ٹخنوں کے نیچے کپڑے لٹکانا

اسبال ازار

(ٹخنوں کے نیچے کپڑے لٹکانا)

                      ✍ ظفر احمد خان ندوی 

چھبرا ، ڈاکخانہ دھرم سنگھوا بازار، سنت کبیر نگر یو پی 


                          بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

الحمداللہ وحدہ و الصلاة و السلام علی من لا نبی بعدہ امابعد:عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " لا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر إزاره بطرا "(بخاری ومسلم)، و عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة "(بخاری و مسلم)۔

●  عہد نبوی میں عرب متکبرین کا یہ فیشن تھا کہ کپڑوں کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیتے تھے اور اس کو بڑائی کی نشانی سمجھتے تھے، ”ازار“ یعنی تہبند اس طرح باندھتے تھے کہ چلنے میں نیچے کا کنارہ زمین پر گھسٹتا تھا، اسی طرح قمیص اور عمامہ اور دوسرے کپڑوں میں بھی اسی قسم کے اسراف کے ذریعہ اپنی بڑائی اور چودھراہٹ کی نمائش کرتے، گویا اپنے دل کے استکبار اور احساس بالاتری کے اظہار اور تفاخر کا یہ ایک ذریعہ تھا، اور اس وجہ سے متکبرین کا یہ خاص فیشن بن گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت ممانعت فرمائی اور نہایت سنگین وعیدیں اس کے بارے میں سنائیں: 

● رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف (رحمت کی نظر سے ) نہیں دیکھے گا، جو غرور و تکبر سے اپنی ازار (یعنی پائجامہ و تہبند ) کو (ٹخنوں سے نیچے ) لٹکائے گا ۔" (بخاری ومسلم )۔ اور دوسری حدیث میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ "جو شخص غرور و تکبر کے طور پر اپنے (بدن کے ) کپڑے کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چلے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت و عنایت کی نظر سے ) نہیں دیکھے گا ۔" (بخاری ومسلم )۔

               ان احادیث میں فخرو غرور اور گھمنڈ و تکبر والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے ربِ کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت منتظر و محتاج ہوگا، اللہ تعالی اس کی طرف رحم و کرم کی نگاہ نہیں ڈالیں گے اور وہ لوگ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کردے گا، ان کی طرف نظرکرم بھی نہ فرمائے گا، ایسی محرومی و بدبختی سے اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین ۔ ان احادیث کا یہ مطلب نہیں کہ جو تکبر کے ارادے سے لٹکاتا ہے ، وہ اس وعید میں داخل ہوگا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان جان بوجھ کر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے ، خواہ تکبر کا قصد ہویا نہ ہو ، اس کے لیے یہ وعید ِ شدید ہے ۔ ہاں ! اگر کوئی آدمی کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے ، لیکن اس کے باوجود غیرارادی یا غیراختیاری طورپر کپڑا نیچے لٹک جاتا ہے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ معذور ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے، 

● عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: مَنْ جَرَّ ثَوْبَہ خُیَلَاءَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إلیہ یومَ القیامةِ، فقالَ أبو بکرٍ: یا رسولَ اللّٰہِ إزارِيْ یَسْتَرْخِيْ إلاَّ أنْ أتَعَاہَدُہ، فقالَ لَہ رسولُ اللّٰہِ ﷺ: إنَّکَ لَسْتَ مَنْ یَفْعَلُہ خُیَلَاءَ․ (بخاری)

            حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جو کوئی فخرو تکبر کے طور پر اپنا کپڑا زیادہ نیچا کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا، حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا تہبند اگر میں اس کا خیال نہ رکھوں، تو نیچے لٹک جاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو فخروغرور کے جذبہ سے ایسا کرتے ہیں"۔ حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ جب میں پوری پوری محافظت کرتا ہوں تو تہبند نیچے نہیں لٹکتا ۔ کبھی ذرا سی غفلت کروں تو نیچے لٹک جاتا ہے ۔ حدیث میں یسترخی     کا لفظ بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ تہبند خود بخود نیچے لٹک جاتا تھا ، وہ بھی کبھی کبھار نہ کہ ہمیشہ ۔ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  قصداً نہیں لٹکاتے تھے ۔ آپ  رضی اللہ عنہ  بھی سمجھتے تھے کہ یہ وعید ہر اس انسان کو شامل ہے ، جو تکبر کے ارادے سے لٹکایا ہے یا بغیر تکبر کے ارادے سے ۔ تب ہی تو یہ سوال کیا تھا کہ غیرارادی طور پر غفلت کی وجہ سے میرا تہبند لٹک جاتا ہے۔کیا میں بھی اسی وعید میں داخل ہوں ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، نہیں ۔

ہاں ! اگر حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  یہ پوچھتے کہ میں خود شلوار ٹخنے سے نیچے لٹکا کر رکھتا ہوں اور میرا تکبر کا ارادہ نہیں ہوتا ، پھر اگر آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  اجازت دے دیتے تو بات صحیح ہوتی ، جبکہ یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے ،لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو جان بوجھ کر کپڑا لٹکاتا ہے، خواہ تکبر کا ارادہ نہ بھی ہو ، وہ اس وعید میں داخل ہے ، کیونکہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا بذات ِ خود تکبر ہے ۔ اس میں قصد وارادہ کا کوئی عمل دخل نہیں ۔

             اب اگر کوئی شخص کہے کہ میرا کپڑا تکبر کی وجہ سے نہیں بلکہ ویسے ہی لٹکا ہوا ہے تو اس کی یہ بات غیر مقبول ہے اور اس کی یہ دلیل اور صفائی مردود ہے کیونکہ بہت ساری احادیث میں کپڑا ٹخنوں سے نیچے کرنے پر وعید آئی ہے اس میں غرور تکبر اور گھمنڈ کی کوئی قید نہیں ہے لهذا تکبر کی نیت ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا حرام ہوگا البتہ اگر تکبر کے ساتھ هو تو عید اور سزا مزید سخت ہو گئی۔ یہاں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے سے متعلق دو تین احادیث ذکر کی جاتی ہیں جس میں فخر و غرور اور گھمنڈ اور تکبر کی کوئی قید نہیں ہے ، مطلقا ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکانے پر وعید سنائی گئی ہے  جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فخر و غرور گھمنڈ اور تکبر کی قید کا سہارا لیکر جو لوگ حلیہ تراشی اور بہانے بازی کرتے ہیں ان کی یہ کوشش عبث ہے، 

● عن أبي هريرة رضي الله عنه  قال، عن النَّبيِّ ﷺ قَالَ: مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزار فَفِي النَّار (رواه البخاري). حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ٹخنوں کے نیچے جسم کا وہ حصہ جہاں تہ بند پہنچے ، وہ آگ میں جلے گا"

           مطلب یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے پیر کے جتنے حصہ پر تہبند وغیرہ لٹکا ہوا ہو گا وہ پورا حصہ دوزخ میں ڈالا جائے گا ۔ بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ عمل یعنی ٹخنے سے نیچے تہبند وغیرہ لٹکانا) ایک مذموم عمل ہے اور دوزخیوں کا کام ہے ٹخنے سے نیچے ازار وغیرہ لٹکانے کے مسئلہ میں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ اس سلسے میں جو احادیث منقول ہیں ان میں زیادہ تر ازار کے لٹکانے کا ذکر ہے اور ازر لٹکانے والے کے حق میں بہت سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہے یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ایک شخص کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کے پائچے ٹخنوں سے نیچے تھے تو أپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوبارہ وضو کرنے اور نماز لوٹانے کا حکم دیا،  حقیقت یہ ہے کہ ان ساری وعیدوں اور ممانعت کا تعلق محض ازار ہی سے نہیں ہے بلکہ سب کپڑوں سے ہے یعنی بدن پر جو بھی کپڑا ضرورت سے زائد اور سنت کے دائرے سے باہر ہو گا اس پر مذکورہ ممانعت کا حکم عائد ہو گا جہاں تک ازار کی تخصیص کا تعلق ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اس زمانہ میں چادر اور ازار عام طور پر لباس ہوتا تھا اس لئے اس کے استعمال کی کثرت کی بنا پر اس کا ذکر کیا گیا، بہر حال عزیمت یعنی اولی درجہ یہ ہے کہ ازار یعنی تہبند وپائجامہ کو نصف پنڈلی تک رکھا جائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند نصف پنڈلی ہی تک رکھتے تھے البتہ رخصت یعنی اجازت وا سانی کا درجہ ٹخنوں تک ہے کہ تہبند و پائجامے کو زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک رکھا جا سکتا ہے کرتے و قمیص اور عباد شیروانی وغیرہ کے دامن کا بھی یہی حکم ہے اسی طرح قمیص و کرتے وغیرہ کی آستینوں کی مسنون لمبائی یہ ہے کہ وہ بندوست یعنی ہاتھ کے جوڑ تک ہوں عمامہ کا شملہ زیادہ سے زیادہ اتنا چھوڑاجانا چاہئے جو نصف پشت تک رہے جو شملہ لمبائی یا چوڑائی میں اس سے زائدہو گا وہ بدعت اور اس زائد لٹکانے میں شمار ہوگا جو ممنوع ہے چنانچہ بعض علاقوں اور شہروں کے لوگ اپنے لباس میں جو زائد از ضرورت کپڑا استعمال کرتے ہیں جیسے ضرورت سے زائد لمبی لمبی آستینوں اور وسیع و عریض دامنوں والے کرتے کئی کئی گز کے پاجامے اور شلواروں اور بڑے بڑے عمامے اور پگڑ کا رواج بعض جگہ پایا جاتا ہے وہ خلاف سنت ہے بلکہ یہ زائد از ضرورت کپڑے صرف کرنا اگر تکبر و غرور کی نیت سے ہو گا تو اس کو حرام کہیں گے اور اگر لوگوں کی دیکھا دیکھی یا کسی رواج کے تحت ہو گا تو اس کو مکروہ کہا جائے گا کپڑوں میں ضرورت سے زائد لمبائی چوڑائی رکھنا عورتوں کے لئے بھی ممنوع ہے لیکن مردوں کی بہ نسبت ایک بالشت کے بقدر زائد ہونا جائز ہے بلکہ اتنی زائد مقدار تو مستحب ہے جو پردہ پوشی کے بقدر ہو۔

● وعن أَبي ذرٍّ رضي الله عنه  عن النَّبيّ ﷺ قَالَ: ثلاثةٌ لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامةِ، وَلاَ يَنْظُرُ إِلَيْهم، وَلا يُزَكِّيهِمْ، وَلهُمْ عَذَابٌ أَليمٌ. قَالَ: فقَرأَها رسولُ اللَّه ﷺ ثلاثَ مِرَارٍ. قَالَ أَبو ذَرٍّ: خابُوا وخسِرُوا مَنْ هُمْ يَا رسول اللَّه؟ قَالَ: المُسبِلُ، والمنَّانُ وَالمُنْفِقُ سِلْعَتَهُ بِالحَلفِ الكاذِبِ (رواه مسلم). ترجمہ: حضرت ابوذر غفاری  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ”تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت ان سے کلام نہیں کریں گے ، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے ، نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کریں گے اوران کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی ، حضرت ابوذر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا ، اے اللہ کے رسول ! وہ خاسر وخائب لوگ کون ہیں ؟ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم اٹھا کر مال فروخت کرنے والا" ۔
اس حدیث میں تین اشخاص کا ذکر ہے جن میں پہلا المُسبل یعنی کپڑا لٹکانے والا ہے، کپڑا لٹکانے والے سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنے اِزار بند یا کپڑے کو اس قدر لٹکائے کہ وہ ٹخنوں سے نیچے چلا جائے۔ اگر وہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے غرور اور تکبر کی وجہ سے کرتا ہے تو اس پر اللہ کی رحمت سے دوری کی وعید لازم آتی ہے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
            "لا ینظر اﷲ یوم القیامة إلی من جرَّ إزارہ بطرًا)" ''جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا اِزار بند ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے، توقیامت کے دن اللہ اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔'' اور جس شخص کا ازار بند یا کپڑا بلا قصد اور بغیر غرور وتکبر کے ٹخنوں سے نیچے ہوجائے تو اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(ماأسفل من الکعبین من الإزار في النار)
''جو کپڑا بھی ٹخنوں سے نیچے ہوگا، وہ جہنم میں جائے گا۔'' ان دونوں روایات سے جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر قصداً اور غرور و تکبر کی وجہ سے ہو تونظر رحمت سے نہ دیکھنے والی وعید اس کے لئے ہے اور اگر بلا قصد اور غروروتکبر سے ہٹ کر ہو تو بعد والی وعیداس کے لیے ہے۔ غرور و تکبر سے کپڑے لٹکانے والے ایک شخص کو زمین میں دھنسا دیا گیا تھا جیسا کہ روایت میں ہے، 
 ● عن ابن عمر انه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " بينما رجل يجر إزاره من الخيلاء خسف به فهو يتجلجل في الأرض إلى يوم القيامة " .(رواه البخاری) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جب وقت ایک شخص غرور و تکبر کے طور پر اپنی ازار (یعنی تہبند یا پاجامہ ) کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا تو اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اب وہ قیامت تک (اسی طرح ) زمین میں دھنستا چلا جائے گا"۔ جس شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اسی امت کا کوئی فرد ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بطور پیشن گوئی کے فرمائی کہ کسی آنے والے زمانہ میں ایسا ہو گا اور چونکہ اس واقعہ کا وقوع پذیر ہونا ایک یقینی امر تھا اس لئے آیت نے اس بات کی خبر دینے کے لئے ماضی کا پیرایہ بیان اختیار فرمایا ۔ یا کسی ایسے شخص کا واقعہ ہے جو پچھلی کسی امت میں رہا ہو گا اس اعتبار سے حدیث کا ظاہری مفہوم اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گزرے ہوئے واقعہ کی خبر دی بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس شخص سے مراد قارون ہے (لیکن حدیث کے ظاہری مفہوم اور اس شخص کا نام لئے بغیر ذکر کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شخص قارون کے علاوہ کوئی اور ہو گا ۔') 
            عورتوں کے لئے بالاجماع یہی مشروع ہے کہ وہ پردے کی غرض سے اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکا ئیں ۔ جیسا کہ حضرت اُمّ سلمہؓ نے جب اس کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت کو سنا توکہنے لگیں : فکیف تصنع النساء بذیولیهن؟ عورتیں اپنی اوڑھنیوں کے ساتھ کیا کریں ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ایک بالشت کپڑا لٹکا لیں ۔ اُم سلمہؓ فرمانے لگیں کہ اگر پھر بھی عورتوں کے قدم نظر آتے ہوں تو؟ فرمایا:(فیرخینه ذراعا لا یزدن علیه) ایک ہاتھ لمبا کپڑا لٹکالیں ، لیکن اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ۔ 
        کئی روایات میں تو ازار کی تحدید بھی واضح طور پر آئی ہے کہ ازار کہاں تک ہونا چاہیے، 
● حضرت جابر بن سلیم  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "وارفع إزارک إلی نصف السّاق ، فإن أبیت فإلی الکعبین ، وإیّاک وإسبال الإزار ، فإنّھا من المخیلۃ ، وإنّ اللّٰہ لا یحبّ المخیلۃ" اپنا تہ بند نصف پنڈلی تک اٹھا کر رکھو ، اگر تم ایسا نہیں کر سکتے ہو تو (کم ازکم ) دونوں ٹخنوں تک رکھو ، تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو ، یہ تکبر ہے ۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔(سنن ابی داوؤد)۔ اس حدیث میں صاف صاف اس بات کی صراحت موجود  ہے کہ جان بوجھ کر کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکانا ہی تکبر اور عُجب وافتخار کی علامت ہے ، خواہ تکبرکا قصد نہ بھی ہو ۔
● عبدالرحمن بن یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  سے تہبند کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ، میں آپ کو بادلیل جواب دیتا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : "إزار المؤمن إلی أنصاف ساقیہ ، لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ، ما أسفل من ذلک ففی النّار ، ما أسفل من ذلک ففی النّار ، لا ینظر اللّٰہ یوم القیامۃ إلی من جرّ إزارہ بطرا"مؤمن کے تہبند کی جگہ نصف پنڈلی ہے ۔ نصف پنڈلی اورٹخنوں کے درمیان رکھے تو کوئی گناہ نہیں ۔ (تہبند کاجو حصہ اس (ٹخنے) سے نیچے ہوگا ، وہ آگ میں جلے گا ،تہبند کاجو حصہ اس (ٹخنے) سے نیچے ہوگا ، وہ آگ میں جلے گا ،جس نے تہبند کو تکبر کی وجہ سے (یعنی جان بوجھ کر)ٹخنوں سے نیچے لٹکایا ، اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔”(موطا امام مالک) 
● ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما  کو دیکھ کر فرمایا :
"من ھذا ؟ فقلت : أنا عبد اللّٰہ ! فقال : إن کنت عبد اللّٰہ ، فارفع إزارک"
”یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی ، میں عبداللہ ہوں ، آپ نے فرمایا ، اگر تو عبداللہ (اللہ کا بندہ ) ہے تو اپنا تہبند ٹخنوں سے اوپر کرلے ۔”(مسند الامام احمد ،مسند ابی یعلیٰ)
اب ذرا غور کیجئے کہ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے ان کی نیت کے بارے میں سوال نہیں کیا کہ کیا آپ نے کپڑا تکبر کی وجہ سے لٹکایا ہے یا ویسے ہی ؟ بلکہ جوں ہی دیکھا ، کپڑے کو اوپر اٹھانے کا حکم صادر فرما دیا ، لہٰذا یہ کہنا کی تکبر کی نیت ہوتو ناجائز ہے ، ورنہ نہیں ۔ کیا سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  کے بارے میں حسنِ ظن یہ ہے کہ انہوں نے تکبر کی بنا پر لٹکایا تھا ، اس لیے نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا؟ نہیں بلکہ ان مقدس وپاکباز ہستیوں کی زندگی میں تکبر ، گھمنڈ ، فخر و غرور کے ادنی سے عنصر ہونے کے بارے میں کوئی مومن سوچ بھی نہیں سکتا ۔
دوران نماز ٹخنوں کے نیچے کپڑے لٹکانا: 
 ● عَنْ أبي ہُرَیْرَة قال: بینما رجلٌ یصلي مُسْبِلاً إزارَہ، إذْ قَالَ لَہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: إذْہَبْ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ، ثم قال: إذْہَبْ فَتَوَضَّأَ، فَذَہَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ لَہ رَجُلٌ: یارسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم! مَا لَکَ أَمَرْتَہ أنْ یَّتَوَضَّأَ؟ قال: انَّہ کَانَ یُصَلِّيْ وَہُوَ مُسْبِلٌ ازَارَہ وَانَّ اللّٰہَ جَلَّ ذِکْرُہ لاَ یَقْبِلُ صَلاَةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ ازَارَہ․(ابوداود)۔
            حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جاوٴ، دوبارہ وضو کر کے آوٴ!تو وہ شخص وضو کر کے آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاوٴ،وضو کر کے آو،  وہ شخص گیا اور وضو کر کے آیا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "وہ اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا، اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے جو اپنی ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکائے ہوئے ہو"۔
حدیث میں نماز کے قبول نہ ہونے سے مراد کامل قبولیت ہے، یعنی اسبالِ ازار کے ساتھ نماز پڑھنے والے کا فرض تو ادا ہوجائے گا؛ لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی مکمل خوشنودی حاصل نہ ہوگی ۔اور قبولیت بھی متاثر ہوگی۔
● عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یقولُ: مَنْ أَسْبَلَ ازَارَہ فِيْ صَلاَتِہ خُیَلاَءَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ جَلَّ ذِکْرُہ فِيْ حِلٍ وَلاَ حَرَامٍ․ (ابوداوٴد)۔
            حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ازراہِ تکبر نماز میں اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہو، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ اس کا شمار حلال میں ہے نہ حرام میں، 
           اس حدیث میں اگر چہ علماء نے تاویل کی ہے؛ لیکن حدیث کے ظاہری الفاظ بہت سخت ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسبالِ ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، لہٰذا ان مسلمانوں کے لیے اس حدیث میں لمحہٴ فکریہ ہے، جو اسبالِ ازار کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، 
حلال و حرام سے مراد یہ ہے کی كبر و غرور کی بنا پر اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھنے والا شخص ایک طرف تو یہ حرام کام کرتا ہے اور دوسری طرف عبادت بھی کر رہا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے حلال و حرام میں تمیز نہیں کر رہا ہے یعنی نماز پڑھ کر ایک طرف تو حلال اور عبادت والا کام کر رہا ہے اور تکبر و غرور کی وجہ سے اسی حالت میں ٹھنڈا کر حرام کام کر رہا ہے اس لیے اس نے نہ تو پورے حرام پر عمل کیا اور نہ حلال پر  بہرحال دوسری احادیث کے پیش نظر اس حالت میں نماز اگرچہ ادا ہوجاتی ہے مگر اس کی قبولیت پر متاثر ہوتی ہے اس لئے مرد حضرات کو بطور خاص نماز میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے نماز کی صحت متاثر ہوتی ہے اور ہے خاص طور پر جب كبر و غرور کی نیت سےایسا کیا جائے۔
             اللہ تعالی اس بیماری اور لعنت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور کسی قیل و قال، چون و چرا، حیله تراشی اور بہانہ جوئی کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دونوں جہاں میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے،  آمین یا رب العالمین۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔