خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے قسط نمبر 1

خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے 

از : محمد ہارون قاسمی ، فون :  9412658062

کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں سب سے بڑا کردار ادا کرنے والے دو طبقے ہوا کرتے ہیں ۔ ایک مذہبی پیشواؤں کا طبقہ اور دوسرا سیاسی رہنماؤں کا طبقہ ۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے ۔۔۔ ما افسد القوم الا الملوک ۔ واحبار سوء و رھبانھا .. کسی قوم کے اندر بگاڑ آتا ہے فساد آتا ہے کوئی قوم تباہ ہوتی ہے برباد ہوتی ہے تو دو طبقے اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ مذہبی علماء کا طبقہ اور سیاسی حکمرانوں کا طبقہ ۔۔۔ یہ دونوں طبقے جبتک صحیح رخ پر چلتے رہتے ہیں اس وقت تک قوم عزت اور وقار کی زندگی جیتی ہے اور ترقی اور کامیابی کی منزل کی طرف گامزن رہتی ہے .. اور جب یہ دونوں طبقے صحیح رخ پر چلنا چھوڑ دیتے ہیں تو قوم ذلت و رسوائی کے مراحل سے گزرتی ہے اور زوال و انحطاط کے گڑھے کی طرف بڑھنے لگتی ہے ۔۔

بد قسمتی سے آج ملت کے یہ دونوں ہی طبقے صحیح اور سیدھے راستے سے ہٹ چکے ہیں وہ اپنے مقام و مرتبہ کو بھول چکے ہیں اور اپنے فرض منصبی اور ذمہ داری کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج صدیوں تک ملک پر فرماں روائی کرنے والی اور اپنی فطرت کے لحاظ سے حاکمانہ مزاج کی حامل ایک اعلی اور افضل ترین قوم ذلت مسکنت تباہی بربادی لاچاری اور بے بسی کی عبرت ناک تصویر بنی ہوئی ہے ۔۔ اور گزشتہ ایک صدی کے اندر حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ اب ملت اسلامیہ ہند کی پیشانی سے قومی قیادت کے حامل مذکورہ دونوں ہی طبقات سے متعلق ناامیدی اور مایوسی کے آثار صاف نظر آنے لگے ہیں ۔۔

ہم آج اپنے قارئین سے ثانی الذکر طبقہ( سیاسی قائدین) کے متعلق اپنا ایک نہایت تلخ تجربہ شیئر کرنا چاہتے ہیں اور اسی طبقہ کی بابت کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔۔ اور ان کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سنجیدہ فکر کے ساتھ حالات کو سمجھیں اور سوچیں کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری قیادت کے دل و دماغ اور فکر و ذہن کے اندر نفاق اور خود غرضی کے مہلک جراثیم کتنی گہرائی تک سرایت کرچکے ہیں ۔

اور شاید اب وقت آچکا ہے ہم اپنی موجودہ قیادت سے گلہ کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کوئی نئی قیادت وجود میں لانے کےلئے جدوجہد کریں اور اس سوچ اور فکر کو ذہن سے نکال دیں کہ کوئی مسیحا آئے گا اور وہ قومی قیادت کا جھنڈا اٹھاکر آپ کو نجات دلائے گا یہ نظریہ آپ کی عملی غفلت اور کوتاہی کو جواز اور تقویت فراہم کرنے والا ہے جو آپ کے مصائب و مشکلات کو صرف طول تو دے سکتا ہے مگر یہ نظریہ آپ کو نجات نہیں دلا سکتا ۔۔ اگر خدا تعالی نے آپ کو فہم و فراست کی قوت عطا کی ہے تو آپ خود اپنی ذات سے قوم کی رہنمائی کے لئے آگے آئیں اور اس کو وہ راستہ دکھانے کی کوشش کریں جو اس کی منزل کی طرف جانے والا ہے ۔۔۔

ہمیں روز اول ہی سے اپنی سیاسی قیادت سے متعلق بہت کچھ شکوہ شکایت اور لعن طعن سننے کو ملا ہے اور آج تک سنتے چلے آرہےہیں مگر نہ جانے کیوں ہمارے قلب و ذہن کے اندر اپنے قائدین کے متعلق ایک عجیب سا حسن ظن قائم تھا اور ہمیں اپنی قیادت کے بارے میں کوئی تنقیدی گفتگو کچھ زیادہ اچھی نہیں لگتی تھی ۔۔

ہمارا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے رہنما ملت کے حالات و مسائل سے غافل اور بے خبر ہیں یا ان کے سینے کے اندر اپنی قوم کا کوئی درد نہیں ہے ۔۔ بلکہ وہ بھی قوم کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ بھی قومی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں ۔۔۔ ملت کی تباہی کا احساس انہیں بھی ہے اور ملت کی بربادی کی کڑھن ان کے اندر بھی ہے ۔ مگر یہ نظام جمہوریت کی کرشمہ سازی ہے کہ ہمارے بڑے بڑے نیک دل اور صالح طبیعت رہنما بھی ملکی سیاست کے بتخانے میں رکھے ہوئے لات ومنات اور دیوی دیوتاؤں کی بندگی پر مجبور ہوگئے ۔۔

یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے بڑے بڑے قوم پرست اور شعلہ بیان قائدین کے ہونٹوں کو سی دیا گیا ۔ وہ کچھ بولنا چاہتے ہیں مگر بول نہیں سکتے ۔ ان کے ہاتھوں کو جکڑ دیا گیا وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کرنہیں سکتے ۔ ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں وہ کوئی قدم بڑھانا چاہتے ہیں مگر بڑھا نہیں سکتے ۔۔

ہم سمجھتے تھے کہ اگر ہمارے رہنماوؤں کو کوئی آزاد سیاسی ماحول میسر آجائے اور قوم کا کسی درجہ میں انہیں کوئی اجتماعی اعتماد حاصل ہو جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ طبقہ قوم کے حالات میں ایک بڑا انقلاب برپا کر سکتاہے ۔ اور ہم اقبال کے اس مزدہ جاں فزاں سے یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ۔

نہو ناامید اے اقبال اپنی کشت ویراں سے ۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ۔

چنانچہ ہم نے اسی امید کے سہارے اپنی معمولی فہم کے مطابق ایک سہ نکاتی قومی ایکشن پلان تیار کیا ۔۔۔ جس کی پہلی شق یہ تھی کہ ہم ملکی سطح پر ملت کا درد رکھنے والے اصحاب فکر و فہم اور باصلاحیت سیاسی قائدین کو ایک میز پر جمع کرنے کی کوشش کریں اور انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں (آپ جہاں ہیں وہیں رہیں ۔ جو کچھ کر رہے ہیں کرتے رہیں ۔ جس پارٹی سے وابستہ ہیں اسی سے جڑے رہیں ۔۔۔ ہم آپ کے مفادات سے کوئی چھیڑ چھاڑ ہرگز نہیں چاہتے البتہ سردست آپ سے ہم صرف اتنا چاہتے ہیں) کہ آپ اپنے سیاسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر ایک مسلمان کی حیثیت سے محض اللہ کی رضا کی خاطر اور قومی خیروفلاح کے مخلصانہ جذبہ کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملت کو درپیش حالات و مسائل پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں اور سوچیں کہ آج آپ کی قوم کس نازک اور خطرناک مقام پر کھڑی ہے ۔۔ اور اس کا آخری انجام کیا ہوسکتا ہے ۔۔ سر پر منڈلا رہے طوفانوں کا احساس کریں اور مستقبل کے خطرات کو سمجھیں ۔ اور اپنی قوم کی نجات اور اس کی تعمیر نو کے لئے کوئی ممکنہ اور موثر لائحہ عمل طے کریں ۔۔

ممکن ہے کہ خدا تعالی ہماری اس ناقص سی سعی کو قبول کرلے اور اس سطحی سی سیاسی اجتماعیت پر خدا تعالی کی مدد و نصرت کا نزول ہوجائے اور اس قوم کو وہ راہ نجات مل جائے جسکی تلاش میں اس کی روح کم از کم پچھلی ایک صدی سے سرگرداں ہے ۔۔۔۔

امید پر دنیا قائم ہے ۔۔ ہمیں بھی امید تھی کہ انشاءاللہ تعالی ہماری یہ کوشش کسی نہ کسی درجہ میں ضرور ثمر آور ثابت ہوگی ۔ چنانچہ ہم نے اس مشن کو بروئے عمل لانے کے لئے پہلے مرحلے میں چند اہم اور نامور سیاسی شخصیات کا انتخاب کیا جن سے رابطہ کرکے ہمیں انہیں ایک میز پر جمع کرنا تھا ۔

جن میں پہلا نام ہماری فہرست کے مطابق ایک نہایت صاف ستھری شبیہ کے حامل ہندوستان کے سابق وائس پریسیڈینٹ محترم محمد حامد انصاری صاحب کا تھا ۔ جن سے ہم نے رابطہ کیا اور ایک انتہائی خوشگوار اور سنجیدہ ماحول میں محترم سے ہماری ایک طویل ملاقات ہوئی ۔ ملت کے حالات کے بارے میں اور مستقبل کے اندیشوں سے متعلق تفصیل سے بات چیت ہوئی ہم نے اپنے مشن اور اس کے اغراض و مقاصد ان کے سامنے رکھے ۔ اور بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ جیسے ایماندار اور صاف ستھری امیج کے حامل قائدین اپنے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر قوم کی نازک صورت حال پر غور و فکر کے لئے ایک جگہ جمع ہوں ۔۔

ہم نے ان سے عرض کیا کہ محترم حامد انصاری صاحب آپ کو خدا نے وہ مرتبہ اور مقام عطا فرمایا ہے کہ آپ قوم کے لئے کچھ کرسکتے ہیں اور بہت کچھ کرسکتے ہیں اس قوم کا آپ پر حق ہے اور یہ قوم آپ کی طرف بڑی امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے لہذا اٹھئے اور اس تباہ حال قوم کے لئے کچھ کیجئے ۔۔

محترم حامد انصاری صاحب نے ہماری باتیں بڑے غور سے سنیں ہمارے مشن کی حرف بحرف تائید کی اور ہماری کوششوں کی بے انتہا سراہنا کی ۔۔۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم جو مقصد لیکر محترم انصاری صاحب کے پاس گئے تھے اس میں ہمیں کوئی کامیابی نہ مل سکی اور آنجناب نے اپنی ذاتی مصروفیات کے سبب ہمارے اس مشن میں کسی طرح کی شرکت سے معذرت کرلی ۔۔۔۔۔

اس ناکام ملاقات پر ہمیں پہلی مرتبہ اپنی قومی قیادت سے متعلق اپنے حسن ظن پر ایک چوٹ کا احساس ہو رہا تھا محترم حامد انصاری صاحب کا رد عمل ہماری توقع کے یکسر خلاف تھا اور ہم جس مسرت بھری امید کے ساتھ آنمحترم سے ملاقات کے لئے گئے تھے اس سے کہیں زیادہ مایوسی اور ذہنی اذیت کے ساتھ اپنے بوجھل قدموں سے واپس آگئے ۔۔۔

لیکن ابھی ہم نے ہمت نہیں ہاری تھی اور ہماری نظر انتخاب میں اگلی شخصیت محترم ابو عاصم اعظمی صاحب کی تھی جن کے بارے میں ہم نے سنا تھا کہ وہ ایک سچے قوم پرست بے باک اور دلیر لیڈر ہیں ۔۔۔ چنانچہ ہم نے بذریعہ ای میل اپنے مشن کے بارے میں تمام تفصیلات محترم ابو عاصم اعظمی کی خدمت میں ارسال کیں ۔۔۔ محترم اعظمی صاحب نے ہمارے ایکش پلان کا اچھی طرح مطالعہ کیا اور پھر ایک روز رات کے قریب دس بجے ہمیں خود فون کیا اور ہمیں بتایا کہ میں نے آپ کا پورا ایکشن پلان پڑھا ہے ۔ کچھ مزید گفتگو ہوئی اور محترم نے ہم سے پوچھا کہ آپ ابو عاصم اعظمی سے کیا مدد چاہتے ہیں ؟؟؟

ہم نے ان سے کہا کہ ہم آپ سے کوئی وقتی یا مادی مدد نہیں چاہتے بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ جیسے ملت کا درد رکھنے والے مخلص رہنما پارٹی پولٹیکس سے اوپر اٹھ کر اور اپنے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر ملت کو درپیش حالات و مسائل پر غور وفکر کے لئے ایک جگہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور مستقبل کے لئے کوئی مثبت موثر اور ٹھوس ممکنہ لائحہ عمل طے کریں اور اپنی خداداد طاقت اور صلاحیت کو قومی خیر و فلاح کے لئے استعمال کریں جس کے لئے ہم نے یہ ایکشن پلان تیار کیا ہے جو آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔۔۔

محترم اعظمی صاحب نے ہمارے مشن کی بھرپور تائید کی ہماری ہمت افزائی کی اور ہم سے وعدہ کیا کہ میں خود آپ کو فون کروں گا ۔۔۔ ہمیں خوشی ہوئی اور ایک امید سی جاگی کہ اگر ابو عاصم اعظمی جیسے ذمہ دار اور بااثر لوگ قوم کے لئے کچھ کرگزرنے کا عزم کرلیں تو شاید قوم کے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے ۔۔۔ مگر بصد آرزو کہ خاک شود ۔۔۔ ہم ایک عرصہ تک محترم کے فون کا شدت سے انتظار کرتے رہے مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے باوجود محترم اعظمی صاحب کا کوئی فون نہیں آیا ۔۔۔

ہم نے سوچا کہ ممکن ہے محترم اپنی مصروفیات کے سبب اپنا وعدہ بھول گئے ہوں لہذا ہم نے یاد دہانی کے لئے کئی بار از خود رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کسی طرح بھی محترم سے ہمارا رابطہ نہ ہوسکا اور بالآخر ہمیں ان کے دفتر سے معلوم ہوا کہ محترم کو اپنا وعدہ اچھی طرح یاد ہے مگر اب انہیں مزید بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔۔ محترم اعظمی صاحب کے اس منفی ری ایکشن سے دل و دماغ پر ایک چوٹ لگی اور ذہن کے اندر نہ جانے کیسے کیسے سوالات وسوسے اور خیالات جنم لینے لگے اور اپنی قیادت سے متعلق ہمیں جو قلبی حسن ظن قائم تھا اب وہ بہت حد تک کمزور مضمحل اور پراگندہ ہوتا نظر آرہا تھا ۔۔۔۔

مگر ابھی بھی ہم نے امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا اور ہم اپنے مشن کو سطح زمین پر بروئے عمل لانے کی جدوجہد میں مصروف تھے ۔۔ اور ہماری انتخابی فہرست میں اگلا نام ہندوستان کی مائہ ناز شخصیت اور مسلم قوم کے بے باک ترجمان کہے جانے والے فائر برانڈ لیڈر عالی جناب محترم اسد الدین اویسی صاحب کا تھا ۔۔ محترم اویسی صاحب سے ہم نے ٹیلیفونک کونٹکٹ کرنے کی کوشش کی مگر محترم سے ہمارا کونٹکٹ نہیں نہیں ہوسکا ۔۔۔ بعد ازاں محترم اویسی صاحب کو ہم نے ایک خط لکھا جس میں مذکورہ مشن کے اجمالی ذکر کے ساتھ ایک اہم پیغام تحریر تھا جس کا خلاصہ کچھ یوں تھا ۔۔۔

محترم اسدالدین اویسی صاحب خدا تعالی نے آپ کو فہم فراست کی قوت اور علم و بصیرت کا نور عطا کیا ہے رب کائنات نے آپ کے اندر وہ تمام صفات ودیعت کی ہیں جو کسی قومی رہنما کے اندر ہونا ضروری ہیں ۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ایم آئی ایم کے پلیٹ فارم سے ملت کی جو سیاسی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ یقینا لائق تحسین ہیں مگر قومی تقاضا ہے کہ آپ اس جزوی سیاست سے تھوڑا اوپر اٹھ کر ملکی سطح پر قومی سیاست کا فرض انجام دیں جس کی ایک شکل یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کل ہند سطح کا ایک نون پولٹیکل قومی آرگنائزیشن قائم کریں جس کے مختلف ونگ بنائیں جن میں ایک سیاسی ونگ ہو جو ایم آئی ایم ہی ہوسکتا ہے ۔۔۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ ایک سیاست سے غیر وابستہ یا کسی دوسری جماعت سے منسلک شخص بھی بآسانی اس قومی اتحاد سے جڑ سکتا ہے اور یوں ملکی سطح پر ایک عظیم متحدہ قومی پلیٹ فارم وجود میں آسکتا ہے ۔۔ اور یہ قومی شیرازہ بندی آپ کا قوم و ملت کے لئے ایک عظیم اور تاریخ ساز کارنامہ ہوگا جس سے نہ صرف قوم کو کامیابی کی راہ ملے گی بلکہ آپ کی شخصی سیاست کو بھی زبردست تقویت حاصل ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر اویسی صاحب کی طرف سے ہمارے اس خط کا کوئی جواب موصول نہ ہوسکا کئی ماہ گذر جانے کے بعد ہم نے پھر ایک دوسرا خط محترم کی خدمت میں ارسال کیا مگر اویسی صاحب کی طرف سے اس کا بھی کوئی جواب نہیں مل سکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاید یہ بانگی مسلم قیادت کی مجرمانہ ذہنیت کو سمجھنے کےلئے بالکل کافی تھی ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ ہم اپنی قیادت کے متعلق آخر کیا رائے قائم کریں ۔۔۔

اسی اثنا میں ہمارا رابطہ ایم آئی ایم سے وابستہ ایک نوجوان شخص سے ہوا جو غالبا مجلس کے ترجمان بھی رہ چکے تھے ان کو ہم نے اپنی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا اور ان کے سامنے اویسی صاحب کو لکھے ہوئے خطوط کا ذکر کیا ۔۔۔۔۔۔ تو انہوں نے تو کچھ اور ہی حقیقت بیان کی ۔۔۔ جو ہمارے لئے نہایت افسوس ناک اور ناقابل یقین تھی ۔۔ جس نے ہمارے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر رکھدیا اور ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(باقی انشاءاللہ کل)

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔