جینا بھی اسی کا حق ہے جسے مرنے کا سلیقہ آتا ہے

*جینا بھی اسی کا حق ہے جسے مرنے کا سلیقہ آتا ہے_!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*

جینا بھی اسی کا حق ہے جسے مرنے کا سلیقہ آتا ہے جو مرنے سے گھبراتا ہے، وہ جیتے جی مرجاتا ہے         *قانونی جنگ صبر و استقامت چاہتی ہے، انقلاب وہی کارگر ہوتا ہے جو مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دیا جائے، طوفان بن کر لمحوں میں ہر چیز کو تتر بتر کردینا آسان ہے، موجوں کی طرح اٹھنا اور پھر گر جانا بھی مشکل نہیں، سیلاب بلا خیز بن کر سب بہا لے جانا بھی بڑی بات نہیں، توڑ پھوڑ کر کے سب کچھ بھکیر کر رکھ دینا بھی آسان ہے، غصہ و جنون میں پہاڑ اٹھا لینا بھی ممکن ہے؛ لیکن اگر حقیقی معنوں میں سب کچھ یکجا کیا جائے اور ایک قوت و اتحاد بن کر جنگ کی جائے تو دیر بلکہ کبھی کبھی بہت ہی دیر لگتی ہے، کھیت لہلہانے میں وقت لیتا ہے، قربانیاں بڑی قیمتوں کے بعد رنگ لاتی ہیں، مہندی گھس جائے، پتھر سے رگڑ دی جائے تب اس کا رنگ کھلتا ہے، قدیم زمانے میں جو بھی انقلابات آئے اگر ان میں سے کسی نے دیرپا اثر چھوڑا ہے، تو یقینا وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اور منظم تنظیموں کے ذریعے لایا گیا انقلاب تھا، مقتل مین سر رکھ دینے اور سر کٹانے دینے کے بعد نتیجے بارآور ہوئے ہیں_ حالانکہ انسان کی طبیعت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ فوری نتیجہ چاہتا ہے؛ لیکن یہ عمل شیطانی ہے، میدان عمل کے کارندے اپنے مقصود پر نگاہ گڑائے رہتے ہیں، وہ چلتے ہیں، پھرتے ہیں تھکتے ہیں، ہارتے ہیں، جیتتے ہیں_*       *یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹتے، ان کی ہمتیں جواب نہیں دیتیں، ہواوں کا رخ بدل جائے، آسمان بھی ٹوٹ پڑے تب بھی قدم ہلتے نہیں ہیں، وہ خود استقامت کا پہاڑ بن جاتے ہیں، اپنے موقف پر جم جاتے ہیں، پیر گاڑ لیتے ہیں، اور سربکف ہو کر دوٹوک فیصلے کے منتظر ہوجاتے ہیں_ تاریخی انقلابات پر کیا جائیں_! آپ تحریک جنگ آزادی پر ہی نگاہ دوڑائیں__! ہندوستان کو اگرچہ ۱۹۴۷ میں آزادی نصیب ہوئی؛ لیکن اس کی بنیاد سالہا سال قبل رکھ دی گئی تھی، تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے ہی شاہ عبد العزیر رحمہ اللہ نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے دیا تھا، علماء کی صف بندی اور پورے ملک میں متحدہ انقلابی جوش و جذبہ کے بعد_ پھانسی کے پھندوں کو چومنے، تختہ دار کو گلے لگانے_ ستیہ گرہ کرنے_ اور جی جان لگادینے کے بعد انگریزی فوجوں نے ہندوستان سے انخلاء پر رضامندی ظاہر کی تھی، لوگ بکھرے اور جڑتے گئے، شہادتیں ہوئیں مگر حوصلہ زندہ رہا، بچے پیدا ہوئے اور اپنی زبان و دل پر آزادی کا نغمہ سجائے اور سناتے ہوئے پروان پائے، انہوں نے شہداء کا میدان دیکھا اور حق و باطل کے خون کا رنگ پایا،  چنانچہ وہ خود بخود اٹھتے چلے اور اپنی روح تازہ دم کرتے گئے، اور دیکھتے دیکھتے ہی آزادی ہند کا خوبصورت تحفہ نصیب ہوا_*       *آج پھر آزادی کی جنگ کا میدان تیار ہے، ایک سیج سجا دی گئی ہے، جہاں سے فاشزم کے خلاف اور سنگھ کے خلاف محاذ آرا ہونا ہے_ CAA _NRC  اورNPR جیسے کالا قانون کو رد کردینا ہے، ملک کے ہر حصے میں شعلہ بھڑک اٹھا ہے، بہت سے افراد شہید ہوگئے ہیں، معصوم عوام کے ساتھ کئی طلبہ بھی جان بحق ہوئے ہیں، ابھی تو ابتدا ہے انتہاء باقی ہے_ مسافت بہت طویل ہے_ منزل ابھی دلی دور ہے_ اب تک جہاں مخالفین کی ریلیوں کی باری تھی اب دیس کے غدار اور بھکت قوم راستے پر آگئی ہے، کئی جگہوں پر احتجاجات کئے گئے اور ان  قوانین کی تعریف کرتے ہوئے ان کا دفاع کیا گیا ہے، وہ سہ رنگی جھنڈے کا سہارا لے رہے ہیں، وہ ہندو مسلم اور گھر و بے گھر کا نعرہ لگا رہے ہیں، سبھی کو گھسیٹ کر لایا جارہا ہے، انہیں مودی کے حق میں کھڑے ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے، خود مودی جی نے (۲۲/۱۲/۲۰۱۹) رام لیلا میدان میں جذباتی تقریر کی ہے، عوام کو بھڑکایا ہے، اس قانون کو ملک کے حق میں لازم قرار دیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی خانہ جنگی نہ ہوجائے_ ملک کسی خطرناک دوراہے پر نہ ٹھہر جائے جہاں خون ہی خون ہو_*       *آپ سیریا کی خانہ جنگی سے وقف ہوں گے_! وہاں طلبہ ہی کے ذریعے ایک طویل جنگ کا اعلان کیا گیا تھا، جو امن کے ساتھ بشار کی ظالم کاروائیوں کی پاداش میں متشدد ہوگئی، اور تاریخ کا خوں آشام ماحول بن گیا_ اے لوگو_ سنگھ کی سازشوں کو سمجھو_ اپنوں کی عیاری پر بھی نگاہ رکھو_ نام نہاد قائدین کے بہکاوے نہ آو_ یہ طوفان تھمنے نہ پائے_ انقلاب رکنے نہ پائے_ اب اگر رک گئے تو نسلیں بھی رک جائیں گی، ان کے حوصلے ختم ہوجائیں گے اور غیر جمہوری ملک میں ان کا دم گھٹ جائے گا_ خدارا_ خود کو اور دیس کو بچا لیجئے_ اور ابنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کر لیجئے_ گھروں سے نکلئے_ سڑکیں بھر دیجئے_ امن کے ساتھ حکومت ہند کے خلاف ڈٹ جائیے_ فاشسٹوں کی ہوا اکھاڑ دیجئے_ یہ جان لیجئے_! آج نہیں تو کبھی نہیں_ جو اب کے سوگئے تو صدیاں غلامی کی زنجیریں پہنانے کو تیار ہیں، در بدر بھٹکنے اور اپنے ہی ملک میں قید و بند کی زندگی جینے کو تیار رہیں_ جاگو_ اے امت کے غیور _ اٹھو_!! یہی وقت کا سب سے بڑا فریضہ ہے، یہ دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے، یہی خانقاہی و مدرسی عمل بھی ہے_ جو اب بھی نہ اٹھے تو ہماری خانقاہیں، مدارس اور دعائی نشستیں صرف ڈیٹینشن کیمپوں کی چہار دیواری میں سمٹ کر رہ جائے گی_!!!*     Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 27/12/2019

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔