدل دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔

؛؛ داخلی کمزوری ؛؛

یہ تو رہی ہندوستانی مسلمانوں کی خارجی صورت حال اب ذرا ان کی اندرونی صورت حال کا جائزہ لیجئے ۔۔۔۔۔ جو اس سے بھی زیادہ بدتر اور خطرناک ہے ۔۔۔۔۔۔

انگریز کے دور غلامی میں مسلمان قوم زندہ تھی اس کے اندر ایمانی حرارت موجود تھی وہ اپنے مقام و مرتبہ کو سمجھتی تھی اس کے اندر قومی غیرت باقی تھی اور وہ غلامی پر کسی طور رضامند نہ تھی اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک مخلص خدا شناس قیادت کا سایہ اس کے سرپہ تھا ۔۔۔۔۔ جبکہ آج صورتحال بالکل مختلف ہے ۔ آج وہ ایک مردہ قوم ہے جس کا ایمان کمزور ہوچکا ہے وہ صرف نسلی اور موروثی مسلمان ہے اس کی قومی غیرت مرچکی ہے اس کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے ۔۔۔ وہ نہیں جانتی کہ وہ کون ہے اور کیا ہے اس کا مقام کیا ہے اس کا مرتبہ کیا ہے اور بحیثیت مسلمان اس کا فرض اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔۔ وہ کسی نیک مخلص اور ایمان دار قیادت سے محروم ہے وہ غلامی پر پوری طرح مطمئن اور رضامند ہے اور اس پر فخر کر رہی ہے ۔۔۔۔۔ وہ ضلالت کو ہدایت غلامی کو آزادی زہر کو تریاق اور قاتل کو مسیحا سمجھ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔