اس حدیث میں تین اشخاص کا ذکر ہے جن میں پہلا المُسبل یعنی کپڑا لٹکانے والا ہے، کپڑا لٹکانے والے سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنے اِزار بند یا کپڑے کو اس قدر لٹکائے کہ وہ ٹخنوں سے نیچے چلا جائے۔ اگر وہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے غرور اور تکبر کی وجہ سے کرتا ہے تو اس پر اللہ کی رحمت سے دوری کی وعید لازم آتی ہے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا ینظر اﷲ یوم القیامة إلی من جرَّ إزارہ بطرًا)" ''جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا اِزار بند ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے، توقیامت کے دن اللہ اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔'' اور جس شخص کا ازار بند یا کپڑا بلا قصد اور بغیر غرور وتکبر کے ٹخنوں سے نیچے ہوجائے تو اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(ماأسفل من الکعبین من الإزار في النار)
''جو کپڑا بھی ٹخنوں سے نیچے ہوگا، وہ جہنم میں جائے گا۔'' ان دونوں روایات سے جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر قصداً اور غرور و تکبر کی وجہ سے ہو تونظر رحمت سے نہ دیکھنے والی وعید اس کے لئے ہے اور اگر بلا قصد اور غروروتکبر سے ہٹ کر ہو تو بعد والی وعیداس کے لیے ہے۔ غرور و تکبر سے کپڑے لٹکانے والے ایک شخص کو زمین میں دھنسا دیا گیا تھا جیسا کہ روایت میں ہے،
● عن ابن عمر انه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " بينما رجل يجر إزاره من الخيلاء خسف به فهو يتجلجل في الأرض إلى يوم القيامة " .(رواه البخاری) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جب وقت ایک شخص غرور و تکبر کے طور پر اپنی ازار (یعنی تہبند یا پاجامہ ) کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا تو اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اب وہ قیامت تک (اسی طرح ) زمین میں دھنستا چلا جائے گا"۔
جس شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اسی امت کا کوئی فرد ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بطور پیشن گوئی کے فرمائی کہ کسی آنے والے زمانہ میں ایسا ہو گا اور چونکہ اس واقعہ کا وقوع پذیر ہونا ایک یقینی امر تھا اس لئے آیت نے اس بات کی خبر دینے کے لئے ماضی کا پیرایہ بیان اختیار فرمایا ۔ یا کسی ایسے شخص کا واقعہ ہے جو پچھلی کسی امت میں رہا ہو گا اس اعتبار سے حدیث کا ظاہری مفہوم اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گزرے ہوئے واقعہ کی خبر دی بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس شخص سے مراد قارون ہے (لیکن حدیث کے ظاہری مفہوم اور اس شخص کا نام لئے بغیر ذکر کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شخص قارون کے علاوہ کوئی اور ہو گا ۔')
عورتوں کے لئے بالاجماع یہی مشروع ہے کہ وہ پردے کی غرض سے اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکا ئیں ۔ جیسا کہ حضرت اُمّ سلمہؓ نے جب اس کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت کو سنا توکہنے لگیں : فکیف تصنع النساء بذیولیهن؟ عورتیں اپنی اوڑھنیوں کے ساتھ کیا کریں ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ایک بالشت کپڑا لٹکا لیں ۔ اُم سلمہؓ فرمانے لگیں کہ اگر پھر بھی عورتوں کے قدم نظر آتے ہوں تو؟ فرمایا:(فیرخینه ذراعا لا یزدن علیه) ایک ہاتھ لمبا کپڑا لٹکالیں ، لیکن اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ۔
کئی روایات میں تو ازار کی تحدید بھی واضح طور پر آئی ہے کہ ازار کہاں تک ہونا چاہیے،
● حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "وارفع إزارک إلی نصف السّاق ، فإن أبیت فإلی الکعبین ، وإیّاک وإسبال الإزار ، فإنّھا من المخیلۃ ، وإنّ اللّٰہ لا یحبّ المخیلۃ" اپنا تہ بند نصف پنڈلی تک اٹھا کر رکھو ، اگر تم ایسا نہیں کر سکتے ہو تو (کم ازکم ) دونوں ٹخنوں تک رکھو ، تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو ، یہ تکبر ہے ۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔(سنن ابی داوؤد)۔ اس حدیث میں صاف صاف اس بات کی صراحت موجود ہے کہ جان بوجھ کر کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکانا ہی تکبر اور عُجب وافتخار کی علامت ہے ، خواہ تکبرکا قصد نہ بھی ہو ۔
● عبدالرحمن بن یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے تہبند کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ، میں آپ کو بادلیل جواب دیتا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : "إزار المؤمن إلی أنصاف ساقیہ ، لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ، ما أسفل من ذلک ففی النّار ، ما أسفل من ذلک ففی النّار ، لا ینظر اللّٰہ یوم القیامۃ إلی من جرّ إزارہ بطرا"مؤمن کے تہبند کی جگہ نصف پنڈلی ہے ۔ نصف پنڈلی اورٹخنوں کے درمیان رکھے تو کوئی گناہ نہیں ۔ (تہبند کاجو حصہ اس (ٹخنے) سے نیچے ہوگا ، وہ آگ میں جلے گا ،تہبند کاجو حصہ اس (ٹخنے) سے نیچے ہوگا ، وہ آگ میں جلے گا ،جس نے تہبند کو تکبر کی وجہ سے (یعنی جان بوجھ کر)ٹخنوں سے نیچے لٹکایا ، اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔”(موطا امام مالک)
● ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر فرمایا :
"من ھذا ؟ فقلت : أنا عبد اللّٰہ ! فقال : إن کنت عبد اللّٰہ ، فارفع إزارک"
”یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی ، میں عبداللہ ہوں ، آپ نے فرمایا ، اگر تو عبداللہ (اللہ کا بندہ ) ہے تو اپنا تہبند ٹخنوں سے اوپر کرلے ۔”(مسند الامام احمد ،مسند ابی یعلیٰ)
اب ذرا غور کیجئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے ان کی نیت کے بارے میں سوال نہیں کیا کہ کیا آپ نے کپڑا تکبر کی وجہ سے لٹکایا ہے یا ویسے ہی ؟ بلکہ جوں ہی دیکھا ، کپڑے کو اوپر اٹھانے کا حکم صادر فرما دیا ، لہٰذا یہ کہنا کی تکبر کی نیت ہوتو ناجائز ہے ، ورنہ نہیں ۔ کیا سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں حسنِ ظن یہ ہے کہ انہوں نے تکبر کی بنا پر لٹکایا تھا ، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا؟ نہیں بلکہ ان مقدس وپاکباز ہستیوں کی زندگی میں تکبر ، گھمنڈ ، فخر و غرور کے ادنی سے عنصر ہونے کے بارے میں کوئی مومن سوچ بھی نہیں سکتا ۔
دوران نماز ٹخنوں کے نیچے کپڑے لٹکانا:
● عَنْ أبي ہُرَیْرَة قال: بینما رجلٌ یصلي مُسْبِلاً إزارَہ، إذْ قَالَ لَہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: إذْہَبْ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ، ثم قال: إذْہَبْ فَتَوَضَّأَ، فَذَہَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ لَہ رَجُلٌ: یارسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم! مَا لَکَ أَمَرْتَہ أنْ یَّتَوَضَّأَ؟ قال: انَّہ کَانَ یُصَلِّيْ وَہُوَ مُسْبِلٌ ازَارَہ وَانَّ اللّٰہَ جَلَّ ذِکْرُہ لاَ یَقْبِلُ صَلاَةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ ازَارَہ․(ابوداود)۔
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جاوٴ، دوبارہ وضو کر کے آوٴ!تو وہ شخص وضو کر کے آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاوٴ،وضو کر کے آو، وہ شخص گیا اور وضو کر کے آیا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "وہ اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا، اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے جو اپنی ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکائے ہوئے ہو"۔
حدیث میں نماز کے قبول نہ ہونے سے مراد کامل قبولیت ہے، یعنی اسبالِ ازار کے ساتھ نماز پڑھنے والے کا فرض تو ادا ہوجائے گا؛ لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی مکمل خوشنودی حاصل نہ ہوگی ۔اور قبولیت بھی متاثر ہوگی۔
● عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یقولُ: مَنْ أَسْبَلَ ازَارَہ فِيْ صَلاَتِہ خُیَلاَءَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ جَلَّ ذِکْرُہ فِيْ حِلٍ وَلاَ حَرَامٍ․ (ابوداوٴد)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ازراہِ تکبر نماز میں اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہو، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ اس کا شمار حلال میں ہے نہ حرام میں،
اس حدیث میں اگر چہ علماء نے تاویل کی ہے؛ لیکن حدیث کے ظاہری الفاظ بہت سخت ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسبالِ ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، لہٰذا ان مسلمانوں کے لیے اس حدیث میں لمحہٴ فکریہ ہے، جو اسبالِ ازار کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں،
حلال و حرام سے مراد یہ ہے کی كبر و غرور کی بنا پر اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھنے والا شخص ایک طرف تو یہ حرام کام کرتا ہے اور دوسری طرف عبادت بھی کر رہا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے حلال و حرام میں تمیز نہیں کر رہا ہے یعنی نماز پڑھ کر ایک طرف تو حلال اور عبادت والا کام کر رہا ہے اور تکبر و غرور کی وجہ سے اسی حالت میں ٹھنڈا کر حرام کام کر رہا ہے اس لیے اس نے نہ تو پورے حرام پر عمل کیا اور نہ حلال پر بہرحال دوسری احادیث کے پیش نظر اس حالت میں نماز اگرچہ ادا ہوجاتی ہے مگر اس کی قبولیت پر متاثر ہوتی ہے اس لئے مرد حضرات کو بطور خاص نماز میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے نماز کی صحت متاثر ہوتی ہے اور ہے خاص طور پر جب كبر و غرور کی نیت سےایسا کیا جائے۔
اللہ تعالی اس بیماری اور لعنت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور کسی قیل و قال، چون و چرا، حیله تراشی اور بہانہ جوئی کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دونوں جہاں میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔