ملک کی سلامتی کے لئے لمبی لڑائی لڑنی ہوگی

*ملک کی سلامتی کے لئے لمبی لڑائی لڑنی ہوگی*

         *محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ* 

                                *حق و باطل* اور خیر و شر کا معرکہ ہمیشہ سے سرگرم رہا ہے ۔ باطل نے حق کو دبانے کی ہمیشہ کوشش کی ہے، طاقت والوں نے ہمیشہ کمزورں پر ظلم کیا ہے، ان کو اپنی طاقت اور قوت کے بل پر،حق کی طرف آنے سے روکا ہے ۔ اور نہ ماننے کی صورت میں ملک بدر کرنے اور شہر سے جلا وطن کرنے کی دھمکی دی ہے ۔ جب بھی حق کی طاقت نے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور اپنی ردائے رحمت کو پھیلایا تو باطل نے اس کا پیچھا کیا ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کہ، جب بھی پیغمبر وقت نے راہ حق کی طرف لوگوں کو دعوت دی ۔ انسانیت اور مانوتا کی آواز اٹھائی، ظلم اور ظالموں کے خلاف بولے، اور لوگوں کے حقوق کے لئے کھڑے ہوئے تو طاقت والے مزاحم ہوئے اور لوگوں نے حق کا انکار کیا اور قبول حق سے لوگوں کو باز رکھا،اور پیغمبر وقت اور ان کے متبعین کے خلاف غلط فہمیاں پھیلائیں ۔ اسلامی تاریخ کو بھی اس طرح کی کشمکش کا برابر سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اور آج بھی یہ غلط فہمیاں خوب پھیلائ جارہی ہیں ان غلط فہمیوں کو ہوا دینے میں مغربی میڈیا کا خاصا رول ہے ۔ 

     آج بولہبی میڈیا اور ذرائع ابلاغ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچھنے میں، اور مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے میں پیش پیش ہے نیز مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلانے میں سرگرم ہے ۔  

       *ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز* 

      *چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی*

                  *اس* وقت ملک کے جو حالات ہیں ۔ باطل جس طرح اپنے عزم اور منصوبے کو پھیلانے میں سرگرم ہے ۔جس طرح دھیرے دھیرے وہ اپنے منصوبے اور منشور کو نافذ کر رہے ہیں اور اپنی پلانگ کو نافذ کرنے کے لئے ہر حربے اور طریقے اپنا رہے ہیں، یہاں تک کہ فوج اور ڈیفینس کے شعبے میں اپنا اثر بڑھا کر موقع پر اس کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اس سے مسلمانوں کی تشویش بہت بڑھ گئی ہے ۔ 

             لیکن ان حالات و واقعات سے ہمیں مایوس اور شکت خوردہ نہیں ہونا چاہیے اور ہم کو کم حوصلگی اور پست ہمتی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔ اہل ایمان کی شان تو یہ ہے کہ ایسے واقعات و حالات ان کے ایمان میں مزید اضافے کا سبب بن جائیں اور دشمن کا خوف کبھی ان کے عزم و حوصلہ کو کمزور نہیں کر پائے ۔ 

               اس وقت مسلمانوں کو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان واقعات سے سبق لینے کی ضرورت ہے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے مشکل حالات میں دشمنوں کے چیلنج کو قبول کیا ۔ غزوئہ احد کے موقع پر مشرکین مکہ کی طرف ابو سفیان نے چیلنج کیا کہ آئندہ سال بدر کے میدان میں پھر ہمارا مقابلہ ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیلنج کو قبول کیا اور آئندہ سال حسب وعدہ مسلمانوں کی ایک فوج کے ساتھ بدر کا سفر کیا ،وہاں پہنچ کر کئی دنوں قیام کیا لیکن اہل مکہ کو ہمت نہیں ہوئی اور مقابلہ پر نہیں آئے ۔ اس موقع پر منافقوں نے مسلمانوں میں خوف و ہراس اور وحشت پیدا کرنے کے لئے طرح طرح کے حربے کئے ،غزوئہ احد کی شکست کا حوالہ دیا۔ اور ان کی رائے نہ ماننے کو شکت کی وجہ قرار دیا اور نہ جانے کتنے ہمت شکن حالات پیدا کرنے کی کوشش کی،کافروں کے بڑے مجمع کا حوالہ دے کر ان کو ڈرایا۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ثابت قدم رہے اور بغیر کسی خوف و خطر کے پوری جرآت کے ساتھ کہا: حسبنا نعم الوکیل نعم المولی و نعم النصیر ۔ ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کار ساز ہے ۔ اس لئے ہمارے لئے ان واقعات میں بہت کچھ پیغام ہے جس سے ہم، آج کے حالات کے تناظر میں بہت کچھ اقدامات کر سکتے ہیں ۔ 

            یہاں اس بات کی جانب اشارہ ضروری ہے کہ کفر کی نفسیات ہی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو خوف و ہراس اور دہشت میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، تاکہ ان کا حوصلہ ٹوٹ جائے اور ان کی ہمتیں پست ہوجائیں ۔ یہ ایک شیطانی چال ہے شیطان اس کام کے لئے اپنے چیلوں کو استعمال کرتا ہے ۔ اس لئے شیطان کے ان چیلوں اور شیطانی کاموں اور چالوں سے ہمیں نربھس نہیں ہونا ہے ۔ 

                            شہری ترمیمی بل کا فتنہ اور سازش بہت منصوبہ بند ہے اور یہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ اکثر ہندوستانی کو اس کی مار جھیلنی پڑے گی یہ الگ بات ہے کہ اس سے صرف مسلمان زیادہ ڈرے سہمے ہوئے ہیں اور برداران وطن کی آنکھیں ابھی مکمل طور پر کھلی نہیں ہیں اور ان کو خطرات کا صحیح اندازہ ابھی پورے طور پر نہیں ہوسکا ہے، تبھی تو ایک بڑی تعداد سکون سے گھروں میں بیٹھی ہے اور ساحل کے تماشائی کا رول اور کردار انجام دے رہی ہے ،ضرورت ہے کہ ہم ان کو انسانیت اور ہمدردی کے ناطے ان خطرات سے واقف کرائیں اور اس خطرناک بل کا ،جو منفی اور خطرناک نتیجہ اور ریزلٹ آئے گا اس سے ان کو واقف کرائیں تاکہ وہ بھی اپنی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اس ظالمانہ قانون کو کچلنے اور ختم کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔   

     اس بارے میں ہمیں ان راستوں کو اپنانا ہوگا جس کو پیارے آقا نے اپنی زندگی میں مسلمانوں اور اسلام کی حفاظت کے لیے اپنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کے خاتمہ کے لئے مکہ مکرمہ میں اس انجمن کی رکنیت اختیار کی، جس کا مقصد سماج سے ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا تھا ،جس انجمن کو حلف الفضول کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ 

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کے خاتمہ قیام عدل اور امن و امان کی برقراری کے لئے غیر مسلم ابنائے وطن کے ساتھ مختلف معاہدے کئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ملک کی صحیح اور نازک صورتحال سے برادران وطن کو ہم واقف کرائیں اور صحیح خطرات سے آگاہ کریں ہم افراد سازی کا کام خاص طور پر اس کے لئے کریں ۔ ڈور ڈور جاکر کر لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کریں اور ان کو باخبر کریں کہ اس بل اور قانون سے ہمارے ساتھ ساتھ آپ کا کتنا نقصان ہے ؟۔ کیسی مشکلوں کا آپ کو بھی سامنا کرنا پڑے گا ؟اور کیسے آپ بہت سے حقوق محروم کردئے جائیں گے؟ ۔

 یہ لڑائی بہت لمبی ہے، اس کے لئے لمبا سنگھرس کرنا پڑے گا ،کیونکہ حکومت وقت کے ارادے عزائم اور منصوبے بہت خطرناک ہیں اس کے لئے چھل بل اور کل سب وہ استعمال کرنے پر اتارو ہیں ۔ اس لئے ہمیں بھی دامے درمے سخنے اور قدمے ہر طرح سے اس کار میں حصہ لینا ہے اور ایک ایک فرد کو بتانا ہے کہ یہ قانون جمہوریت کے خلاف ہے ،ہم سب کو اس کے خلاف آواز اٹھانی ہے ،اور ہر طرح سے اس کا مقابلہ کرنا ہے ،میں نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ آپ اپنی پوری صلاحیت اس کے لئے استعمال کریں ۔ جمہوری انداز میں پروٹسٹ کریں ۔ اور اپنے حقوق کی لڑائی کے لئے میدان میں آجائیں ۔  

    ہمارے ایک دوست *طارق ایوبی صاحب* نے بہرتین تجزیہ کرکے ہمیں یہ مشورہ دیا ہے اور اس کے لئے لمبی لڑائی لڑنے کے تیار رہنے کا اشارہ دیا ہے : 

???? ہم کو بتانا ہے یہ

کہ حکومت کی تانا شاہی اب نہیں چلے گی ، جنرل بپن راوت کو حکومت نے چیف آف ڈیفینس اسٹاف (CDF) کیوں بنایا، جمہوری ملک میں آئین کو نظر انداز کر کے حکومت من مانے فیصلے نہیں کر سکتی، اب تک تینوں فوجوں کے سربراہ الگ ہوا کرتے تھے اور وہ آپس میں صرف صدر جمہوریہ کی اجازت سے گفتگو کر سکتے تھے، صدر جمہوریہ ان کا سربراہ ہوتا تھا، حکومت نے کس ایکشن پلان کے تحت بھارت کی ستر سالہ جمہوری روایت ختم کر دی اور فوج کا رشتہ سیاست سے جوڑ دیا، جی ہاں! اب سی ڈی ایف راوت صاحب صدر کو جواب دہ نہیں ہیں بلکہ وزیر اعظم کو جوابدہ ہیں، اگر اس نکتہ کو آپ سمجھ گئے تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ فوج اب سیاست کے لیے استعمال ہونے والی ہے۔

سوچیے کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت اپنی انانیت کے نفاذ کے لیے فوج کا سہارا لینے والی ہے، ملک بھر میں ہو رہے احتجاج کے دوران سی ڈی ایف کی تقرری کسی بڑے خطرناک منصوبہ کا الارم ہے۔

اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہماری لڑائی بہت لمبی ہے، آئین و جمہوریت کو سخت خطرہ ہے ، اس لیے اب متحدومنظم ہوکر مسلسل احتجاج کرنا ضروری ہو چکا ہے ، رکاوٹیں آئیں گی ، طاقت کا استعمال کیا جائے گا، جان و مال کی قربانی دینی پڑے گی ، لیکن اگر آئندہ نسلوں کو غلامی سے بچانا ہے اور جمہوریت و آئین کو ہوس کے پجاریوں کی ہوس کے بھینٹ چڑھنے سے بچانا ہے تو پوری طاقت سے پورے ملک میں حکومت کی مخالفت کرنا ، عوام کو بیدار کرنا اور ہر حال میں اس تحریک کو جاری رکھنا بے حد ضروری ہے ، یہاں تک کہ فاشزم توبہ کرے اور جمہوریت و آئین کا تحفظ یقینی ہوجائے ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔