ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل قسط 7 از ؛ محمد ہارون قاسمی ۔۔۔ بلند شہر یوپی فون ، 9412658062
؛؛ تاریخ کا مدوجزر ؛؛
جس وقت ہندوستان میں آپ بر سر اقتدار تھے اس وقت آپ کے معاشی اور اقتصادی وسائل آپ کے ہاتھوں میں تھے آپ کسی کے دست نگر اور محتاج نہیں تھے بلکہ اپنی تقدیر کے آپ خود مالک تھے ۔۔۔۔
دوسری اہم چیز یہ تھی کہ ہندوستان کا آئین اپنے تمام تر بگاڑ اور فساد کے باوجود شریعت اسلامی پر مبنی تھا یعنی جو اسلام کا قانون تھا وہی ملک کا قانون تھا اور آپ کے ہندوستانی ہونے اور مسلمان ہونے کی حیثیت میں کوئی تضاد نہیں تھا
مگر انگریز کے دور اقتدار میں معاملہ الٹ گیا اور آپ کے سامنے دو سنگین ترین مسئلے کھڑے ہوگئے ۔۔۔ ایک تو یہ کہ آپ کے معاشی وسائل آپ کے ہاتھوں سے نکل گئے اور آپ کی روزی روٹی انگریز کے ہاتھوں میں چلی گئی اور اب آپ کے لئے روزی روٹی کی قیمت مقرر کردی گئی ۔۔ جس کےلئے آپ کو انگریز کی وفاداری کا حلف لینا پڑتا تھا اپنے ضمیر کو بیچنا پڑتا تھا اور اپنے ایمان کا سودا کرنا پڑتا تھا چنانچہ انگریز نے اس طرح کے تعلیمی ادارے قائم کئے جہاں نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کے لئے تیار کیا جاتا تھا مگر ساتھ ہی ان کے ایمان کی روح کو قبض کرنے اور اسلامی تہذیب کی قدر و منزلت کو ان کے دل سے نکالنے کی ایک منصوبہ بند کوشش بھی کی جاتی تھی ۔۔۔ یہ وہی وقت تھا جب علماء نے انگریزی تعلیم کی مخالفت کی تھی جس کا طعنہ آج تک ان کو دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اور دوسری چیز یہ تھی کہ انگریز نے اسلامی آئین کو ختم کرکے اپنا آئین ملک میں نافذ کردیا تھا جس کے آپ کی زندگی پر نہایت دوررس اور خطرناک اثرات مرتب ہورہے تھے ۔۔ انگریز کے آئین کی رو سے آپ کو اسلام کے ایک حصہ کو ماننے کی اجازت تھی یعنی آپ انفرادی عبادات اور چند دیگر عائلی مسائل میں اسلام کے قانون پر عمل کر سکتے تھے جبکہ اسلام کے اجتماعی نظام سے آپ کو مکمل دست بردار ہونا پڑرہا تھا ۔۔۔۔۔ یعنی اب آپ کو کچھ فیصد زندگی خدا کے قانون کے مطابق گزارنی تھی اور کچھ فیصد زندگی میں آپ کو انگریز کے قانون کے مطابق چلنا تھا یہ صورت حال مسلمانوں کو منظور نہ تھی جس کے سبب انگریز سے ان کی مسلسل کشمکش جاری تھی
اور پھر وہ وقت آگیا کہ انگریز سے تو خلاصی ہوگئ مگر سوء قسمتی کہ کنویں سے نکلے اور کھائی میں جاگرے ۔ ہندوستان تو آزاد ہوگیا مگر ہندوستانی مسلمان آزاد نہو سکے بلکہ وہ ایک نئی اور خوفناک غلامی کے شکنجے میں پھنس گئے اور ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گیا ۔۔۔
؛؛ انگریز کی اور ہندو کی عداوت میں فرق ؛؛
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مسلمانوں سے انگریز کی دشمنی کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اس کے اقتدار کے لئے خطرہ تھے اور اس کو مسلسل چیلنج کر رہے تھے ۔۔۔ جبکہ ہندووں کی مسلمانوں سے نفرت اور عداوت کی وجہ ان کے غلبہ اور حاکمیت کی ان کی مکمل تاریخ تھی اور آج جب وہ آپ پر مسلط ہیں تو وہ اپنا سارا سابقہ حساب آپ سے چکتا کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ چنانچہ آزاد ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے سامنے پہلا مسئلہ وہی ان کی روزی روٹی کا مسئلہ تھا جس کو نہایت منصوبہ بند طریقہ سے ملک کی مقتدر متعصب ہندو اکثریت نے ان سے چھین لیا اور ان کو ستر سالوں کے اندر ستر ہاتھ زمین میں گاڑھ دیا اور ان کو شودروں سے بھی بدتر حالت میں پہنچا دیا ۔۔۔۔۔۔
دوسرا ان کے سامنے وہی آئین اور قانون کا مسئلہ تھا جو اب اپنے اثرات اور نتائج کے لحاظ سے مزید شدت اختیار کرگیا تھا ۔ یہاں بھی مسلمانوں کے سامنے وہی صورت حال تھی جو انگریز کے دور میں درپیش تھی ۔۔۔۔ یعنی یہاں بھی وہ صرف جزوی اسلام پر عمل کرسکتے تھے جبکہ کلی اسلام پر عمل کی جمہوری ہندوستان میں کوئی سبیل نہ تھی ۔۔۔۔۔۔ اور اسلام کا جو حصہ ہندوستان کے آئین سے متصادم تھا اس سے مسلمانوں کو آئینی طور پر دست بردار ہونا پڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔
یہاں آکر مسلمانوں کی دو حیثیتیں ہو گئیں ایک حیثیت ان کی یہ تھی کہ وہ مسلمان ہیں جبکہ دوسری حیثیت ان کی یہ تھی کہ وہ ہندوستانی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے انہیں اسلام کے قانون پر عمل کرنا تھا اور ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے انہیں ہندوستان کے آئین کو فالو کرنا تھا ۔۔۔۔ اب اگر وہ پوری طرح اسلام کے قانون پر چلتے ہیں تو ان کی ہندوستانی حیثیت مخدوش ہو جاتی ہے اور اگر وہ ہندوستان کے آئین کو اختیار کرتے ہیں تو ان کی مسلمان کی حیثیت متاثر ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہیں سے وہ مشہور سوال اٹھا کہ آپ پہلے ہندوستانی ہیں یا پہلے مسلمان ہیں ۔ جس کا ہندی مسلمان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔ کسی نے کہا کہ یہ دونوں حیثیتیں ہمارے لئے برابر ہیں یعنی ہم جتنے خدا پرست ہیں اتنے ہی وطن پرست بھی ہیں ۔۔۔ کسی نے اور کوئی گول مول جواب دیا اور کسی نے ہمت کرکے کہا کہ ہم تو پہلے ہندوستانی ہیں ۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے نزدیک ان کے دین و ایمان کی حیثیت ایک اضافی اور ثانوی درجہ کی ہے ۔۔۔۔۔ مگر کوئی سخت جان بسمل ایسا نہ تھا جو کہتا کہ ۔۔۔۔۔۔ ایک مسلمان صرف مسلمان ہوتا ہے وہ اول بھی مسلمان ہے وہ آخر بھی مسلمان ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ہی وہ سچا اور مخلص محب وطن ہندوستانی ہے کیونکہ وطن سے محبت کرنا اس کے ایمان کا حصہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ہم پھر آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ ہمارے بزرگوں کے ذہن کے اندر انگریز سے آزادی کا جو تصور تھا وہ یہی تھا کہ مسلمانوں کے ہندوستانی ہونے اور مسلمان ہونے کی حیثیت میں کوئی تضاد نہو ۔۔
چنانچہ مسلمانوں کو درپیش اس متضاد صورت حال نے ان کے پورے نظام زندگی پر بڑے گہرے اور منفی اثرات ڈالے اور انہیں اپنی دونوں حیثیتوں میں توازن برقرار رکھنے کےلئے سارے شعبہائے حیات کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا ۔۔۔۔ اور یہیں سے ان پر دین اور دنیا کی بدعی تفریق کا دروازہ کھل گیا اور علم و تعلیم جیسا اہم اور انقلابی شعبہ بھی دین اور دنیا کے خانوں میں منقسم ہو کر بے روح اور بے جان ہوکر رہ گیا ۔۔۔۔
توازن کی اس مداہنت آمیز غیر فطری کوشش میں مسلمان اپنی ہندوستانی حیثیت کو تو کسی حد تک بچانے میں کامیاب ہوگئے مگر وہ اپنی مسلمانی حیثیت کو بچانے میں کسی طرح بھی کامیاب نہو سکے اور انہیں جزوی اور انفرادی اسلام پر ہی قناعت کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔۔۔۔ جبکہ جزوی اسلام اللہ کے نزدیک ہرگز مقبول نہیں ۔۔۔۔۔۔ بلکہ خدا کی نظروں میں یہ وہ جرم عظیم ہے جس کی سزا ہی دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں دردناک عذاب ہے ۔۔۔ افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض فماجزاء من یفعل ذالک منکم الا خزی فی الحیات الدنیا و یوم القیمہ یردون الی اشد العذاب وما اللہ بغافل عما تعملون ۔۔۔ یہی تو یہود کا جرم تھا جس کی پاداش میں ۔ ضربت علیہم الذلہ والمسکنہ کا طوق ان کے گلے میں ڈال دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی صاف ہے کہ آدھے اسلام پر عمل پیرا ہوکر نہ آپ خدا کے مقبول بندے بن سکتے ہیں اور نہ آپ خدا کی مدد کے مستحق قرار پاسکتے ہیں بلکہ دریں صورت آپ خدا کی گرفت سے بھی نہیں بچ سکتے ۔۔۔۔ اور آج آپ جس سوء العذاب کے دور سے گزر رہے ہیں یہ آپ کے اسی جرم عظیم کی سزا ہے ۔۔۔۔
؛؛ مسلمان ہندو قوم پرستی کی غذا ہیں ؛؛
اور ایک تیسرا نیا مسئلہ جو ایک بڑا خطرہ بنکر آپ کے سامنے کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں آپ ہندو اکثریت کی ضرورت بھی ہیں اور غذا بھی ہیں ۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ ہندووں کے اندر دھارمک اور سنس کرتی کے لحاظ سے اس قدر تضادات اور رقابتیں ہیں کہ وہ باہم ایک ساتھ ملکر رہ ہی نہیں سکتے اور ان کے اعلی دماغ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں ۔۔۔۔ لہذا ہندووں کی اندرونی رقابتوں کو دبانے اور ان کے دھارمک تضادات کی پردہ پوشی کےلئے آپ سے دشمنی اور عداوت ان کی ایک لازمی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اس نزاکت کو سمجھئے کہ یہ آپ کا وجود ہی ہے جو ہندو جیسی متضاد نظریات کی حامل قوم کو ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے ۔۔۔ اور آپ پر ظلم و تشدد اور آپ کا خون ان کی وحدت و اقتدار کے لئے ایک بہترین غذا بن چکا ہے ۔۔۔۔ لہذا آپ کو ہندوستان کے منظر نامہ پر رکھنا بھی ضروری ہے اور آپ کو مشق ستم بنانا بھی ضروری ہے ۔۔۔۔۔ ہندو قوم کا وجود ہی اس فلسفہ پر قائم ہے ورنہ یہ قوم خود آپس میں ٹکرا کر بکھر جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف مسلمان قوم کے اندر وہ ساری کمزوریاں اور خرابیاں کامل درجہ میں موجود ہیں جو بھوک و افلاس کی ماری کسی غلام کے اندر فطرتا پیدا ہوجاتی ہیں ۔۔۔۔۔ جہالت ۔ نفاق ۔ بزدلی ۔خود غرضی ۔ اور نفس پرستی اس کے رگ و ریشے میں پوری طرح سرایت کرچکی ہے ۔۔۔ اس کا ایمانی جذبہ سرد پڑ چکا ہے اور وہ موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت و حوصلہ کھوچکی ہے
وہ اسلام کی آئینی طور پر قبیح تقسیم اور جزوی اسلام پر بصمیم قلب رضامند ہے اور غلامی کو آزادی کا نام دیکر اس پر پوری طرح خوش اور مطمئن ہے ۔۔۔۔۔
لہذا ایسے حالات میں جبکہ آپ نہ خود کے ہمدرد ہیں اور نہ خدا کے وفادار ہیں اور پھر بھی آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی مدد کےلئے آسمانوں سے ملئکتہ کے لشکر اتر آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایں خیال است و محال است و جنوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔