ہندوستان سے گم ہوتے سیاست دان

*ہندوستان سے گم ہوتے سیاست دان_* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*

       *جمہوری نظام میں سب سے بہتر بات یہ ہوتی ہے کہ وہاں مختلف پارٹیوں کا قیام ہوتا ہے، الگ الگ فکروں کی جماعتیں ہوتی ہیں، اس کے نمائندے ہوتے ہیں، مسابقت کا ماحول ہوتا ہے، انتخابات سے قبل اپنا منصوبہ_ مینو فیسٹو_ پیش کرتے ہیں، مینوفیسٹو دیکھ کر عوام اپنے نمائندگان کو منتخب ہے، اگر کسی نے سابقہ ٹرم میں اچھا کام نہ کیا ہو تو اسے بدل دیتی ہے، اور ایک نئے امیدوار کو سامنے لاتی ہے۔ اگر جمہوری نظام سے یہ روایت ختم ہوجائے تو سمجھ جائیے؛ کہ ڈکٹیٹر شپ کی آہٹ ہے، یا نظام منجمد ہونے کو ہے، یا مارشل لا کا خطرہ ہے، ہندوستان کے جمہوری نظام کی بھی یہی خوبصورتی رہی ہے، یہاں ہر زمانے میں نئے نئے آپشن ملے ہیں، اور اگر کسی نے عمدہ کام کیا ہے، تو اسے سراہا بھی گیا ہے، اسے متعدد بار مواقع بھی دئے گئے ہیں، کانگریس آزادی ہند میں اہم رول ادا کرنے والی جماعت رہی ہے، اور اس نے بہت سے اعلی سیاست دان بھی پیدا کئے ہیں، چنانچہ عوام نے بھی انہیں خوب منتخب کیا ہے، اپنی خدمت اور ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کرنے کا ذمہ سپرد کرتے ہوئے ان کی رہنمائی میں چلنا پسند کیا ہے، حتی کہ ایک وقت وہ بھی آیا جب حزب مخالف ختم ہونے کے دہانے پر تھی؛ لیکن جب آنجہانی اندرا گاندھی ضرورت سے زیادہ طاقتور ہوگئی، پورے ملک کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کا خواب دیکھنے لگی، خود ایک رانی کے طور پر اور عوام کو رعایا بنانے کی کوشش کرنے لگی، تو اچانک ایک نئی سیاسی پارٹی نے جنم لیا، بہت سے محاذ نے مل کر ایک محاذ بنایا اور انہیں گہری شکست دی، اس کے بعد سے لگاتار سیاسی گلیاروں میں یہی ہوتا چلا آیا ہے، اس دور پر آشوب میں نئے لیڈر پیدا ہوئے، جنہوں نے اس وقت ملک پر اپنا خاص اثر چھوڑا ہے، ان میں بہت سوں نے اپنی پارٹی بنائی اور بہت سے مختلف صوبوں کے وزیر اعلی ہیں، نتیش کمار_ لالو پرساد یادو_ راجناتھ سنگھ_ ارون جیٹلی_ ارون شورے_ رام ولاس پاسوان جیسے نیتا انہیں زمانے کی یادگار ہیں_*       *حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کی یہ خوبصورتی بھی خطرے میں نظر آتی ہے، سنہ ۲۰۱۴ کے انتخابات کے بعد صرف ایک پارٹی اور اس پارٹی میں صرف چند افراد ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں، کچھ سالوں تک ارون جیٹلی، راجناتھ سنگھ، شسما سوراج، نریندر مودی اور امت شاہ کا نام تھا؛ لیکن اب تو صرف اور صرف امت شاہ اور نریندر مودی ہی رہ گئے ہیں، ان کے علاوہ کسی بھی سیاسست دان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، نرملا سیتا رمن ہوں، رمیش جاورکر یا روی شنکر ہوں یہ سب پیادے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ وے ان دو مذکورہ افراد کی اجازت کے بغیر ایک بیان بھی دے سکیں_ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی لالچ میں نتیش کمار جیسے اعلی سیاست دان نے بھی اپنی حیثیت گم کردی، جو کبھی خود وزیر اعظم کی فہرست میں تھے، وہ اب گمنامی کی لسٹ میں ہیں، یوپی، آسام اور بیشتر نارتھ ایسٹ کے صوبوں میں بلکہ کسی بھی صوبے کو اٹھا لیجئے_ وہاں کے رہنماؤں کی اب کوئی پہچان نہیں ہے؛ البتہ اے ایم آئی میں وہ بھی صرف اسدالدین اویسی، ترنمول کانگریس میں ممتا بنرجی، بہت حد تک شرد پوار کو چھوڑ کر اب کوئی دوسرا نیتا نہیں جسے عوام جانتی ہو اور سیاست کا متبادل سمجھتی ہو_ انہوں نے گویان سمندر میں گر کر خود ہی کو ضم کردیا ہے، تاہم مہاراشٹر کی سیاست نے انہیں گمشدگی سے نکلنے اور خود کو بنانے کا سبق دیا ہے۔ ممکن ہے کہ اب وہ تمام پارٹیاں جاگ جائیں جنہوں نے خود کو بی جے پی میں ختم کردیا ہے، اور وہ سیاست دان بھی اٹھ کھڑے ہوں جنہوں نے اپنی پہچان کھو دی ہے۔*

7987972043 10/12/2019

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔