کیا سارے ہندوستانی ہندو ہیں

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ* *اس* ملک میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی ہیں، جینی بھی ہیں عیسائی بھی ہیں بدھ بھی ہیں سکھ بھی ہیں اور پارسی بھی ہیں اور نہ جانے کتنے مذاہب کے لوگ آباد ہیں، یہاں کے آدی واسی اور اتر بھارت کے قبائلی لوگ اپنے کو الگ مذھب کا بتاتے ہیں، اور اپنی الگ شناخت اور الگ مذھب ہونے کا وہ عدالت میں مقدمہ لڑ رہے ہیں، کرناٹک میں ایک بڑی آبادی کو یہاں کی عدالت نے ہندو مذھب سے الگ مذھب (لنگایت) تسلیم کر لیا ہے ۔ اس کے باوجود یہ دعوی کرنا کہ ہندوستان کے سارے باشندے سے ہندو ہیں ،سب کی تہذیب ایک ہے، یہ حقیقت کو منھ چڑھانا ہے، اور ایک غلط میسیز دینا ہے، جس کا حقیقت سے کوئی جوڑ اور تعلق نہیں ہے ، اور اس طرح کے بیانات سے ہندوستان کی خوبصورتی اورخصوصیت و انفرادیت ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ کافی دنوں سے یہ شوشہ چھوڑا جارہا ہے ،کہ ہندوستان کے سارے باشندے ہندو ہیں یعنی ہر ہندوستانی ہندو ہے۔ سب کی تہذیب کلچر اور ثقافت *ہندوتو* ہے۔ ہندو کس مذھب اور عقیدہ کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک تہذیب اور کلچر ہے، اور جتنےہندوسانی ہیں سب کی تہذیب ثقافت اور کلچر ایک ہی ہے۔ اس غلط فہمی کو پھیلانے میں میڈیا بھی پیش پیش ہے ۔ ابھی کچھ دن قبل بھی آر ایس ایس چیف کا بھی ایک بیان پھر آیا ہے کہ *سارے ہندوستانی ہندو ہیں سب کی تہذیب ایک ہے* ۔ *یہ* دعوی بے بنیاد اور حقیقت کے خلاف ہے ،کبھی بھی سارے ہندستانیوں کی تہذیب اور ثقافت ایک نہیں رہی ہے بلکہ یہ ملک ہمیشہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا سنگم اور مجموعہ و گلدستہ رہا ہے اور ہر مذھب کے ماننے والوں نے اپنی اپنی تہذیبوں اور ثقافتوں کی حفاظت کی ہے، اور اپنی تہذیبی علامتوں، شناختوں اور پہاچنوں کو باقی رکھا ہے ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ *تہذیب* اور *تمدن* دو الگ الگ اصطلاح ہیں اور دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ سارے ہندستانیوں کا *تمدن* ایک ہے لیکن یہ کہنا کہ سارے ہندستانیوں کی *تہذیب* ایک ہے یہ *تعبیر* اور *اصطلاح* کسی طرح درست نہیں ہوسکتی ہے ۔ *تہذیب* اور *تمدن* کے فرق کو سمجھنا نہایت ضروری ہے ۔ *تہذیب* زندگی کے بارے میں *نقطئہ نظر* کو کہتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہئے کہ زندگی کے بارے میں مفاہیم( تصورات) کا مجموعہ ہے جیسے شادی بیاہ طلاق خرید و فروخت اور دوسرے تمام معاملات، جو انسانی زندگی اور کائنات کے بارے میں کلی فکر یعنی عقیدے سے نکلتے ہیں ان کا سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوئ تعلق نہیں ۔ ہر امت یا قوم کا اپنی زندگی کے بارے میں ایک خاص نقطئہ نظر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ سرمایہ دار عورت کو ایک خاص نظر سے دیکھتا ہے، کہ ایک خوبصورت مخلوق ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے جب کہ *اسلام* مسلمانوں کو عورتوں کے بارے میں یہ تعلیم اور تاثر دیتا ہے کہ یہ آبرو ہے اس کی حفاظت لازمی اور ضروری ہے ۔ اس طرح ہر قوم اور ہر امت کا ایک خاص نقطئہ نظر ہوتا ہے وہ اشیاء اور اور افعال کے بارے میں اپنے نقطئہ نظر کے مطابق حکم لگاتے ہیں، جو دوسری قوموں اور ملتوں سے الگ ہوتی ہے، اسی نقطئہ نظر کی بنیاد پر مختلف تہذیبوں کا دنیا میں جنم ہوا کیونکہ زندگی کے بارے میں انسانوں کے نقطئہ نظر مختلف ہیں ۔ اسی لئے ایک مسلمان کے لئے کبھی اور کسی حال میں کسی اور امت اور ملت کی تہذیب کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے اور اسلامی تہذیب کے تمام تصورات اور تعلیمات وحی ہیں اور جو چیز وحی نہیں وہ دین و عقیدہ اور تہذیب نہیں ۔ جب کہ *تمدن* محسوس ہونے والی مادی اشکال کو کہا جاتا ہے، جیسے ہوائی جہاز ریل گاڑی راکٹ کمپیوٹر اور گاڑی وغیرہ اس لئے *تمدن* کسی امت جیسے عیسائ یہودی پارسی سکھ مسلمان اور ہندو کے ساتھ خاص نہیں ہوتا ہے بلکہ *تمدن* میں تمام مذاہب اور امتیں ایک دوسرے کی محتاج ہوتی ہیں ایک دوسرے کی ایجادات و اختراعات اور مصنوعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ قومیں اور ملتیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے استفادہ کرتی ہیں ۔ اسلام نے تمدن کو کبھی بھی کسی مصدر اور ذریعے سے حاصل کرنے کی اجازت دی ہے اس کا کسی دین یا عقیدے سے کوئ تعلق نہیں، اس میں تمام انسانوں کی محنت شامل ہے خواہ وہ موجود انسان ہیں یا گزرے لوگ اور چاہے مسلمان ہیں یا غیر مسلم ۔ *تہذیب* اور *تمدن* کے اس فرق کو ذھن میں رکھئے اور پھر ہندوستان کے باشندوں کا جائزہ لیجئے کہ کس طرح تمام لوگ ہندوستانی ہوتے ہوئے بھی باہم ان کی تہذیبں کس قدر الگ الگ ہیں ۔ جنوبی ہندوستان کے لوگوں کی تہذیب الگ ہے، شمالی ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کی تہذیب الگ ہے، ان کے شادی بیاہ اور دیگر تمام امور الگ الگ ہیں ۔ آسام کے لوگوں کی تہذیب الگ ہے بنگال کے لوگوں کی تہذیب الگ ہے ،ان کے کھانے پینے بود و باش اور رہن سہن کا انداز اور طریقہ الگ ہے ۔ یہاں جتنے مذاہب کے لوگ آباد ہیں سب کے طرز اور طریقے الگ الگ ہیں مسلمانوں کا طریقہ الگ ہے سکھوں کا طریقہ الگ ہے بدھ اور جین کے ماننے والے الگ ہیں اس کے باوجود یہ کہنا کہ سارے ہندوستانی *ہندو* ہیں سب کی *تہذیب* ایک ہے یہ سراسر بے بنیاد سفید جٹھوٹ اور مضحکہ خیز بات ہے ۔ (ڈاکٹر منظور عالم کے مضمون سے مستفاد) *تمدن* کے بارے میں تو ہم کہ سکتے ہیں کہ سارے ہندستانیوں کا *تمدن* ایک ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارے ہندستانیوں کی *تہذیب* ایک ہے ۔ *تمدن* کے حوالے سے یہ دعوی درست ہوگا کہ سبھی ہندوستانی اس میں ایک ہیں جیسے تاج محل لال قلعہ قطب مینار سبھی ہندوستانیوں اور پوری دنیا کے لوگوں کے لئے ایک علامت ہیں یاد گار ہیں سبھی اس کی سیاحت کریں گے اور اس سے استفادہ کریں گے ۔ موبائل کا بنانے والا عیسائ ہے لیکن اس سے سارے لوگ استفادہ کریں گے، کیونکہ یہ تمدن اور ٹکنالوجی کی ترقی ہے اس سے استفادہ میں سب ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہیں ۔ یہ کہنا کہ بھارت کے سارے باشندے ہندو ہیں، یہ محض ایک ادعا (دعوی) اور بے بنیاد بات ہے ۔ اس کی بنیاد نہ مذھب ،دھرم میں ہے، نہ سماج میں نہ آئین و عرف میں، ہندو کمیونٹی بھی ہے اور دھرم بھی ۔ ہندی یا ہندوستانی ہونا یہ الگ ہے اور ہندو ہونا یہ ایک معنی، الگ اصطلاح اور مفہوم ہے۔ ہندوستان کے سارے باشندے کو ہم ہندوستانی یا ہندی کہیں گے لیکن ہر ہندوستانی کو ہم ہندو نہیں کہہ سکتے ۔ عرف عام میں لفظ ہندو یہ خاص لفظ ہے ایک خاص مذھب کے لوگوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ جب لفظ ہندو بولا جاتا ہے تو اس مذھب کے ماننے والے مراد ہوتے ہیں ۔اور لفظ ہندی یہ عام ہے اس کا اطلاق ہندوستان کے ہر باشندہ پر ہوگا۔ اس کا مذھب خواہ کچھ بھی ہو۔ ان دونوں کے درمیان عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے، یعنی ہم یہ کہیں گے کہ ہر ہندو تو ہندی ہوگا، لیکن ہر ہندی ہندو نہیں ہوگا۔ جیسے ہم مسلمان ہندی تو ہیں ہندو نہیں ۔ الغرض اس طرح کے بیانات حقائق سے چشم پوشی اور سچائ کو جھٹلانا ہے۔ ہمیں اپنی علامت شناخت پہچان اور تہذیب کی حفاظت ہر حال میں کرنی ہے ۔ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے اور برداران وطن کو بھی صحیح صورت حال سے آگاہ کرنا ہے ،اس طرح کے بیانات سے ہمیں نربھس اور خائف نہیں ہونا چاہیے باطل آج میدان میں علمی فکری تہذیبی سیاسی اور مذہبی ہر اعتبار سے کود پڑا ہے، ہمیں مل کر متحد ہوکر اس ماحول کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنی تہذیبی دینی معاشرتی اور ملی شناخت کو باقی رکھنا ہے ۔اس طرح کے یلغار اور حملے ہر دور میں اسلام پر ہوئے ہیں اور ہمیشہ حق پرستوں نے ان کا مقابلہ کیا ہے اور دشمنوں کے دانت کھٹے کردئے ہیں، مسلمان کبھی سرے سے ڈوبے اور ختم نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے ۔

*جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں* *ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے اودھر نکلے* اور شاعر نے بالکل سچ کہا ہے ۔۔۔

*اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے* *جتنے کے دوباو کے اتنا ہی یہ ابھرے گا*

*ایسے* وقت اور ایسے حالات میں جب کہ سارے ہندستانیوں کو ہندو اور سب کی تہذیب کو ہندتو بتایا جارہا ہے اور غلط فہمی پھیلائ جارہی ہے، ہم سب( مسلمانوں) کی ذمہ داری ہے کہ ہم سو فیصد مسلمان بن جائیں اور ہم اپنی شریعت اور تہذیب کے مطابق زندگی گزاریں ہمارا سارا کام دین اور شریعت کے مطابق ہو، غیروں کی مشابہت سے کلی اجتناب کریں ۔ اور یہ عقیدہ رکھیں کہ اللہ کے نزدیک صرف اسلام مذھب ہی قابل قبول ہے اور باقی سارے مذاہب منسوخ ہیں جو کسی اور مذھب کی پیروی کرے گا وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔