ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل قسط نمبر 2

ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل  قسط 2 از ؛ محمد ہارون قاسمی بلند شہر۔یوپی۔انڈیا فون ، 9412658062

؛؛ مسلم سیاست کی شہ رگ کو کاٹ دیا گیا ؛؛

اب مرحلہ تھا مسلمانوں کی جو صدیوں سے بادشاہی طرز حکومت کے ذریعہ ہندوستان پر فرماں روائی کرتے آر ہے تھے سیاسی شہ رگ کو کاٹنے اور انہیں ہندوستان کے سیاسی اقتدار سے ہمیشہ ہمیش کے لئے بے دخل کرنے کا جس کےلئے ہندو قیادت نے انگریز کی معاونت کے سہارے نہایت شاطرانہ طریقہ سے آزادی کا رخ اس راہ کی طرف پھیر دیا جہاں ملکی سیاست میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں بنتی تھی ۔۔ اور وہ تھا عوامی استصواب رائے کے ذریعہ حکومت کی تشکیل کا طریقہ جس کو ہم فخر سے جمہوریت کہتے ہیں ۔۔۔۔

جس کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستان کے اقتدار کی کنجیاں صرف اسی طبقہ کے ہاتھوں میں رہیں گی جس کے سر زیادہ ہوں گے ۔۔۔۔ اور جو طبقہ تعداد میں کم ہوگا اس کو آئین کی رو سے اقتدار سے محروم ہونا پڑےگا ۔۔۔۔

اور اس وقت ملک کی آبادی کا تناسب یہ تھا کہ اس کی کل آبادی چالیس کروڑ تھی جس میں ہندووں کی تعداد اکتیس کروڑ تھی جبکہ مسلمان صرف نو کروڑ تھے ۔۔۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کی پانچ کے مقابلے ایک ووٹ تھی اور کثرت رائے پر فیصلہ ہونا تھا ۔۔۔۔ اب ظاہر ہے کہ آئین جمہوریت کے مطابق ہندوستان پر حکومت اور اقتدار کا حق صرف ہندو اکثریت کو حاصل تھا جبکہ تعداد میں کم ہونے کے سبب اقتدار سے محرومی مسلمان اقلیت کا مقدر ٹہرا ۔۔۔۔

جمہوری طرز حکومت کو تسلیم کرلینے کا مطلب ہی مسلمانوں کی ہندوستان کے اقتدار سے آئینی طور پر دائمی رخصتی اور نظام اسلامی کے نفاذ کے امکان کا ہمیشہ ہمیش کے لئے خاتمہ تھا ۔۔۔

سگنل واضح تھا کہ مسلمانوں کی آزادئ وطن کے لئے کی جانے والی ساری جدوجہد اور تمام تر قربانیاں خاک ہوچکی ہیں اور اب آزادی صرف ہندو اکثریت کو ملنے والی ہے ۔۔۔ ملک کا اقتدار اب ہندووں کے ہاتھوں میں ہوگا اور مسلمانوں کو دائمی طور پر اب ہندو اکثریت کے محکوم اور غلام کی حیثیت سے رہنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس پر آخری مہر اس وقت لگادی گئی جب مسلمانوں کو حاصل شدہ ان کے خصوصی حق ؛؛ سیپرائٹ الیکٹو رائٹ ؛؛ (یعنی جداگانہ انتخاب کے حق) کو ختم کرکے ان کی سیاست کی آخری شہ رگ کو بھی کاٹ دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے بعد قاتل نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ۔۔۔ آج ہم نے مسلمانوں کی سیاست سے اس کی روح کو نکال لیا ہے اور اب یہ قوم کبھی بھی سر اٹھا کر نہیں جی سکے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بد قسمتی سے یہ سب کچھ مسلمانوں کی اس مقدس قیادت کی آنکھوں کے سامنے ہورہا تھا جس کے تقدس کی آج بھی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور جس کی عقیدت ۔ ایمان کی صحت و سلامتی کی دلیل اور جنت میں داخلہ کے لئے آخری صداقت نامہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

؛؛ خود فریبی یا خدا فریبی ؛؛

کہا نہیں جاسکتا کہ مسلم قیادت کی یہ خود فریبی تھی یا خدا فریبی کہ اس نے اسلاف کے اس راستے کو چھوڑ دیاتھا جس پر وہ ایک طویل عرصہ سے چلتے چلے آرہے تھے اس نے آزادی کی جدوجہد کے اس اصل مقصد کو فراموش کردیا تھا جس کے لئے اکابر نے قید و بند کی سخت ترین صعوبتیں برداشت کی تھیں اور جس کے لئے انہوں نے جان و مال کی بے شمار قربانیاں دی تھیں ۔۔۔۔

اب ان کے ذہن میں ہندوستان کی سرزمین پر اسلامی اقتدار کا کوئی تصور نہ تھا اب ان کے دماغ کے اندر احیاء خلافت کا کوئی خاکہ نہ تھا اب ان کے سامنے ہندوستان میں آئین شریعت کے نفاذ کا کوئی منصوبہ نہ تھا ۔۔۔۔ اب ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا ہندوستان سے وائت انگریز کے اقتدار کا خاتمہ اور اس کی جگہ بلیک انگریز کے اقتدار کا قیام ۔۔ اور بس ۔۔۔۔۔۔۔ یہی ان کا منتہائے مقصود تھا ۔۔۔

؛؛ انگریز سے جنگ کی وجوہات ؛؛

یہاں ایک سادا سے سوال یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں کی انگریز سے نفرت عداوت اور ٹکراو اور تصادم کے اسباب و وجوہات کیا تھیں ؟؟

کیا ان کی انگریز سے جنگ اس لئے تھی کہ وہ انگریز تھا کیا ان کی جنگ اس لئے تھی کہ وہ باہر سے آیا تھا کیا ان کی جنگ اس لئے تھی کہ اس کی زبان دوسری تھی کیا ان کی جنگ اس لئے تھی کہ اس کا رنگ ہم سے مختلف تھا کیا ان کی جنگ اس لئے تھی کہ اس کی تہذیب ہم سے الگ تھی کیا ان کی جنگ اس لئے تھی کہ اس کا مذہب ہم سے جدا تھا ۔؟؟؟ جی نہیں ۔۔ انگریز سے نفرت اور جنگ کی نہ یہ وجوہات تھیں اور نہ ہوسکتی تھیں ۔۔۔ اگر انگریز سے نفرت عداوت اور جنگ کی یہی کچھ وجوہات تھیں تو ہم بلا تامل کہ سکتے ہیں کہ ہمارے اکابر غلطی پر تھے اور ان کی انگریز کے خلاف مسلح مزاحمت نہ کوئی شرعی جنگ تھی اور نہ یہ کوئی اسلامی جہاد تھا بلکہ یہ تو جاہلی عصبیتوں پر مبنی ایک کھلا فساد تھا ۔۔۔

وقت کی مسلم قیادت کا طرز عمل اور فکر و شعور اگرچہ اسی پر دلالت کر رہا تھا مگر ظاہر ہے کہ اپنے اکابر سے متعلق یہ سوچ یہ فکر اور یہ سوء ظن کسی کفر سے کم نہیں ہے کیونکہ وہ پاکیزہ نفوس جاہلی عصبیتوں سے پاک اور مبرا تھے ۔۔۔

لہذا مذکورہ اسباب میں سے کوئی بھی سبب انگریز سے لڑائی اور دشمنی کا نہ تھا اور نہ ہوسکتا تھا بلکہ ان کی جنگ انگریز سے اس لئے تھی کہ وہ ہمارے دین و مذہب کے لئے خطرہ تھا ان کی جنگ اس لئے تھی کہ وہ ہماری تہذیب و تمدن کو نقصان پہنچا رہا تھا ان کی جنگ اس لئے تھی کہ وہ ہماری قومی شناخت اور ملی امتیازات کو مٹانے کے درپے تھا ان کی جنگ اس لئے تھی کہ وہ ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہا تھا ان کی جنگ اس لئے تھی کہ وہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

لہذا ہمیں اپنے دین و ملت کی بقاء اور اپنی تہذیب و تمدن کی حفاظت اور اپنے ملک کے اندر اسلام کی حکمرانی کے لئے اپنا اقتدار انگریز سے واپس لینا تھا ۔۔۔

یہی وہ عظیم تر مقصد تھا جس کے لئے جنگ آزادی لڑی جارہی تھی اور یہی وہ بلند ترین نصب العین تھا جس کے لئے تمام تر قربانیاں دی جارہی تھیں ۔۔۔ مگر ان پاک طینت بزرگوں کے دنیا سے پردہ فرمانے کے ساتھ ہی آزادی ہند کے اصل مقاصد بھی پس پردہ چلے گئے ۔۔۔

؛؛ آزادی کے معنی بدل گئے ؛؛

مسلمانوں کی سیاسی قیادت کیا تبدیل ہوئی کہ آزادی ہند کے معنی ہی بدل گئے جنگ آزادی کا مقصد بدل گیا دوست بدل گئے دشمن بدل گئے راہیں بدل گئیں منزلیں بدل گئیں اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاست کا محور اور منظر نامہ ہی تبدیل ہو گیا ۔۔۔

اب آزادی کا مطلب یہ تھا کہ انگریز کے تسلط سے تو ہندوستان آزاد ہورہا تھا مگر ہندوستان کا اقتدار مسلمانوں کے بجائے ہندو اکثریت کے ہاتھوں میں جارہا تھا ۔۔۔ مطلع صاف تھا کہ آزادی مسلمان اقلیت کو نہیں بلکہ ہندو اکثریت کو حاصل ہورہی تھی اور مسلمانان ہند کی غلامی برٹش انگریزوں کے ہاتھوں سے نکل کر انڈین انگریزوں کے ہاتھوں میں منتقل ہو رہی تھی ہندوستان پر مسلم اقتدار کا سورج ہمیشہ ہمیش کے لئے غروب ہورہا تھا اور ہندو اقتدار کا سورج لائف ٹائم کے لئے طلوع ہونے جارہا تھا ۔۔۔ انگریزی تسلط سے آزادی در حقیقت مسلمانان ہند کے لئے غلامی کے ایک باب کا خاتمہ اور ایک نئے باب کا آغاز تھا ۔۔۔

حالات صاف بتا رہے تھے کہ اب مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں ایک اجنبی قوم کی حیثیت سے رہنا ہوگا اب انہیں حاکمانہ حیثیت سے نہیں بلکہ محکومانہ زندگی جینا ہوگا اب انہیں مسلمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ہندوستانی مخلوق کی حیثیت سے زندہ رہنا ہوگا ۔۔۔۔ اب انہیں اپنے مذہب کے اجتماعی نظام سے متعلق ایک بڑے حصہ سے دست بردار ہونا ہوگا اب انہیں اسلامی تہذیب کو خیرآباد کہکر ہندی کلچر کو اختیار کرنا ہوگا ۔۔۔۔

اب انہیں وندے ماترم کہنا ہوگا اب انہیں بھارت ماتا کی جئے بولنا ہوگا اب انہیں جئے شری رام اور جئے ہنومان کے نعرے لگانے ہوں گے اب انہیں خدا کے قانون کے بجائے بت پرستوں کے وضع کردہ قانون کا پابند ہونا ہوگا اب انہیں پیٹ کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرنا ہوگا اب انہیں کرسی اور عہدہ کےلئے اپنے ضمیر کو فروخت کرنا ہوگا ۔۔۔ اور اب ان کی تقدیر ہندو کے ہاتھوں میں ہو گی اور اب ان کو اسی کے رحم و کرم پر رہنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔