شہریت ترمیمی ایکٹ اور حکومت کے عزائم

؛؛؛ شہریت ترمیمی ایکٹ اور حکومت کے عزائم ؛؛؛

از ، محمد ہارون قاسمی

کسی جمہوری ریاست پر سب سے زیادہ نازک وقت وہ ہوتا ہے جب جمہوریت کی راہ سے غیر جمہوری عناصر اس کے اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اس وقت جمہوریت اپنی معنویت کھودیتی ہے اور جمہوریت نواز طبقات سخت آزمائش میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔۔ ہٹلر ۔ مسولینی اور دنیا کے دیگر ڈکٹیٹر اور تانا شاہ جمہوریت کے راستے سے ہی اقتدار تک پہنچے انہوں نے راشٹر واد جیسے پر کشش نعروں سے عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ان کی حمایت سے اقتدار پر قابض ہوگئے اور جب اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط ہو گئی تب انہوں نے سب سے پہلے جمہوریت کا گلا گھونٹا ۔ اس کے آئینی ڈھانچہ کو تباہ کیا اپنے سیاسی اور نظریاتی دشمنوں کو چن چن کر ٹھکانے لگایا اور اپنے ہی ملک کے عوام پر ظلم و ستم کی وہ داستانیں رقم کیں جن کا نام سنکر آج بھی انسانی روح کانپ اٹھتی ہے ۔۔۔

بدقسمتی سے آج ہمارا ملک بھی اسی نازک اور پر خطر دور سے گذر رہا ہے جہاں کچھ غیر جمہوری نظریات کے حامل لوگ جمہوریت کی راہ سے ملک کے اقتدار تک پہنچ گئے ہیں ۔ انہوں نے ہندوتوا اور راشٹرواد جیسے پر کشش اور جذباتی نعروں سے اکثریتی طبقہ کو اپنی طرف متوجہ کیا ان کے ذہنوں کے اندر ملک کی اقلیتوں کے خلاف نفرت اور عداوت کا زہر بھرا اور وہ اپنی اسی فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت پر مبنی مکروہ سیاسی پالیسی کے ذریعہ ملک کا اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اب جبکہ اقتدار پر ان کی گرفت بہت حد تک مضبوط ہوچکی ہے ملک کی جمہوریت ان کے نشانہ پر ہے ۔ اپوزیشن کو تقریبا زمیں دوز کردیاگیا ہے اور ملک کی مذہبی اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے وجود سے سرزمین ہندوستان کو پاک کرکے اس کو ہندو راشٹر بنانے کے عظیم منصوبہ پر کام جاری ہے ۔ مسلمانوں کے ایمان و عقائد ان کے مذہبی شعائر اور ان کے تہذیبی تشخصات پر مسلسل چوٹ کی جارہی ہے اور اب ان کی شہریت اور نیشنیلٹی پر ایک آخری اور فیصلہ کن حملہ کی تیاری ہے ۔۔۔ چنانچہ شہریت سے متعلق حکومت کے ذریعہ لایا جانے والا نیا قانون ۔ شہریت ترمیمی ایکٹ یعنی۔۔ سی اے اے ۔۔ حکومت کے اسی منصوبہ کی بنیادی کڑی ہے ۔۔۔ ضرورت ہے کہ ہم اس نئے قانون ۔۔ سی اے اے ۔ اور اس سے جڑے ۔ این آر سی ۔ اور این پی آر ۔کو اچھی طرح سمجھیں کہ در اصل یہ ہیں کیا ۔ ان کا باہم کیا تعلق ہے ۔ ان کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ ان قوانین کے پس پردہ حکومت کے کیا مقاصد ہیں اور ان کے ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔۔۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو آج پورے ملک میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور جن کے سبب آج پورا ملک ایک ہیجانی اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہے ۔۔۔

؛؛ سی اے اے ؛؛ یعنی شہریت ترمیمی ایکٹ ۔ پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے این آر سی آنے والا ہے اور این پی آر پر کام جاری ہے ۔۔ سی اے اے ۔ کا مطلب حکومت کے ذریعہ یہ بتایا جارہا ہے کہ ہندوستان کے پڑوس میں آباد تین اسلامی ممالک پاکستان بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلمس یعنی ہندو بودھ جین سکھ پارسی اور کرسچن کو اس قانون کے ذریعہ ملک کی شہریت دی جائے گی جبکہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان اس قانون سے مستثنی رہیں گے اور وہ ہندوستان کی شہریت حاصل نہیں کر سکیں گے ۔۔۔۔۔۔۔

مذہبی تفریق پر مبنی اور ملک کے سیکولر آئین سے متصادم حکومت کے ذریعہ لایا جانے والا یہ سیاہ قانون اس بات کا صاف اعلان ہے کہ ہندوستان کا مسلمان اس کی نظر میں برابر کا شہری نہیں ہے اور اس کو مذہب کی بنیاد پر کسی بھی حق سے محروم کیا جاسکتا ہے ۔۔۔

ظاہر ہے ہندو قوم پرست حکومت کا یہ اقدام ملک کے سیکولر آئین پر براہ راست حملہ ہے اور اس کے جمہوری ڈھانچہ کو تباہ کرنے کی ایک خطرناک سازش ہے کیونکہ ہندوستان کا آئین مذہب کی بنیاد پر کسی طبقہ کے ساتھ کسی طرح کی تفریق کی کوئی اجازت نہیں دیتا ۔۔۔۔ لہذا ملک کا مسلمان اور اس کا سیکولر سماج حکومت کے اس غیر آئینی اقدام پر سراپا احتجاج ہے اور اسے یہ کالا قانون کسی قیمت قابل قبول نہیں ہے ۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ حکومت کو یہ ایکٹ لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس قانون کے پس پردہ اس کے اصل مقاصد کیا ہیں ۔۔۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہمارے پڑوس میں تین اسلامی ممالک ہیں جہاں مذہب کی بنیاد پر غیر مسلم مائنارٹیز پر سخت مظالم ڈھائے جاتے ہیں لہذا ان کو شہریت دینا ہمارا اخلاقی فرض ہے ۔۔۔ حکومت کا مزید کہنا ہے کہ ہمارا لایا ہوا یہ قانون در اصل مہاتما گاندھی کے خواب کی تعبیر ہے اور کانگریس پارٹی کے منصوبہ کی تکمیل ہے ۔۔ اور مسلمانوں کو اس قانون سے اس لئے مستثنی رکھا گیا ہے کیونکہ وہ ان ممالک میں اکثریتی حیثیت میں ہیں لہذا وہاں مذہب کے نام پر ان کے ستائے جانے کا کوئی امکان ہی موجود نہیں ہے ۔۔ حکومت کا دعوی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں سے اس قانون کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ قانون تو پڑوسی اسلامی ممالک کے ستم رسیدہ غیر مسلموں کو شہریت دینے کے لئے ہے یہ کسی ہندوستانی کی شہریت لینے کے لئے نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ذرا دیکھئے کہ حکومت مذکورہ ایکٹ سے متعلق کس قدر جھوٹ فریب اور دروغ گوئی سے کام لے رہی ہے اور اپنے مکروہ عزائم کی کس شاطرانہ طریقہ سے پردہ پوشی کر رہی ہے ۔۔۔

یہاں حکومت سے ہمارے چند سوالات ہیں ۔۔۔

کیا مہاتما گاندھی کے خواب اور کانگریس کے منصوبہ میں ۔۔ سی اے اے ۔۔ جیسے ایکٹ کے ذریعہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ملکی شہریت سے محروم کرنا بھی شامل تھا ۔۔۔ ؟؟ ہرگز نہیں ۔۔ پھر آپ کا اپنے اس غیر آئینی اقدام کو مہاتما گاندھی اور کانگریس کی طرف منسوب کرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟؟ ہم حکومت سے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اس ایکٹ کے بغیر مذکورہ ممالک سے آنے والے مظلوم غیر مسلموں کو شہریت نہیں دی جاسکتی تھی ؟؟ کیا دستور ہند میں کوئی ایسی شق موجود تھی جو مذکورہ ممالک کے غیر مسلم مظلومین کو شہریت دئیے جانے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی جس کے سبب آپ کو یہ ایکٹ لانے کی ضرورت پیش آئی ؟؟

ظاہر ہے ہندوستان کے آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں تھی اور اس قانون کے بغیر بھی ان ممالک کے غیر مسلموں کو شہریت دی جا سکتی تھی ۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قانون اس مقصد کے لئے تو نہیں لایا گیا ہے جو حکومت کے ذریعہ بیان کیا جارہا ہے بلکہ اس کا مقصد کچھ اور ہے جس کو حکومت چھپانے کی کوشش کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کہتے ہیں کہ مذکورہ مسلم اکثریتی ممالک میں مسلمانوں کے مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے لہذا وہ یہاں کیوں آئیں گے ۔۔۔۔۔۔؟ بالکل صحیح ۔۔۔ مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ مذکورہ اسلامی ممالک میں کسی مسلمان کے مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے لہذا وہ یہاں ہندو اکثریتی ملک میں آئےگا ہی نہیں پھر آپ کو مسلمان اقلیت کو اس قانون سے مستثنی قرار دینے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔۔۔۔؟ اگرآپ اس ایکٹ کی لینگویج یہ رکھتے کہ ہم پڑوس کے اسلامی ممالک سے آنے والے ان تمام لوگوں کو سٹیزن شپ دیں گے جن کو مذہب کی بنیاد پر مظالم کا شکار ہونا پڑا ہے تب بھی آپ کا مقصد پورا ہوجاتا اور آپ پر فرقہ پرستی اور مذہبی تفریق جیسا کوئی سنگین الزام بھی نہ آتا اور ملک میں یہ ہنگامہ آرائی اور کوئی طوفان بھی برپا نہ ہوتا ۔۔ اور اگر تھوڑا اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے اور یہ کہدیتے کہ بلا تفریق مذہب مذکورہ ممالک کے تمام مظلومین کےلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بقول آپ کے مسلمان تو ان ممالک سے آنے والے ہیں ہی نہیں ۔۔۔۔ پھر مزہ کی بات یہ ہے کہ آپ کا دعوی ہے کہ ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں انہیں اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے 566 مسلمانوں کو شہریت دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ کیا بات ہے ۔ مسلمانوں کو شہریت دے بھی رہے ہیں اور ان کو شہریت نہ دینے کا قانون بھی لارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آخر یہ معمہ ہے کیا ؟؟؟ آئیے ۔۔۔۔ ہم سمجھاتے ہیں کہ حکومت کی یہ متضاد پالیسی در اصل ہے کیا اور اس کے پس پردہ حکومت کے کیا مذموم عزائم ہیں ۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت سفید جھوٹ کے پردہ میں کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون شہریت دینے کے لئے ہے یہ کسی کی شہریت لینے کے لئے نہیں ہے ۔۔۔۔ یہ جھوٹ ہے یہ فریب ہے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اس قانون کا مذکورہ اسلامی ممالک کے غیر مسلموں کو شہریت دینے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور یہ کالا قانون صرف اور صرف ہندوستان کی مسلم اقلیت کو اس کی شہریت سے محروم کرنے کےلئے ہی بنایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ محض ہمارا کوئی خشک اور جذباتی دعوی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے شواہد ہیں دلائل ہیں ۔۔۔ ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ پڑوس کے اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے غیرمسلموں کو تو اس قانون کے بغیر بھی شہریت دی جاسکتی تھی ۔۔۔۔ لہذا حکومت کا یہ کہنا کہ یہ ایکٹ مذکورہ ممالک کی مظلوم مائنارٹیز کو شہریت دینے کے لئے لایا گیا ہے بالکل غلط اور سراسر جھوٹ ہے ۔۔۔۔۔ اب رہی دوسری بات کہ یہ قانون ہندوستان کی مسلمان اقلیت سے اس کی شہریت چھیننے کے لئے لایا گیا ہے ۔۔۔۔۔ تواس مخفی حقیقت کو سمجھنے کے لئے آپ کو تھوڑا پس منظر میں جانا ہوگا ۔۔۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی حال ہی میں آسام میں ۔ این آر سی ۔ لائی گئی تھی ۔۔۔۔ (آپ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ آپ ہندوستان کے شہری ہیں ) جہاں قریب چالیس لاکھ لوگ ۔ این آر سی ۔ میں نہیں آسکے تھے یعنی چالیس لاکھ لوگ اپنی شہریت ثابت نہیں کرسکے تھے ۔۔۔۔ اس پر زبردست واویلا ہوا ہاہا کار مچا اور حکومت کے ذریعہ اس کی دوبارہ جانچ کرائی گئی مگر اس کے بعد بھی قریب 19 لاکھ لوگ این آر سی میں نہیں آسکے ۔۔۔۔۔ یعنی اب یہ طے ہوگیا کہ ہندوستان میں رہنے والے یہ 19 لاکھ لوگ ہندوستانی شہری نہیں رہے بلکہ یہ لوگ بنگلہ دیشی پاکستانی یا پھر افغانی ثابت ہوئے ہیں جو غیر قانونی طریقہ سے ہندوستان میں گھس آئے ہیں یعنی یہ گھس بیٹھئے قرار پائے ہیں ۔۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کا کیا کیا جائے پڑوسی ممالک ان کو اپنا شہری ماننے کے تیار نہیں ہیں لہذا وہاں ان کو دھکیلا نہیں جاسکتا اس لئے ان کو ملک کے اندر ہی ڈیٹینشن کیمپوں میں رکھے جانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے لئے کیمپوں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے ۔۔۔

مگر یہاں حکومت کے سامنے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ ان 19 لاکھ گھس بیٹھیوں میں 13 لاکھ ہندو نکل آئے اور ان میں مسلمان صرف چھ لاکھ نکلے ۔۔۔۔ یہاں حکومت مخمصہ میں پھنس گئی مقصد تھا آسام کے مسلمانوں کو ملکی شہریت سے محروم کرکے ڈیٹینشن کیمپوں میں ڈالنا ۔۔۔ مگر یہاں جب ایک بہت بڑی تعداد ہندووں کی نکل آئی تو صورت حال بدل گئی ۔۔۔۔۔۔ اب حکومت کو اس راہ کی تلاش تھی جس کے ذریعہ آسام کے ان 13 لاکھ ہندووں کو تو شہریت دیکر ملک میں رکھا جاسکے جبکہ ان چھہ لاکھ آسامی مسلمانوں کو ملک کی شہریت سے محروم کرکے ڈیٹینشن کیمپوں میں ڈالنے کا راستہ صاف ہوجائے ۔۔۔

اس کے لئے حکومت کے ذریعہ یہ ۔ سی اے اے ۔ یعنی شہریت ترمیمی ایکٹ لایا گیا ہے جس میں باضابطہ یہ صراحت کرنی پڑی کہ پڑوس کے ممالک کے غیر مسلموں کو تو شہریت دی جائے گی لیکن ان ممالک کے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی ۔۔۔۔۔

لہذا اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیجئے کہ اس ایکٹ کا مقصد صرف مسلمانوں کو ملکی شہریت سے محروم کرنا ہے جبکہ بتایا یہ جارہاہے کہ یہ ایکٹ دوسرے مسلم ممالک سے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کے لئے ہے ۔۔۔۔ ورنہ حکومت صاف صاف بتائے کہ آسام کے ان 19 لاکھ لوگوں کے متعلق اس کا کیا منصوبہ ہے اور کیا وہ ہندو مسلمان سب کو ڈیٹینشن سینٹر بھیجے گی یا یہ ڈیٹینشن سینٹر صرف مسلمانوں کے لئے ہی تعمیر کئے جارہے ہیں ۔۔ ؟ اور پھر پارلیمنٹ میں گرہ منتری کہتے ہیں کہ ہم سارے ملک میں این آر سی لائین گے ۔۔۔۔۔۔ صاف ہے کہ جب صرف آسام میں 19 لاکھ لوگ این آر سی میں نہیں آسکے تو پورے ہندوستان سے تو کروڑوں لوگ این آر سی میں نہیں آسکیں گے اب فرض کیجئے کہ اگر 19 کروڑ لوگ این آر سی میں نہیں آتے ہیں اور ان میں 13 کروڑ ہندو ہیں اور چھہ کروڑ مسلمان ہیں تو 13 کروڑ ہندووں کو تو ۔ سی اے اے ۔ کے ذریعہ شہریت مل جائے گی جبکہ چھہ کروڑ مسلمانوں کو اسی قانون کے تحت شہریت سے محروم کرکے ڈیٹینشن کیمپوں میں آباد کردیا جائے گا یہ ہے شہریت ترمیمی ایکٹ یعنی سی اے اے کا خلاصہ اور یہ ہے حکومت کی دجل و فریب پر مبنی وہ خطرناک سازش جس کے خلاف جامعہ ۔ علیگرھ اور دیگر یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹس ۔ جمہوریت کے حامی دانشور ۔ سیاسی پارٹیاں ۔ اور سیکولر عوام ملک بھر میں زبردست احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں ۔۔۔۔ اور ان بے مثال اور تاریخ ساز مظاہروں نے ملت اسلامیہ کے اندر ایک حرکت اور حرارت پیدا کی ہے اور اس کے مردہ جسم میں ایک روح پھونک دی ہے اور ان مظاہروں کا امید افزا اور خوش آئین پہلو یہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم ۔۔ بہت سے دانشور اور بہت سے پولٹیشن بھی ان مظاہروں میں شامل ہیں اور عالمی سطح پر ان کو زبردست حمایت حاصل ہو رہی ہے ۔۔۔۔ حکومت سخت دباو کا شکار ہے اور وہ اپنی پروپیگنڈا مہم کے ذریعہ ان کو دبانے اور ان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔۔۔۔ جس کے لئے حکومت بار بار اعلان کر رہی ہے کہ مسلمانوں کی شہریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ این آر سی نہیں آرہا ہے ۔ ڈیٹینشن کیمپوں کی بات ایک افواہ ہے اور یہ مظاہرے اپوزیشن کے اشارے پر ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ سب کچھ حکومت کی اسی چھوٹی پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہے ۔۔۔۔

لہذا مسلمانوں کو حکومت ۔ اس کی مشینری ۔ اس کے وفا شعار میڈیا اور اپنے اندر چھپے آستین کے سانپوں کی سازشوں سے سخت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔۔ اور انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ کسی طرح کی قانون شکنی توڑ پھوڑ وائلینس اور فتنہ فساد ان کے کاز کے لئے سخت نقصان دہ ہے ۔۔

مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ موت اور زندگی کے درمیان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں اگر حکومت کے خلاف مظاہروں کی شکل میں اٹھنے والی یہ تحریک کامیاب ہوگئی تو آپ ایک باعزت شہری کی حیثیت سے زندہ رہ سکتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ یہ تحریک کسی نتیجہ کے بغیر دم توڑ گئی تو پھر آپ کبھی سر اٹھا کر نہیں جی سکیں گے ۔۔۔ لہذا ہر فرد ملت کا فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہکر پوری قوت کے ساتھ اس تحریک کی حمایت کرے کیونکہ یہ اس کا قانونی حق ہے اور یہی اس کے سامنے آخری راستہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔