جس کی لاٹھی اس کی بھینس" ___لیکن

*"جس کی لاٹھی اس کی بھینس" ___لیکن_!!*

         *" جس کی لاٹھی اس کی بھینس" بڑے بزرگوں کی یہ بڑی پرانی کہاوت ہے، لیکن عین زندگی کی حقیقت اور انسانی طبیعت کی عکاس ہے، اس وقت یہ لاٹھی امت شاہ اور نریندر مودی کے پاس ہے، اور ان کی حقیقی روح کو آئینہ دکھا رہی ہے، انسان دشمنی اور متشدد ہندتو کا پرتو کھول رہی ہے، کھلے فضا میں سانس لینے والوں کی زندگی میں بے چینی گھول رہی ہے، جنہوں نے لاشوں کا زینہ بنا کر سیاست کی ہے، مقتل سجا کر اور زیر خنجر قیادت پائی ہے، جو جیل کی ہوا کھا چکے ہیں، اور جنہیں سماج سے بے دخل کیا چکا تھا، وہ اب پورے سماج کو بے دخل کرنے پر آمادہ ہیں، ان دوں شخصیات کی زندگی کا ورق پلٹئے تو سوائے نفرت اور خونریزی کے اور کچھ نظر نہ آئے گا، گجرات کی سرزمین  سے لیکر دہلی کی اسیمبلی تک کا مختصر ترین قصہ یہی ہے کہ اپنی لاٹھی کا زور دار استعمال کیا جائے، دوسروں کی زندگی حرام کر کے اپنی زندگی عیش و تنعم میں گزاری جائے، گجرات اب بھی خون سے شرابور ہے۔ عشرت جہاں انکاونٹر_ گودھرا کانڈ اور گجرات فسادات کی معصوم نعشیں اب بھی انصاف مانگ رہی ہیں۔*         *بے گناہوں کا خون چیخ چیخ کر ظلم کی داستان بیان کر رہے ہیں، کورٹ کچہری سے بھلے ہی بری ہوجائیں لیکن وہ پاک روحیں اب بھی مولائے حقیقی کے سامنے پیش ہیں، اور اپنے مجرمین کے انتظار میں ہیں۔ وہ اب پندرہ لاکھ کا سوٹ پہن کر فقیری کا رونا رو رہے ہیں، اور ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ ڈراموں سے زیادہ ڈرامہ کیا جائے اور بھولی بھالی عوام کو بیوقوفی کی گولی دی جائے، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، گھر واپسی، لو جہاد اور موب لنچنگ سے لیکر اب این آر سی اور سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ تک کا سفر دراصل اسی لاٹھی کی طاقت ہے، اور وہی زور ہے جو انہیں پیسوں کے ذریعے اور اقتدار کے ذریعے حاصل ہوا ہے، ملک ملک کی سیاحت کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں زعفرانیت کا جال بچھانے؛ نیز تمام سرکاری بیوروکریسی کو اغوا کرلینے کا مقصد بھی یہی ہے، مہنگائی اور تعلیمی میادین میں لوگوں کو پیچھے دھکیل کر خود راجیہ سبھا کی ائرکنڈیشن میں بیٹھنے اور کڑورں خرچ کردینے کا پس پردہ بھی وہی لاٹھی ہے، صرف ۱۲۵ کی تعداد کا ایک سو پچیس کڑور لوگوں کا فیصلہ کرنا اور ان کے حق میں ناحق قانون بنا دینے کا جنون بھی اسی لاٹھی سے پیدا ہوا ہے۔*       *اس لاٹھی کے سامنے سبھی بھینس ہیں، عوام، سرکاری دفاتر،  بیروکریسی، نوکریاں سبھی کچھ انہیں کے اشارے پر چل رہی ہیں، وہ جو کہہ دیں وہی سیاست ہے، وہی ہندتو ہے، اب تو وہی تاریخ بھی ہے، چنانچہ نئی تاریخ یہ بتلائی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کانگریس پارٹی نے کیا تھا۔ آپ کو جاننا چاہئے کہ اس لاٹھی میں ایک نشہ ہے، جو اترتا ہی نہیں، پورے ملک کو نذر آتش کرنے کے موڈ میں ہیں، ہندوازم کے سہارے ہندو راشٹر بنانے کی طرف گامزن ہیں، اب تو شاید انہیں لگتا ہے کہ کوئی بھی ان کے مقابلہ کو نہیں، ان کے راستے میں کسی کو بھی آنے کی قوت نہیں، ممکن ہے کہ وہ خود کو بھگوان مان بیٹھے ہوں، فرعون وقت سمجھ بیٹھے ہوں، شداد زمانہ جان رہے ہوں_____ مگر یہاں پر ایک یہ غور کرنا چاہئے کہ اس دنیا میں ایک لاٹھی اور ہے، جس لاٹھی میں ایسا قہر ہے کہ جب وہ پڑجائے تو آواز نہیں آتی؛ لیکن سب کچھ زیر وزبر ہوجاتا ہے، تاریخ کے طلبہ اس سے واقف ہیں، کہ فرعون کو غرق ہوتے ہوئے لمحہ بھی نہ لگا تھا اور پورا فرعونی امپایر ڈوب کر نیست ہوگیا تھا، اور وہ قصہ پارینہ بن کر رہ گئے-*        *تاریخ میں کیا جائیں_! خود امت شاہ اس سے واقف ہوں گے، انہوں نے سیاست کے اعلی ترین شخصیات میں سے جن صفوں کو کنارہ کیا ہے، کبھی ان سے پوچھئے__! کہ وہ کون سی لاٹھی تھی جس نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا_!! لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ کو ہی لے لیجئے_ انہوں نے ہی متشدد ہندتو کی بنیاد مضبوط کی تھی، رتھ یاترا کی پوری کہانی یہی تو ہے، اور وہیں سے یہ دم چھلے نکل کر آئے اور انہون نے اپنے ہی استادوں کو دھکا ماردیا، آج کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں، وہ کس حاشیہ پر ہیں اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں_ امت شاہ کو اگر یہ لگتا ہے کہ ملک کو ایک دھارے پر قائم کرتے کرتے وہ حیات جاوداں پالیں گے تو وہ بھول کر رہے ہیں، وقت کسی کا نہیں، نہ جانے کب کروٹ لے لے اور پورا کا پورا کھیل بدل جائے، کوئی نہیں جانتا___! ویسے بھی یہ امت دائمی ہے، صبح قیامت انہی کے دم سے ہے، اس لئے اپنی فکر کریں، شاید کہ تاریخ میں عبرت بننے سے بچ جائیں___!*

     ✍  *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 24/12/2019

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔