کہیں یہ کسی بڑے طوفان کی تمہید تو نہیں

کہیں یہ کسی بڑے طوفان کی تمہید تو نہیں 

از ؛ محمد ہارون قاسمی

مودی حکومت کے ذریعہ جیسا کہ امید تھی شریعت اسلامی میں کھلی مداخلت کا آغاز ہوچکا ہے ۔۔۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کو بتادیا گیا کہ تین طلاق اب ایک بھی نہیں ہوگی یعنی تین طلاق اب سرے سے کوئی طلاق ہی شمار نہیں کی جائے گی البتہ صرف تین طلاق کا لفظ زبان پر لانے پر (ایک مسلمان کو)تین سال کی سزا ضرور دی جائے گی ۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ اسلام کے نکاح و طلاق (خاندانی منصوبہ بندی) کے نظام کے اندر یہ ایک بڑی خامی تھی جس کی طرف چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود اسلام کے کسی عالم فقیہ اور کسی حکمراں کی کبھی کوئی نظر ہی نہیں گئی ۔۔۔۔ مگر مسلمانوں خصوصا مسلم خواتین پر مہربان حکومت ہند کی نظر بہر حال ان کے اس عائلی مسئلہ کی گہرائی اور گیرائی تک گئی اس نے اس کی خامی اور خرابی کو دور کیا اور صدیوں پرانے اس مختلف فیہ مسئلہ کو متفق علیہ مسئلہ بنا کر بزور طاقت حل کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھے آپ ۔۔۔

در اصل آپ کی کمزوری کو اچھی طرح تاڑ لیا گیا ہے ۔۔۔ 1988 میں سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں مطلقہ خاتون کے لئے تا عقد ثانی صرف مختصر سا نفقہ مقرر کیا تھا ۔۔۔۔ مگر شاید اس وقت ملت کے جسم میں زندگی کی کچھ رمق موجود تھی ۔ ساری قوم نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور بالآخر حکومت کو وہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا مگر آج تیس سال بعد جبکہ اسلام کے ایک شرعی اور عائلی قانون پر کھلم کھلا تیشہ چلاکر اس کی جگہ ایک خلاف شرع اور ظالمانہ قانون مسلمانوں پر تھوپا جارہا ہے مگر اس کے باوجود اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں کوئی حرارت نہیں اور ہر طرف خوف میں ڈوبی ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔۔۔۔ آپ کی اسی بے حسی اور بزدلی کے سبب آج یہ نوبت آگئی ہے کہ اب غیر مسلم عدالتیں اور حکومتیں آپ کو یہ بتا رہی ہیں کہ آپ کو نکاح کیسے کرنا ہے اور طلاق کیسے دینی ہے اور یہ تو محض ایک تمہید ہے ابھی تو مکمل اسلام کی تجدید کاری کی جائےگی اور آپ کو سمجھایا جائےگا کہ اسلام در اصل ہے کیا ۔۔۔ اور ساتھ ہی آپ کو بتایا جائےگا کہ اسلام پر آپ کو کیسے عمل کرنا ہے اور ایک ہندی مسلمان کی حیثیت سے آپ کو کس طرح زندگی جینا ہے ۔۔۔۔

سنا ہے مسلم پرسنل لاء بورڈ اب سپریم کورٹ میں حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہا ہے ۔۔۔۔ یعنی سانپ کے بل میں پھر سے انگلی ڈالنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔۔۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ پہلے ایک بڑی غلطی کرچکا ہے اور پھر اسی غلطی کو دہرانے جارہا ہے ۔۔۔۔ ہونا یہ چاہئیے تھا کہ اگر کچھ مسلمان کہلانے والے کج ذہن لوگ ایک منظم سازش کے تحت تین طلاق کے مسئلہ کو لیکر عدالت پہنچ گئے تھے تو مسلم پرسنل لاء بورڈ ایک فریق کی حیثیت سے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہونے کے بجائے عدالت سے یہ کہتا کہ تین طلاق کا مسئلہ ہمارا ایک خالص شرعی اور عائلی مسئلہ ہے جس کو عدالت کو سننے کا کوئی اختیار ہرگز نہیں ہے اور ساتھ اس پر یہ بھی واضح کردینا چاہیے تھا کہ اس شرعی مسئلہ سے متعلق عدالت کا کوئی بھی فیصلہ ملت اسلامیہ کو ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ایک دفاعی فریق بن کر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہو گیا جس کا جو نتیجہ ہونا چاہیئے تھا وہ آپ کے سامنے ہے اب تین طلاق ایک بھی نہیں رہی اور مزید تین سال کی قید کی سزا کی کمی کو پارلیمنٹ کے ذریعہ پورا کردیا گیا ۔۔۔۔

یہاں یہ واضح رہنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کا ایک چھوٹا گروہ جو اس فیصلہ پر بظاہر خوش نظر آرہا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیئے کہ تین سال کی سزا سے اس کے ہم فکر لوگ بھی مستثنی نہیں ہیں اور پھر تین طلاق کو ایک تو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں اور یہاں تو ایک بھی نہیں رہی اب اگر ایک شخص تین طلاق کے بعد جیل چلا گیا اس نے کوئی رجوع بھی نہیں کیا ۔۔۔۔ تو کیا اب وہ مطلقہ خاتون اس کی بیوی رہی ۔؟؟ عدالت کہتی ہے کہ وہ ابھی بھی اس کی بیوی ہے اب بتائیے شرعی نقطہ نظر سے اس مرد اور عورت کا ساتھ رہنا جائز ہوگا ؟؟ اہل علم حضرات کے لئے یہ فروعی اختلافات میں الجھ نے کا وقت نہیں ہے بلکہ ان سے اوپر اٹھ کر غایت درجہ غورو فکر کا وقت ہے ۔۔۔۔

اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ تو آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ مسئلہ صرف طلاق کا نہیں ہے مسئلہ دین اسلام کے تحفظ کا ہے ۔۔۔۔۔ جس کا حل نہ عدالت میں ہے نہ پارلیمنٹ میں بلکہ اس کا حل صرف یہ ہے کہ آپ باطل قوتوں کو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیں اور اپنے مسلمان ہونے کا احساس دلائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بس ۔۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔