خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے قسط 2
از : محمد ہارون قاسمی ، فون ۔ 9412658062
انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ لوگ کسی عام آدمی سے ملنا بات کرنا یا کسی کے خط وغیرہ کا جواب دینا پسند ہی نہیں کرتے ہیں حتی کہ اگر آپ ان کے دروازے پر بھی جاکر کھڑے ہوجائیں گے تب بھی وہ آپ سے نہیں ملیں گے یہی ان کا مزاج ہے اور یہی ان کا طریقہ سیاست ہے ۔۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک بار میں نے خود ان لوگوں سے کہاتھا کہ آپ لوگوں سے ملتے کیوں نہیں ہیں ان سے بات کیوں نہیں کرتے ہیں ان کے مسائل کیوں نہیں سنتے ہیں ؟؟ تو اس پر ان کا جواب تھا ۔۔۔۔۔۔۔
؛؛؛ ارے چھوڑئیے ۔۔۔۔۔ سب کچھ ٹھیک تو چل رہا ہے ۔۔۔۔ مزے لو اور عیش کرو ۔۔۔۔ اور بس ؛؛؛
ایم آئی ایم کے اس سابق اہل کار کا کہنا تھا کہ اہل مجلس کے اس مکروہ نظریہ کے سامنے آنے کے بعد میں نے مجلس کو خیرآباد کہدیا اور اب میرا ایم آئی ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔
ہم کچھ سمجھ ہی نہیں پارہے تھے کہ ہمیں اپنی قیادت کے متعلق یہ کیسے تجربات کا سامنا ہے ۔ ہم کوئی فیصلہ ہی نہیں کرپارہے تھے کہ ہم اپنے مسیحاوں کے بارے میں آخر کیا نظریہ قائم کریں ۔ ہم اس سوچ میں گم تھے اور بار بار ہمارے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا تھا کہ کیا واقعی ہماری قیادت کا اصل چہرہ یہی ہے ؟؟؟؟؟
مگر نہ جانے کیوں ہمارا دل ابھی بھی اپنے قائدین سے متعلق اس منفی اور مکروہ فکر کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا ۔ اور فکر و ذہن کے اندر تاویلات کا ایک سیلاب امنڈ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ شاید اتمام حجت کے لئے ابھی ایک اور چوٹ لگنی تھی ۔ چنانچہ اس دوران ہماری ایک نہایت سلیم الطبع صالح اور متفق علیہ سیاسی شخصیت جو راجیہ سبھا کے ایم پی بھی رہ چکے ہیں سے بات چیت ہوئی ہم نے ان کے سامنے اپنی اویسی صاحب سے متعلق کارگزاری رکھی تو انہوں نے ہم سے کہا ۔۔۔
ارے صاحب اویسی صاحب کا کیا کہئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں خود حیدرآباد میں تھا میں نے خود ملنے کے لئے جناب والا سے وقت مانگا مگر مجھے تک محترم نے ملنے کا وقت نہیں دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہماری اس مستند اور قابل اعتماد قیادت کی صورت حال ہے جسے ہم اپنا سچا مسیحا تصور کرتے ہیں ۔ سوچئے پھر عام قیادت کی صورت حال کیا ہوگی ۔۔ ہم اپنی سادہ لوحی کی بنیاد پر کہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے بالکل غیر متوقع ناقابل یقین اور نہایت تلخ تجربات تھے ۔ جن کے بعد ہمارا ذہن چکرا نے لگا اور ہمارے دل و دماغ پر ایک حوصلہ شکن مایوسی کا احساس چھانے لگا ۔۔
اور اب شاید ہمارے پاس اپنی قیادت سے متعلق کوئی حسن ظن قائم رکھنے کےلئے کوئی جواز نہ تھا اور نہ اب ہمارے لئے کسی تاویل کی کوئی گنجائش باقی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب تقریبا یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوچکی تھی کہ دریا سے کہیں زیادہ بڑا اور خطرناک طوفان تو کشتی کے اندر موجود ہے ۔۔۔۔
اب اپنے تحفظ کی تدبیر آپ کو خود کرنی ہے اور اب اپنی تقدیر آپ کو خود اپنے قلم سے لکھنی ہے ۔۔۔کہ اب صرف یہی آپ کے لئے نجات کا واحد راستہ ہے ۔۔۔۔
ہماری اگلی منزل ملک کی معروف شخصیت محترم محمد اعظم خان صاحب کی تھی ۔ مگر اب ہمارے قدم رک چکے تھے اور ہم آگے بڑھ نے کی ہمت نہیں جٹا پارہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے اپنی اس بچکانہ سی کوشش اور کاوش کا ذکر ہندوستانی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے ایک عظیم دانشور اور مشہور صحافی سے کیا تو انہوں نے نہایت جذباتی لہجہ میں فرمایا کہ ہر مسجد کے سامنے ایک بورڈ لگا دیجئے جس پر ان تمام نام نہاد لیڈرس کے نام درج ہوں اور اس فہرست میں میرا نام بھی شامل کیجئے اور اوپر جلی حروف سے لکھ دیجئے ۔۔
* یہ غداران قوم ہیں*
انہوں نے مزید ہماری اسی بات کی تائید کرتے ہوئے جس کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں کہا کہ اب وقت آگیا ہے موجودہ نام نہاد قیادت پر اپنی توجہ اور توانائی صرف کرنےکے بجائے نئی نسل سے نئی قیادت وجود میں لانے کی کوشش کیجئے کہ صرف یہی ملت کے مسائل کا آخری حل ہوسکتا ہے ۔۔۔۔
یہ چند نام درج مثالیں تو ہم نے علامتی طور پر ذکر کی ہیں ورنہ اس دوران اوسط درجے کی قیادت کی جو ذلت آمیز کارگزاریاں سامنے آئیں ہیں وہ رونگٹے کھڑے کردینے والی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات اگر صرف یہیں تک ہوتی کہ موجودہ قیادت ملت کے مسائل سے غافل اور بے پرواہ ہے اور وہ قوم کے حق میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہی ہے تب بھی غنیمت تھا مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ ظالم اور نفس پرست قیادت تو قوم کی تعمیر و ترقی کی راہ میں ایک بھاری چٹان بن کر کھڑی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
غایت درجہ غورو فکر کا مقام ہے جس قوم کی سیاست اور قیادت اپنے قومی مفادات سے دست کش ہی نہیں بلکہ ان کے خون کی پیاسی ہو جائے اس قوم کو ہلاک ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم یہاں تکمیل دعوت اور اتمام حجت کےلئے ایک بار پھر اپنے قائدین سے کچھ صاف صاف بات کرنا چاہیں گے ۔۔۔
قابل احترام قائدین ملت ۔۔
آپ نے مسلم گھرانے میں آنکھیں کھولی ہیں آپ نے مسلم قوم کی آغوش میں پرورش پائی ہے خدا تعالی نے آپ کو قابل رشک صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔۔ اور ہم فخر سے کہ سکتے ہیں کہ شاید دوسری قوموں میں آپ کے ہم مثل اور آپ کے ہم پلہ ایک لیڈر بھی موجود نہیں ہے ۔۔ مگر یہ اس قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے اپنی کوکھ سے آپ جیسے عظیم سیاسی سپوتوں کو جنم دیا مگر یہ قوم پھر بھی بانجھ کی بانجھ ہی رہی ۔۔
آپ ملت کا بڑا قیمتی سرمایہ تھے قوم کو آپ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں آپ تو اپنی قوم کی تعمیر میں بہت بڑا کردار ادا کرسکتے تھے آپ تو اپنی قوم کو پستیوں سے اٹھاکر بلندیوں پر لیجا سکتے تھے آپ تو اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لا سکتے تھے آپ تو ملکی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرسکتے تھے آپ تو قومی اور اجتماعی قیادت کا فرض انجام دے سکتے تھے ۔۔
مگر آپ نے اپنی خداداد صلاحیت اپنی علمی لیاقت اپنی ملی غیرت اور اپنے قومی مفادات کو چند نام چند عہدے اور چند کرسیوں کے حقیر سے معاوضہ پر کفر کی رذیل ترین قوتوں کے ہاتھوں فروخت کردیا ۔۔۔ آپ نے اپنے سے کمترین درجہ کے لوگوں کی اقتدا اور غلامی کا ذلت ناک راستہ اختیار کیا ۔۔ اور اس پر آپ کا ضمیر آپ کو ملامت تک نہ کرسکا اور آپ کے اندر یہ احساس تک نہ جاگ سکا کہ آپ کا مقام کیا ہے اور آپ کہاں کھڑے ہیں آپ کی حیثیت کیا ہے اور آپ کس کی اتباع کر رہےہیں ۔ اور اس پر المیہ یہ کہ آپ اس صورت حال پر پوری طرح مسرور و مطمئن ہیں ۔۔۔ ۔
اغیار نے آپ کی طاقت آپ کی حیثیت اور آپ کی صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔۔ انہوں نے اپنی قوموں کی بہترین انداز میں تعمیر کی ۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جو قومیں زمین پر چلنا نہیں جانتی تھیں وہ آسمانوں پر اڑنے لگیں وہ فرش سے عرش پر پہنچ گئیں ۔ ان کی زندگی جگمگا اٹھی ۔۔۔ اور یہ سب کچھ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے مگر پھر بھی آپ کے سینے کے اندر قومی عصبیت کا کوئی جذبہ بیدار نہ ہوسکا ۔۔۔
آپ کی صلاحیتیں آپ کی قوم کے کسی کام نہ آسکیں یہ قوم تاریکیوں میں بھٹکتی رہی اور اس پر چھائے ہوئے تباہی و بربادی کے سیاہ بادل مزید گہرے ہوتے چلے گئے ۔
قوم کو توقع تھی کہ آپ جہاں ہیں وہاں اپنے قومی حقوق کی حفاظت کا فرض انجام دیں گے اور باوقار طریقہ سے مساویانہ سطح پر اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرینگے اپنی سیاسی پارٹیوں میں پوری قوت اور مضبوطی کے ساتھ اپنی قوم کی نمائندگی کریں گے ۔ مگر سوء قسمتی کہ ایسا بھی نہیں ہوسکا آپ اپنی قوم میں اپنی پارٹیوں کے نمائندے بن کر تو گئے مگر آپ اپنی پارٹیوں میں اپنی قوم کی کوئی نمائندگی نہ کر سکے ۔ آپ نے اپنی قوم کو اسی غلامی اور محکومی کی راہ کی طرف بلایا جسے آپ نے صرف اتنی حقیر سی قیمت کے عیوض اختیار کیا تھا کہ آپ کی شخصی زندگی میں کچھ ظاہری چمک دمک اور کچھ عارضی روشنی ہوجائے ۔۔۔
یہ قوم پھر بھی آپ کو اپنا محسن سمجھتی رہی اور پوری وفاداری کے آپ کی اطاعت کرتی رہی آپ نے اس کو جس راہ پر ڈال دیا یہ آنکھیں بند کرکے اسی پر چلتی رہی آپ نے اس کو جس کی اطاعت کے لئے کہا اس کی اطاعت کرتی رہی جس کی چاکری کے لئے کہا اس کی چاکری کرتی رہی جس کی غلامی کے لئے کہا اس کی غلامی کرتی رہی ۔۔۔
اس قوم کی زندگی اجڑتی رہی اس کے حقوق پامال ہوتے رہے اس کی تہذیب و ثقافت کے نقوش کو مٹایا جاتا رہا اس کے ایمان و عقائد پر چوٹ کی جاتی رہی اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود اپنے ہی ملک کی سرزمین اس پر تنگ کردی گئی لیکن آپ کے سینے کے اندر کوئی کسک پیدا نہیں ہوئی ۔اور اس سب سے بے پرواہ آپ کی زندگی پورے تسلسل کے ساتھ اپنے ڈھنگ پر چلتی رہی ۔ خدا کا گھر آپ کی آنکھوں کے سامنے ڈھادیا گیا مگر آپ کے دل کے اندر کوئی درد پیدا نہیں ہوا اور آپ اپنی شخصی اور اغیار کی اجتماعی زندگی کی تعمیر میں لگے رہے ۔۔ یہ قوم چوٹ پر چوٹ اور زخم پر زخم کھاتی رہی مگر پھر بھی آپ کو اپنا کہتی رہی اور آپ کے نام پر فخر کرتی رہی ۔۔۔
اسمبلی الیکشن کے موقع پر ایک شخص جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور ایک ہی ہاتھ سے رکشہ چلاتاتھا اور اسی سے اپنے بچوں کی گزر بسر کرتا تھا ۔ ہم نے دیکھا کہ اس نے اپنا رکشہ ایک درخت کے نیچے کھڑا کیا اور پولنگ بوتھ کی طرف جانے لگا ہم نے اس کو آواز دی وہ لوٹ کر آیا ہم نے اس کا نام پوچھا اس نے اپنا نام بتایا ہم نے پوچھا اپنا رکشہ چھوڑ کر کہاں جارہے ہو اس نے بتایا کہ میں ووٹ ڈالنے جارہاہوں ہم نے اس سے کہا کہ کیا ملےگا آپ کو ووٹ ڈال کر ؟؟؟؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں جانتا ہوں کہ مجھے کچھ بھی ملنے والا نہیں ہے مجھے آج بھی رکشہ چلانا ہے مجھے کل بھی رکشہ چلانا ہے لیکن میں صرف اس لئے ووٹ ڈالنے جارہا ہوں کہ میری خواہش ہے کہ میرا مسلمان بھائی کامیاب ہو جائے ۔۔۔ اسی میں میری خوشی ہے اور یہی میرے لئے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہیں اس قوم کے جذبات ۔ جس کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ قوم کسی اپنا قائد نہیں مانتی ۔۔۔۔
مگر آپ نے کیا دیا اس قوم کو ؟؟؟؟
ذلت مسکنت تباہی اور بربادی یہی کچھ تو ملا ہے آپ کی زیر قیادت اس قوم کو ۔۔ ایک بار خود سے سوال تو کیجئے اس قوم کے رہنما آپ ہیں اس قوم کی قیادت آپ کے ہاتھوں میں ہے اور یہ قوم ذلت اور پسماندگی کی آخری حدود کو چھورہی ہے یہاں تک کہ دلتوں اور شودروں سے بدتر زندگی جینے پر مجبور ہے ۔۔۔۔
کون ہے ذمہ دار اس کا ؟؟ کس کو ذمہ دار ٹہرائیں گے آپ ؟؟؟
آپ کہتے ہیں یہ قوم متحد نہیں ۔۔ اس سے بڑا بہتان اس قوم پر شاید کوئی ہو نہیں سکتا ۔۔۔ یہ قوم تو متحد ہے مگر اس کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے آپ ہیں ۔ پچیس کروڑ افراد پر مشتمل یہ قوم چاہتی ہے آپ پچیس لوگ متحد ہوجائیں ساری قوم آپ کے ساتھ ہوگی مگر آپ میں سے ہرایک چاہتا ہے کہ پچیس کروڑ مسلمان اس کی اپنی شخصیت پر متحد ہوجائے اور اسی غلامی کے راستے پر آجائے جہاں اس کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
کیا کرے یہ قوم ؟؟ کہاں جائے ؟؟ کس کو اپنا رہبر تسلیم کرے ؟؟؟؟ سوچئے مجرم کون ہے ؟؟؟
بڑی سخت نا انصافی کی ہے آپ نے اپنے ساتھ اور اپنی قوم کے ساتھ ۔۔۔ خدا تعالی آپ کو معاف کر دے ۔۔۔۔۔
اگر ہماری اس قدر تلخ گفتگو سے آپ کو تکلیف پہنچ رہی ہو تو ہم معذرت چاہتے ہیں ۔ ہمارا مقصد آپ کی دل آزاری بالکل نہیں ہے ۔ ہمارا مقصد آپ کو لعنت ملامت کرنا ہرگز نہیں ہے ۔۔ یہ سب کچھ ہم آپ کو اپنا سمجھ کر کہ رہے ہیں ہم ابھی بھی آپ کو اپنا سمجھتے ہیں ہمیں ابھی بھی آپ سے بہت کچھ امیدیں وابستہ ہیں ۔۔ ہم صرف آپ کے اندر چھپے اس قومی جزبے کو بیدار کرنا چاہتے ہیں جو آپ کا سب سے قیمتی جوہر ہے جو درحقیقت آپ کی روح ہے اور جو اس قوم کی فوز و فلاح کا ضامن اور اس کی زندگی کا محافظ ہے ۔۔۔
آپ مسلمان ہیں آپ کے سینے کے اندر ایمان کی روشنی ہے آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں آپ اپنے نبی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں آپ کا یقین ہے کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے ۔ آپ کو قبر کی تنگ و تاریک کوٹھری میں تنہا سونا ہے پھر کل آپ کو خدا کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے ۔ وہاں پوری قوم کی تباہی اور بربادی کا بوجھ آپ کے کاندھوں پر ہوگا اور آپ کی قوم آپ کے خلاف گواہی کے لئے کھڑی ہوگی ۔ اور اس وقت آپ سے پوچھا جائےگا کہ خدا تعالی کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟؟؟ سوچئے کیا جواب ہوگا آپ کے پاس ؟؟۔
اس وقت آپ کو اپنے نبی کی شفاعت کی بڑی سخت ضرورت ہوگی ۔ لیکن اگر کل روز محشر (خدا نہ کرے) آپ اپنے انہیں ائمتہ الکفر کی صف میں کھڑے نظر آئے اور آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی طرف سے اپنا چہرہ پھیر لیا تو سوچئے ۔۔ اس وقت آپ کا کیا حال ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
آج وقت ہے ۔۔۔۔۔۔ اپنا احتساب کیجئے ۔۔۔ ۔ مرنے کے بعد کا مرحلہ بڑا سخت ہے ۔ اپنی زندگی اور اس کی سرگرمیوں پر ایک مومن کی حیثیت سے غور کیجئے ۔۔۔ خدا تعالی نے آپ کو سب کچھ دیدیا ہے ۔۔۔ اب اللہ کےلئے اپنی زندگی کا رخ بدل دیجئے ۔۔۔ آخرت کی دائمی کامیابی اور بیش بہا نعمتوں کے بھی آپ مالک ہونگے ۔۔۔ اور اس سسکتی اور دم توڑ تی قوم کو بھی ایک نئی زندگی ملےگی ۔
خدا کی ذات پر بھروسہ رکھئے اس کی طاقت کا یقین دل میں بٹھائیے آج جو طاغوتی لشکر آپ کو طاقت ور اور ناقابل تسخیر نظر آرہا ہے اس کا خوف دل سے نکالئے خدا کی نظر میں اس کی حیثیت ایک مچھر کے پر اور ایک مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔
اپنے اسلاف کی تاریخ پر نگاہ ڈالئے اپنے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا کیجئے ۔ وقت کی چال کو سمجھئے اور قوم کی تعمیر کیجئے ۔۔۔ اگر بہتر سمجھیں تو ہمارے مجوزہ ایکش پلان پر غور کیجئے اور اسی سے قومی شیرازہ بندی اور خیروفلاح کا آغاز کر دیجئے ۔۔۔ اور اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشیں کر لیجئے کہ قومی فلاح کا راستہ نقصان کا راستہ ہرگز نہیں بلکہ یہ سراسر نفع کا راستہ ہے جس پر دونوں جہان کی کامیابیوں کی منزل واقع ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے مہرے پٹ رہے ہیں تجھے مات ہو رہی ہے ذرا رخ بدل دے ناداں تیرے ہاتھ میں ہے بازی
--------------------------------------------------------------------------------------- ایک گزارش ۔۔۔ ہماری یہ ناقص سی تحریر جن حضرات تک پہنچے وہ اپنا ملی فریضہ سمجھ کر اس کو اس کے اصل مخاطبین تک پہنچانے کی کوشش کریں انشاءاللہ وہ بہتر اجر کے مستحق قرار پائیں گے ۔۔۔ جزاک اللہ تعالی فی الدارین ۔۔۔۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔