*اضافہ آبادی کا ہنگامہ اور اصل سچائ*
*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*اس* وقت *آر ایس ایس* اپنے تمام ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے پوری طرح کوشاں ہے ۔ اس کی پوری کوشش ہے، کہ کسی طرح بھی ہندوستان ۲۰۲۴ء کے الیکشن سے پہلے ہندو راشٹر بن جائے ۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن جیتتے ہی اس نے بھاجپا کو اس کے لئے آمادہ کرلیا کہ وہ اس کے سارے ایجنڈے کو جلد از جلد ملک میں نافذ کرے، اور ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کردے ۔ اس کے لئے آر ایس ایس نے پوری طرح کمر کس لیا ہے اور جتنے حربے اور کل بل چھل ہوسکتے ہیں وہ سب اس کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ، اس کے ایجنڈے میں شامل تھا۔اس پر عمل دار آمد ہوگیا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی سپریم کورٹ نے اجازت دے دی،یہ بھی اس کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ نئی تعلیمی پالیسی، یعنی تعلیم کا بھگوا کرن ،یہ بھی اس کے ایجنڈے میں تھا ،اس کی پوری تیاری ہوچکی ہے ۔یعنی اب ہندوستان کا سرکاری نصاب ہندتو وادی نصاب ہوگا ۔ جس میں ہندو دیو مالائی تہذیب بھی نصاب کا ضروری حصہ ہوگا اور فنون لطیفہ کے طور پر ڈانس اور ناچ گانا یہ بھی ہر ایک بچے کے لئے ضروری ہوگا۔طلاق بل پاس کرکے اس نے ہمارے عائلی نظام کو برباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اس میں بھی وہ کامیاب ہوگیا ۔ ملک سے مسلمانوں کو کس طرح بے دخل کر دیا جائے اس کے لئے این آر سی ۔ این آر پی اور سی اے اے کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے یہ سب جان رہے ہیں اور اس کی آگ پورے ملک لگی ہوئی ہے اور مسلمان اس وقت اپنے وجود بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ اس کے ایجنڈے میں یکساں سول کوڈ اور ہم دو ہمارے دو یعنی فیملی پلاننگ بھی شامل ہے ۔ یکساں سول کوڈ پر قانون بنانے کے لیے آر ایس ایس اور موجودہ حکومت پر تول رہی ہے جبکہ فیملی پلاننگ کا اشارہ تو موہن بھاگوت نے مراد کے ایک سمیلن میں(کھر ماس اتسو کے موقع پر)اس کا اعلان کر دیا ہے ۔ جس پر ملک میں ایک اور ہنگامہ شروع ہوگیا ہے اور میڈیا میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ۔ موہن بھاگوت نے یہ اعلان کیا ہے کہ ملک میں جلد ہی دو بچوں کا قانون بنے گا یعنی یہ لازمی ہوگا کہ ہر شہری (صرف مسلمان ہی نہیں) دو سے زیادہ بچے نہ پیدا کریں ۔ یہ بھی آر ایس ایس کی سازش ہے کہ دوسروں کی آبادی کو کنٹرول کیا جائے ۔ مسلمانوں کی شرح آبادی یہاں کسی طرح سے کم ہوجائے ۔ ان تمام سازشوں کے باوجود ہمارے لئے گھبرانے اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ زمین پر جب بھی کوئی خدا بننا چاہتا ہے تو اللہ تعالی اپنی مصلحت کی وجہ سے اس کو ڈھیل دیتا ہے لیکن پھر جلد ہی اس کی زبردست پکڑ کرتا ہے اور خدا کی پکڑ کتنی سخت ہوتی ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ یہ زمینی خدا بننے والے لاکھ مکر و فریب اور سازش و تدبیر کرلیں لیکن اللہ کی تدبیر سب تدبیروں پر غالب آتی ہے ۔ وہ مکروا و مکر اللہ و اللہ خیر الماکرین ۔ خدائ اعلان ہے ۔ یہاں ہمیں غور کرنا ہے کہ آخر آر ایس ایس کے لوگ اپنے مقصد اور منصوبے میں کامیاب کیوں ہو رہے ہیں، اس کا سیدھا جواب ہے کہ اس نے اپنے سارے لوگوں کو میدان میں اتار دیا ہے، ہر میدان اور شعبہ میں اس کے لوگ ایک خادم اور کارکرتا کے طور پر کام کر تے ہیں، کسی کو مسند اور عہدے کی فکر نہیں رہتی ،شادی بیاہ اور بیوی بچے تیاگ دیتے ہیں، جب کہ ہمارے یہاں اکثر کو عہدہ اور منصب کی فکر لگی رہتی ہے اور مخدوم بننے کا شوق رہتا ہے، اگر کچھ دھن اور جذبے کے پکے اخلاص کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں تو یہ حضرات مسند و دستار راہ میں رکاوٹ بننے ہیں اور کام کرنے والے کو بھی مایوس کر دیتے ہیں، اس منفی سوچ کو ختم کرنا ہوگا اور ہر ایک کو خادم کی حیثیت سے قوم و ملت کے لئے کام کرنا ہوگا ۔ اس وقت دشمن کے وار کے مقابلہ کے لئے ہم کو ہر طرح سے تیار ہونا ہوگا ۔ حقائق کو جو غلط انداز سے پیش کیا جاتا ہے اس کی کاٹ کے لئے ہمیں علمی اور تاریخی طور پر میدان میں آنا ہوگا اور ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا اس کے لئے پوری ٹیم اور قافلہ تیار کرنا پڑے گا ۔ اس وقت آبادی کنٹرول اور فیملی پلاننگ کا جو ہوا کھڑا کیا جا رہا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاری ہے کہ ملک میں اور دنیا میں جو اقتصادی اور معاشی بحران ہے، اس کی وجہ آبادی کی کثرت ہے ۔ کیا یہ مفروضہ درست ہے ؟ کیا اس میں سچائ ہے؟ کیا اس کا حقیقت سے تعلق ہے ؟ اس کا ہمیں جائزہ لینا ہے اور دنیا کو یہ بتانا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔ معیشت کی تباہی کی وجہ کچھ اور ہے ۔ آبادی کی نہ تو کثرت ہے، اور نہ یہ بحران اس کا نتیجہ ہے ۔ ہندوستان کے لوگ آج بھی اتنے بے خبر ہیں کہ صحیح حقیقت حال سے وہ واقف نہیں ہیں ،جو بھی ان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔ آسانی سے وہ اس کو اپنے فریب میں لے آتا ہے ۔ آئیے کثرت آبادی کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس پردہ کو اٹھاتے ہیں ۔ اس سال مکر سنکرانتی اتسو مناتے ہوئے آر ایس ایس چیف جناب موہن بھاگوت جی نے اتر پردیش کے شہر مرادآباد میں *ہندتوا* بریگیڈ کی آئیڈیا لوجی کو آگے بڑھاتے ہوئےایک ایسے مسئلے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جس کی حقیقت اب ملک کے ہر انصاف پسند شہری پر واضح ہوچکی ہے۔ ملک کی بڑھتی آبادی کے مفروضے پر اپنی نفرت پر مبنی ملکی سیاست اور عوام کی حد سے بڑھی ہوئی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ملک کی بڑھتی آبادی کا مسئلہ اٹھایا اور اسے ملک کی ترقی کے لئے خطرہ بتایا ۔ تعجب یہ ہے کہ ان کے معاشی ماہرین کی ٹیم کے کسی رکن نے اس مسئلے پر ان کو بریف بھی نہیں کیا تھا اور اصل مسائل کے بجائے آبادی کے تعلق سے ان باتوں کو ملک کا مسئلہ بتایا جن کے بارے میں اب ماہرین اور محققین کہہ رہے کہ 2020 سے 2022 تک آبادی کا اضافہ رک جائیگا اور 2030 کے بعد آبادی کم ہونا شروع ہو جائیگی ۔ آبادی کی شرح نمو ملک میں لگا تار کم ہوتی جارہی ہے۔ آبادی کی شرح متبادل جسے انگریزی میں replacement rate کہا جاتا ہے وہ لگاتار کم ہو رہی ہے، شرح پیدائش یا fertility rate بھی گر رہا ہے اور ملک کے کئی علاقوں میں شرح پیدائش اب فی جوڑا دو سے بھی کم ہوگئی ہے لیکن یہ نفرت کی کھیتی کرنے والے ان حقائق سے خود بھی نابلد ہیں اور عوام کو بھی اندھیرے میں ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ آبادی کی شرح نمو صفر رکھنے یعنی آبادی کو بڑھنے سے روکنے اور اسے موجودہ سطح پر قائم رکھنے کے لئے ایک جوڑے کے کم سے کم دو بچے ہونے چاہئے یعنی فی عورت دو بچوں کی شرح پیدائش ہونی ضروری ہے اگر یہ اس سے کم ہوتی ہے تو آبادی میں گراوٹ لازمی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں اوسط شرح پیدائش ( ایک عورت کی 18 سے 49 سال کی عمر کے بیچ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد) صرف 2.2 ہے، جبکہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ آبادی کے اضافے کو بالکل روک دینے کے لئے یہ شرح پیدائش 2.1 ہونی چاہئے۔ یعنی ملکی آبادی کی شرح ترقی اب بالکل صفر کے قریب ہے اور 2030 تک اس میں گراوٹ شروع ہو جائیگی۔ اتر پردیش (3.1) اور بہار (3.3) کو چھوڑ کر ملک کے دوسرے تمام صوبوں کی شرح پیدائش 3 سے کم ہے اور جنوبی ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں یہ 2 سے بھی کم ہے۔ ملک کی کل 22 ریاستوں میں سے 11 میں یہ شرح پیدائش 2 سے نیچے ہے اور باقی میں 2 سے اوپر اور صرف یو پی اور بہار میں 3 سے تھوڑا اوپر ہے۔ شرح پیدائش میں گراوٹ ہر طبقے اور مذہبی اکائیوں میں یکساں طور پر درج ہوئی ہے اور فرقہ پرست جماعتوں، جس کے سرخیل خود موہن بھاگوت ہیں، کا یہ الزام کہ مسلمان ملک میں آبادی کو بڑھا رہے بلکل بے بنیاد اور سراسر بد گوئی اور بد دیانتی پر مبنی ہے۔ جموں کشمیر میں شرح پیدائش صرف 1.6 ہے جو ملکی اوسط سے بھی کافی کم ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں 1.6 ، کیرالہ میں 1.6، تلنگانہ میں 1.8 ، دہلی 1.7 ہے جو ملکی اوسط سے کافی نیچے ہے اور ان ریاستوں میں مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد آباد ہے، اور یہ سب آبادی کے replacement rate سے بھی کافی کم ہے۔ اس لئے ملک میں آبادی کی بڑھتی ہو ئی شرح کو لیکر واویلا کرنا ایک تماشہ برپا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس ضمن یہ بات بھی ذہن نشین رہنے چاہئے کہ شرح پیدائش زیادہ ہونے کی وجہ سے ملک میں نوجوان اور کام کرنے لائق آبادی دنیا کے دگر ممالک بشمول چائنا سے زیادہ ہے جنکو اگر بروقت مناسب روزگار اور کام کے مواقع مل جائیں تو ملکی شرح ترقی میں اضافہ بھی اسی آبادی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہر انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ ملک کے لئے ایک سرمایہ یا (asset) تصور کیا جاتا ہے ،اب اگر یہ سماج کے لئےliability بن جائے تو یہ قصور اس انسان کا نہیں بلکہ ملک کے منصوبہ سازوں کا ہوتاہے۔ ملک میں آبادی کے دیگر مسائل ہیں جن پر موہن بھاگوت اور انکی جماعت کو فوری توجہ دینی چاہئے، ہمارے ملک میں نو مولود کی شرح اموات 40 فی ہزار اور 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں یہ شرح 49 فی ہزار ہے جو بہت زیادہ ہے اور ملک کی عوامی صحت اور غذائیت کی دگر گوں صورت حال کی غماز ہے ۔ اسی ضمن میں صحت اور پیدائش سے متعلق دیگر اعداد و شمار بھی ملکی صحت، دوا اور متناسب غذا کی حصول یا بی اور صحت کے مراکز کی نا گفتہ بہ صورت حال بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت کے سرپرست اعلی اس پر فوری توجہ دیں نا کہ عوام پر اس تعلق سے الزام تراشیاں کرتے پھریں۔ ہمارے ملک میں پیدائش کے وقت ماؤں کی اموات کے اعدادوشمار پریشان کر دینے والے ہیں ۔ ہمارے ملک میں یہ شرح 145 فی ایک لاکھ زندہ پیدائش (live birth) ہے ( یعنی ایک لاکھ بچوں کی پیدائش کے وقت 145 مائیں پیدائش کے دوران فوت ہو جاتی ہیں) ۔ یہ بوتسوانا اور پاپوا نیو گنی جیسے پسماندہ اور غریب ترین ممالک کے برابر ہے جبکہ سری لنکا اور پاکستان کی یہ شرح بھی بھارت سے کم ہے۔حکومتی عمال اور ان جے حاشیہ بردار ان قابل توجہ مسائل کو حل کرنے اور ملک کی ترقی کو صحیح سمت دینے کے بجائے عوام کو NRC اور NPR جیسے غیر ضروری مسائل میں الجھا رہے ہیں تاکہ ملکی ترقی کے دیگر مسائل سے توجہ ہٹائی جا سکے۔(نوٹ مضمون کا آخری حصہ جس میں شرح آبادی کی تفصیلات ہیں خالد اعظمی کی تحریر سے مستفاد ہے)
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔