*انقلاب کی آمد آمد ہے___!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
کوئی اہل جنوں کا نہیں ہم سخن سب یہاں شیخ ہیں، سب یہاں برہمن *نئی صبح بیدار ہونے کو ہے، پہاڑوں، گھٹاوں اور کوہساروں سے اک نیا کرن طلوع ہونے کو ہے، آفتاب بس نکلنا چاہتا ہے، اندھیرا بس چھٹنے کو ہے، سمندر میں عجب طغیانی ہے، لہروں میں سرکشی ہے، موجوں کی روانی ہے، موسم بدلا بدلا سا نظر آتا ہے، آسمان قدموں میں رکھ دینے والی صدائیں گونج رہی ہیں، فضائیں ناچ رہی ہیں، جھوم رہی ہیں، فاشزم کے پرخچے اڑا دینے والی تحریکات عروج پر ہیں، سڑکوں، گلیوں، چوراہوں اور میدانوں میں انسانی ریلا بہہ رہا ہے، زعفرانیت کا رنگ چڑھانے والے، فسطائیت کی ہوا چلانے والے، ملک میں یکساں سول کوڈ، ہندو راشٹر اور ہندوستانی معاشرت میں زہر گھولنے والے دہل گئے ہیں، فوجیں اپنی طاقت کا استعمال کر رہی ہیں؛ لیکن بے بس ہیں، پولس مارچ کر رہی ہے، یہاں تک کہ رواں حکومت کے اشاروں پر سنگ باری بھی کر رہی ہے، مگر حوصلہ یونہی برقرار ہے، پرواز میں کوئی کمی نہیں ہے، نوجوان خونوں نے اب انقلاب کی ٹھان لی ہے، آئین کے تحفظ اور برابری کے حق پر جم جانے کا عزم کر لیا ہے، ان فاسد کمیونزم سے آزادی حاصل کرنے اور ایک ایماندار سیکولرزم کے قیام کی قسم لے لی ہے، دہلی کی سرزمین ہو کہ بنگال، آسام، ناگالینڈ اور میزورم ہوں_ ساوتھ میں تامل ناڈو، کیرلا اور بہت حد تک کرناٹک بھی_* *اسی طرح ممبئی، یوپی، بہار غرض سبھی جگہوں سے سرفروشوں کا لشکر نکل پڑا ہے، بہت سے مقامات پر کرفیو لگا دئے گئے، آنسو گیس چھوڑے گئے، لاٹھیاں برسائی گئیں، گھسیٹ گھسیٹ کر مارا گیا، اپنے ہی ٹیکسوں پر پلنے والی سرکار سے جابرانہ قانون کیب اور اس کی پاداش میں اپنا خون ضائع کرنے اور گھر بار چھوڑ کر نکل پڑنے کی دقتیں برداشت کی جارہی ہیں، حق پر ہونے کے باوجد زمین تنگ کی جارہی ہے؛ لیکن آئین مخالف سوچ اور قانون کو چیلیج کر دیا گیا ہے، ہر طرف دیکھئے_! بس ایک ہی راگ ہے، ایک ہی سر ہے، وہی نغمہ اور وہی ساز ہے، ہندو مسلمان کا عجب اتحاد نظر آتا ہے، تاریخ ہند میں ۱۹۲۲ کے علاوہ ایسے مرحلے بہت کم آئے ہیں، جب دو مختلف کناروں نے سنگم پایا ہو، حالانکہ اسے خالص ایک گروہ کی طرف موڑنے اور انہیں ملک بدر کر کے سارا نطام ہندتو کے ہاتھوں میں سونپ دینے کی کوشش کی گئی؛ بلکہ کی جارہی ہے؛ لیکن ان کے سامنے گنگا جمنی تہذیب نے اڑنگا ڈال دیا ہے، وہ ایک سمت کو کنٹرول کرنے کی جد و جہد کرتے ہیں تو کہیں دوسری سمت سے مخالفت شروع ہوجاتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے؛ کہ گویا کسی کشتی میں متعدد سوراخ ہوگئے ہوں اور ایک کے بعد ایک ابال مارنے کو بیتاب ہو۔* اس انقلاب کی آہٹ ہی کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں موجودہ کیب قانون سازی پر انگشت نمائی کی جارہی ہے، خارجی پالیسیوں پر گہرا اثر پڑا ہے، جاپان نے اپنی ہندوستانی وزٹ رد کردی ہے، اقوام متحدہ نے بھی نوٹس لے لیا ہے، اس سے پہلے کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان میں جگ ہنسائی ہوچکی ہے، اور مستقل ہوتی جارہی ہے، اب کیب کا یہ کالا قانون ہندوستان کو بدنام زمانہ کر رہا ہے، مذہب کی بنیاد پر تفریق کی مذمت ہورہی یے، پورے ملک میں ایک حیران کن ہیجان پایا جارہا ہے، ہر طرف رسا کشی ہورہی ہے، اطمیان کی کوئی گھڑی نظر نہیں آتی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرد ( سوائے جبہ پوشوں اور خانقاہی ملاؤں کے_) گھر سے باہر ہے، حد تو یہ ہے کہ خواتین نے مورچہ سنبھال رکھا ہے، ان کی رعب دار آوازوں نے ایوان کی در و دیوار میں شگاف ڈال دیا ہے، چوطرفہ تہلکہ ہے، جنہیں دیکھ کر یہ بھی محسوس ہوتا ہے؛ کہ وہ قیادت میں مردوں سے کہیں آگے نکل جائیں گی، ہندوستان کی آئندہ تاریخ مین سرخرو ہوجائیں گی، ظلم کے خلاف اٹھنے والوں کیلئے مثال بن جائیں گی، اور کمزوروں کیلئے مشعل کا کام کریں گی؛ اگرچہ ابھی اندھیرا ہے، مسافت اب بھی دور ہے، راستے اب بھی باقی ہیں، رکاوٹیں اب بھی قائم ہیں، ابھی بہت کچھ ہونا ہے، زمانے کے بہت سے رنگ باقی ہیں۔ *ان سب کے باوجود جان لیجئے_! یہ گھٹائیں کہہ رہی ہیں کہ صبح بہت خوشنما ہوگی، اس کی شعائیں بہت ہی عمدہ اور اس کی ضو فشانی کسی رعنائی سے کم نہ ہوگی، ایک نئی قیادت کی بھی آمد آمد ہے، بوڑھی ہڈیوں کو آرام دے دیا جائے گا، حالانکہ یہ تکلیف دہ بات ہے؛ لیکن ممکن ہے کہ محض چند مسائل ہو ہلا کرنے والوں اور ملک و ملت کو پس پشت ڈال کر تسبیح خوانی کرنے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا جائے گا، اور اب انسانیت کیلئے اٹھے قدموں کو تھامتے ہوئے پورا ہندوستان ان پر متحد ہوجائے گا، اب کی بار ہجرت نہ کی جائے گی، ملک تقسیم نہ ہوگا، پھر سے ایک دل کو دوسرے دل سے جدائی کا درد نہ دیا جائے گا_ اے امت کے جیالو__! غیور بھائیو اور بہنو_! اگرچہ ہم تمہاری صفوں نہ ہوں، تمہارے شانہ بشانہ نظر نہ آتے ہوں، تمہارے نعروں میں ہماری گونج نہ اٹھتی ہو، حق کی چیخوں میں ہماری چیخ شامل نہ ہو، تمہارے ٹپکتے لہو میں ہمارا سرد خون پھیکا لگتا ہو__ لیکن ہمارے دل تمہارے ساتھ ہیں، جان و جگر تم پر فدا ہیں، ہر لحظہ تمہاری جاں بازی کے گن گارہے ہیں، خواہ قسمت نے یاوری نہ کی _ مگر ہماری تحریریں ایک حدی خواں کا فریضہ ادا کرنے والے کی نغمہ سرائی سمجھ لینا، اور جب تک انقلاب نہ آجائے اپنے قدموں پر رعشہ طاری نہ ہونے دینا_* دامن چمن تو ہے دور کا معاملہ اپنا پیرہن نہیں اپنے اختیار میں
Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 15/12/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔