جھارکھنڈ الیکشن کے نتائج امید کی ایک کرن

*جھارکھنڈ الیکشن کے نتائج امید کی ایک کرن*

*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*جھارکھنڈ* کے سیکولر ووٹروں کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے سیاسی سوجھ بوجھ اور عقل و شعور سے کام لیا اور مغروروں کے ہاتھ سے حکومت چھین کر کیب و این آر سی کی انہیں سخت سزا دی جمہوریت کو تقویت بخشی اور اس کالے بل اور قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے ہندو مسلم بھائیوں کا سر فخر سے اونچا کیا، دشمنوں کے منفی حوصلے کو پست کیا اور ان کے ناپاک عزائم اور منصوبوں کو خاک ملا دیا ۔ امید ہے کہ آنے والے وقت میں دیگر جگہوں کے سیکولر رائے دہندگان اور ووٹرس بھی، جھارکھنڈ میں سیکولرزم کی اس جیت کو اپنے لئے ایک نمونہ اور آدئیل بنائیں گے اور وہاں کی عوام اور ووٹرس بھی یہی سبق ایسے لوگوں کو سکھائیں گے جو بھارت کی اکھنڈتا اور ایکتا میں سیندھ لگانا چاہتے ہیں اور رنگ رنگ تمدن و ثقافت اور گنگا جمنی تہذیب کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں ۔ *جھارکھنڈ* میں جملہ بازوں کی ہوا اکھڑ گئی۔ عوام نے ان سے اپنا پیچھا چھڑا لیا ہندو مسلم کے درمیان نفرت پھیلانے والوں کے چہرے پر زور دار طمانچہ مارا۔ یاد رہے کہ ماب لینچگ کے سب سے زیادہ واقعات اسی صوبے میں پیش آئے ،کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں اور کتنے بچے یتیم ہوئے اور کتنے گھر ویران ہوئے لیکن اس مغرور حکومت نے کوئی ٹھوس فیصلہ اور ایکشن نہیں لیا صرف چند رسمی جملے بول کر خاموش رہی اور ظالم کو شہ دیتی رہی ۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہاں کے ایک مرکزی وزیر نے قاتلوں کی ضمانت پر ان کو مبارک باد پیش کی اور ان مجرموں کو پھول مالا پہنیایا ۔ اس حکومت نے بورڈ مدرسے کے اساتذہ کے ساتھ ناروا سلوک کیا اور ان پر جو زیادتی کی ،اس کی مثال کم ملے گی تین سال سے وہاں کے اساتذہ تنخواہ سے محروم ہیں پائ پائ کے محتاج ہیں ان میں سے کتنے اللہ کو پیارے ہوگئے آج وہ اساتذہ قرض کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں، انکوائری کے نام پر ان کے ساتھ اس حکومت نے گھور اننیاے کیا اگر چہ غلطیاں ان اساتذہ اور مدرسے کے منجمیٹ کی بھی ہے کہ ان لوگوں نے تعلیم کو ایک مذاق بنا رکھا تھا، زمین کے کاغذات بعض کے درست نہیں تھے من مانا نظام چلا رہے تھے نااہل کی تقرریاں کر رہے تھے ۔ اس حکومت نے اردو کے ساتھ بھی سوتیلا سلوک کیا اردو اسکول اور وہاں کے اساتذہ کے ساتھ ناانصافی کی ۔ اردو میں امتحان دینے کا حق طلبہ سے چھینا ۔ یہاں کے آدی واسیوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ صحیح نہیں رہا ان کی زمینوں کو اونے پونے قیمت پر لیکر سرمایہ داروں اور پنجی پتیوں کو دینے کی پوری کوشش کی ۔ جس کا خمیازہ اس حکومت کو بھوگتنا پڑا ہے ۔ کل الیکشن کے نتائج سن رہا اور ذھن و دماغ میں بار بار شاعر کا یہ شعر گردش کر رہا تھا جو اس حکومت کے غرور اور اس کی رعونت کو خاک میں ملانے کا پتہ دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

*یہ وقت کسی کی رعونت پہ خاک ڈال گیا* *یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں*

*اس* الیکشن میں نہ مندر کارڈ چلا ۔ نہ ہندو کارڈ نے کوئ کمال کر دکھایا ۔ نہ این آر سی اور کیب کا رنگ چھڑا ۔بلکہ وہاں کے غیور عوام نے وکاس اور ترقی اور مقامی مدوں کو سامنے رکھ کر جملہ بازوں کو سبق سکھا دیا اور سمجھا دیا کہ ہم آپ کے ناپاک اور منفی عزائم کو پورا ہونے نہیں دیں گے ۔ وہاں کی عوام نے نفرت کی سیاست اور ملک کو ٹورنے والی طاقت کو شکست دے کر ہندوستانی عوام کو ایک صحیح اور مثبت پیغام دیا ہے ۔ اس موقع پر میں تمام لوگوں سے درخواست کروں گا خصوصا نوجوانوں سے کہ جوش میں نہ آئیں ہوش میں رہ کر اس جیت کو جمہوریت اور سیکولر ووٹرروں اور طاقتوں کی جیت سمجھیں اور اس طرح خوشی کا اظہار نہ کریں کہ کسی کے دل کو ٹھیس پہنچے اور پھر اس کے غلط اور منفی اثرات ظاہر ہوں اور غلط میسیز لوگوں کے درمیان جائے ۔ امید کہ ان باتوں کا بھر پور خیال رکھیں گے ۔ میں ایک بار پھر جھارکھنڈ کے واسیوں کو اس پرچنڈ جنادیش دلانے پر اور جمہوریت اور جمہوری طاقت کو مضبوط کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اس ملک میں امن شانتی ایکتا، بھائ چارہ اور پریم و محبت کا ماحول بنا رہے، انسانیت اور مانوتا زندہ رہے اور یہ دیش *سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا* کا ہمیشہ نمونہ اور مثال بنا رہے ۔ ہمارے ایک دوست مولانا صابر ندوی( بھوپال) نے نے جھارکھنڈ کے نتائج پر بڑا اچھا تجزیہ پیش کیا ہے، قارئین کے استفادہ کے لئے وہ پیش کرتا ہوں ۔ *پچھلے دو سالوں سے گیروا رنگ اپنی رنگینی میں ناکام ہوتا نظر آرہا ہے، میڈیا کا شو شرابا اور چالبازیاں اگر نہ ہوں تو ملک سے زعفرانیت کا جادو یونہی ٹل جائے، خاص طور پر مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان کے انتخابات نے تو ان کے کان کھڑے کر دئے، ہریانہ میں بھی اگرچہ کھٹر نے سرکار بنا لی؛ مگر اس کی حقیقت ایسی ہے کہ کوئی بھی مضبوط پارٹی خوش نہ ہو، ایک بیساکھی پر پورا بار ہے، یہ لنگڑی لولی سرکار ہے، جس کا ہر فیصلہ قابل نطر ہوتا ہے، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجبور ہیں، اب جھارکھنڈ نے انہیں زبردست سبق سکھایا ہے، جھارکھنڈ جو قدرتی مناظر سے لبالب ہے، سب سے زیادہ مزدور طبقہ اور نکسل اس کے خاص باشندوں میں ہیں، فیکٹریز اور معدنیات کے کام بھی لاجواب ہیں، وہاں پر روزانہ سینکڑوں مزدوروں کی جاتی ہوئی نوکریاں اور غربت کا گہراتا سایہ انہیں نظر نہ آیا، وہ صرف نعروں اور سلوگن میں کھوئے رہے، دہاڑی پر بلائی گئی بھیڑ کا سہارا ڈھوندتے رہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صوبہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا، اگر ہندوستان کا نقشہ دیکھا جائے تو صرف یوپی کو چھوڑ کر بمشکل ہندی صوبوں میں بی جے پی کا وجود نظر آتا ہے، اب بنگال، دہلی اور بہار کی باری ہے، ایسا کہا جاتا ہے کہ NRC کا سارا تماشہ بھی انہیں صوبوں پر قبضہ جمانے کیلئے ہے، بالخصوص بنگال میں ممتا بنرجی کے اقتدار پر حملہ کرنے کا ارادہ ہے؛ لیکن ہوائیں کچھ اور ہی کہتی ہیں، لاکھوں کی بھیڑ جمع ہوجانے کے باوجود اب حال یہ ہے کہ ان کے قدیم ترین صوبوں میں ان کا سکہ نہین چلتا، آہستہ آہستہ انہی کے دوست ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، مہاراشٹر میں سیوسینا نے انہیں کنارے کر دیا، اور عین موقع پر سیاست کی بازی پلٹ دی، اور انہیں حکومت کے ذائقہ سے دور کردیا، بہار میں نتیش کمار بھی ان کے ساتھ NRC کے مدعی پر مخالف ہوچکے ہیں، اور اپنے صوبے میں اسے لاگو نہ کرنے کا بیان پہلے ہی دے چکے ہیں، تو وہیں اکالی دل خود بی جے پی کا سب سے پرانا ساتھی ہونے کے باوجود وہ بھی اسی موضوع پر ان سے ناراض ہے، نیز کئی جگہوں سے یہاں تک خبر آئی ہے؛ کہ بی جے پی کے اکثر لوگ پارٹی بھی چھوڑ رہے ہیں، آسام میں ایک بڑی تعداد نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے، اور وہ اب NRC کے مخالف ہوگئے ہیں۔* *عجیب بات یہ ہے کہ بی جے پی مستقل اپنے قدیم فارمولے کو تقویت پہونچا رہی ہے، divide and rule کا آزمودہ درس دہراتی ہی رہتی ہے، نیا شگوفہ NRC اور CAA کی صورت میں موجود ہے، وہ جہاں کہیں ریلی کرتے ہیں، ہجوم سے مخاطب ہوتے ہیں، وہاں پر صرف ہندو_ مسلماب اور پاکستان کے سوا کچھ نہیں ہوتا، مہاراشٹر میں کشمیر کے مدعی پر ووٹ مانگے گئے، بلکہ اس زمانے میں اکثر اور آج بھی کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ _ رام مندر_ اور تین طلاق جیسے مسئلوں پر عوام کو رجحانے کی کوشش ہوتی ہے، فاشزم کی کھیتی سبز کرنے اور انہیں زعفرانی رنگ لالچ دی جاتی ہے، اور لوگ بھی مسحور پوجاتے ہیں، آوازیں لگاتے ہیں، بھکتی کا ثبوت دیتے ہیں، حتی کہ آئین مخالف نعروں پر بھی چیخ و پکار کرتے ہیں؛ لیکن پھر ان کا قیمتی ووٹ ان ہی کے برعکس ہوجاتا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام میں بیداری پیدا ہورہی ہے، وہ سمجھ گئے ہیں کہ انہیں تقسیم کرنے کی کوشش ہے، ایک طرف جہاں جھارکھنڈ سے سب سے زیادہ مزدوروں نے اپنا کام کھویا، فیکٹریاں بند ہوئیں، اور غربت بھی تنگ ترین ہوتی گئی، نکسل حملوں کا زور بڑھا، معدنیات کو پرائیویٹ کرنے کی مہم چھیڑی گئی، اور کرپشن کو بڑھاوا دیا گیا، کیفیت ہوگئی کہ لوگ سڑکوں پر بھی آئے اور اپنی مانگیں رکھیں؛ لیکن انہیں سننے کے بجائے وہاں آخر انہیں دفعہ ۳۷۰ سے کیا مطلب ہوگا_؟ جب انسان کا پیٹ ہی خاک ہوجائے تو اسے کیا سوجھے گا_؟ ہر کہیں ملک کی بدحالی کا چرچا ہے، مہنگائی نے سر پھوڑ دیا ہے، عوام دو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہی ہے، وہ کیونکر NRC پر ووٹ دینے لگے_؟ ہندو راشٹر کا سنگیت بھی کیوں انہیں سریلا لگے گا، جب خود کا ہی گلا سوکھا جاتا ہے_؟ ایسے موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ یہی بیداری قائم رکھی جائے، خاص طور پر دہلی، بہار اور بنگال کے انتخابات میں زعفرانیت کو سرے سے نکار دیا جائے، اگر ایسا ہوتا ہے تو ایک دفعہ پھر وقت کا فرعون زمین دوز ہوجائے گا، رعونت سے چور خود کے پھندے میں ہی پھنس کر شکار ہوجائے گا، ہندوستان ساوارکر کی سوچ سے آزادی پائے گا، اور ایک نئی صبح طلوع ہوگی۔*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔