شاعر مشرق علامہ اقبال سے ان کے استاذ پروفیسر آرنلڈ ایک روز کہنے لگے مذہبی طبقے سے لیکر ایک عام مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کے متعلق اس کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے تو یہ میرے لئے تعجب خیز امر نہیں ہے لیکن آپ جیسا فلسفی دانشور اور روشن خیال شخص جب اس پر یقین کرتاہے تو حیرت کی انتہا نہیں ہوتی ہے،
علامہ نے پورے وثوق اور پر اعتماد لہجے میں عرض کیا حضور،پیغمبر آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر نازل ہونے والی وحی پر جس قدر یقین وثوق اور شرح صدر کے ساتھ میں ایمان رکھتا ہوں۔ دوسرا کوئی مسلمان شاید نہ رکھے،
اس ایمان کی مضبوطی کی سب سے بڑی وجہ خود میرا وجود اور میرا قلب ہے' جب میں کوئی شعر لکھنے بیٹھتا ہوں تو خیالات کی وادیوں میں مضامین اور اشعار کی اس قدر کثرت ہوتی ہے اور ایسا تسلسل قائم ہوتا ہے کہ لکھنا مشکل ہو جائے۔ اندازہ کرئیے کہ جب ایک ادنیٰ امتی کے قلب پر الہامات کی اس قدر بارش ہے'تو امت کے پیغمبر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نزول وحی کا کیا عالم ہوگا۔
یہ کیفیت الہامی خداوند عالم کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے علم کی وسعت،ادب کی سیاحت۔ اور ذوق کی لطافت کے بعد اگر کوئی وجود اس نعمت سے آراستہ ہے'تو افکار ونظریات اور خیالات کی تمام شعائیں شعری پیکر میں اس طرح دھلنے لگتی ھیں جیسے منتشر ستاروں کا کہکشاں کی صورت میں نورانی اجتماع،
اور شاعری میں یہ امر مسلم ہے'کہ بغیر کسی تکلف کے الہامی کیفیت کے نتیجے میں خلق ہونے والے اشعار کی جو حیثیت ہے'۔ اور اس کا جو مرتبہ ہے' تکلفانہ کوششوں اور تک بندیوں کے نتیجے میں ظہور ہونے والے بے قیمت اشعار کے حصے کہاں؟
پاسبان کے مؤقر ایڈمن ،ممتاز عالم۔اور شعر و ادب کی قدآور شخصیت مولانا احمد ناصری صاحب کا شمار انہیں شعراء میں ہے جن کے پاس علامہ اقبال کی مذکورہ کیفیت اور وسیع تخیل کا سرمایہ موجود ہے۔ فکر کی وسعت ہے'،سخن وری کی بے پناہ صلاحیت ہے، گرد وپیش کے حالات واقعات اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی مہارت ہے'۔ ان کا کلام پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک اک شعر میں آمد کی وہی کیفیت اور خاصیت موجود ہے جس کا اقبال نے آرنلڈ سے تذکرہ کیا تھا۔ اور یہ امر واقعہ ہے'اس کا ثبوت یہ شعر دیکھیں۔ جس میں وقت کی قدر اور صحت کی اہمیت کے حوالے سے پوری تعلیمات نبوی سمٹ آئی ہے' آج موقع ہے'میسر تو غنیمت جانو۔ ورنہ اک روز ترس جاؤ گے طاعت کے لئے۔ زندگی کی شناخت اور اس کی معرفت کا پیغام اس شعر اس قدر آسانی سے نظم ہوگیاہے محسوس ہوتا ہے کہ خیالات کا آبشار بلندی سے اتر کر قلب کی مسطح وادیوں پر خراماں خراماں محو سفر ہے'۔ اور یہی بے تکلفی وبرجستگی جو تمام تصنعات سے عاری ہونے کے باوجود عام فہم لفظوں کے خوبصورت انسلاکات کا بھی لحاظ کرتی ہے۔کامیاب شاعری اور بے نظیر ترسیلی فن کی ضامن ہے حاصل یہ کہ مولانا فضیل احمد ناصری اپنے شعری کلام کی ندرت جامعیت،سلاست روانی،خیالات کی پاکیزگی وبلندی،حرف حرف اور لفظ لفظ میں زندگی کی کائنات اور اس کی مقصدیت کے حوالے سے منفرد اور عظیم شاعر ہیں'انہوں نے اپنی بے باک نظموں سے نہ صرف عہد کو متاثر کیاہے بلکہ اس فن کو وسعتوں سے ہم کنار کیا ہے'ان کی نظمیں قاری کی فکر کو مہمیز کرتی ہیں' دلوں میں انقلابی کیفیت پیدا کرتی ہیں'، عمل کے جذبے سے سرشار کرتی ہیں'وہ ملت پر ایک عرصے سے مسلط غفلتوں کے دبیز پردوں کو چاک کرتی ہے۔
مولانا فضیل صاحب کی شعری کائنات ان کے داخلی شعور کی مرہونِ منت ضرور ہے'لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ موصوف اپنے اطراف و اکناف کی دنیا،معاشرت،سیاست،اور دیگر افراد پر ان کے اثرات سے پوری طرح آگاہ نظر آتے ہیں اور ظاہر وباطن کا یہ ارتباطی عمل ان کے سارے کلام میں صاف نظر آتا ہے زندگی کی بکھری ہوئی تلخ سچائیوں کے علاوہ فنی لحاظ سے ان نظمیں غزلیں ادب کی تمام خوبیوں سے معمور ہیں'خاص طور سے اقبال کی فکر کے ساتھ ساتھ شاعری کا پورا فن اپنی تمام جمالیاتی لہروں کے ساتھ لفظ لفظ میں محسوس ہوتا ہے
شرف الدین عظیم قاسمی اعظمی
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔