کیا آنکھیں چہرے کا حصہ نہیں

چند سال پیچھے چلے جائیں تو اسی معاشرے میں خواتین کا نقاب آج سے یکسر تبدیل دکھائی دے گا۔ مکمل شرعی اور پردے کے تقاضوں کو پورا کرنے والا، رفتہ رفتہ اس میں پیش رفت ہونے لگی۔ معمولی آنکھیں نقاب سے باہر آنے لگیں‘ پھر نقاب نیچے کی جانب سرکنا شروع ہوگیا۔ پھر ذرا اوپر کی طرف ہٹنے لگا کہ بسا اوقات ناک بھی نمودار ہونے لگی۔ پیشانی نے بھی اپنے آپ کو ظاہر کرکے کچھ بالوں کو بھی نمود و نمائش کی اجاز ت دے دی۔ خواتین سستی کرتی گئیں اور بات بڑھتی گئی۔ میں آپ سے صرف ایک بات پوچھوں گا کہ جب آپ آنکھیں ظاہر کردیتی ہیں تو کیا آپ کے مکمل وجود کا حسن صرف آپ کی آنکھوں میں نہیں آجاتا؟ کیا یہ ہیجان کے لیے کافی نہیں ہوتیں؟ کیا یہ فتنہ برپا کرنے کے کا سامان نہیں بن جاتی ہیں؟ یقینا آپ کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہوگا تو پھر دیر کیسی؟ یہ سستی کیوں؟ جہاں آپ نے پانچ فٹ کا وجود ڈھانپ لیا یہ ایک انچ ڈھانپنے میں دقت و پریشانی کیسی؟ عقلوں پر پردے پڑ گئے ہیں؟ تمہیں کوئی کہنے سننے والا نہیں رہا؟ تمہیں اس طرف توجہ دلانے والے اس دنیا سے چل بسے؟ آخر تمہیں کس چیز نے اس طرف آمادہ کیا ہے؟ اللہ رب العزت کا حکم تمہارے کانوں سے نہیں ٹکرایا ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات تمہارے کانوں میں نہیں پڑی؟ موجودہ دور نے عریانیت کو ایک فن و آرٹ بنادیا ہے اور ایسی فضا پیدا کردی گئی ہے کہ عورتوں نے خوشی خوشی شرم و حیاء کا زیور اتار پھینکا ہے، اور مغربی رنگ میں رنگ گئی ہیں. اور اس چیز کے اندر عالم ہو یا غیر عالم، تمام کی عورتیں یکساں طور پر نظر آتی ہے- اللہ تبارک و تعالٰی ہماری مائیں اور بہنوں کو ہدایت عطاء فرمائے، اور ان کے مردوں کو اس طرف توجہ دینی کی توفیق عطا فرمائے........! آمین ثم آمین یا رب العالمین. (ماخوذ از تحفۂ دلہن)

*عبدالواحد مظفرنگری*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔