*لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے__!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*سی اے اے کے خلاف ملک گیر احتجاج میں عورتوں کا کردار سب سے نمایا ہے، شاہین باغ دہلی سے لیکر کولکتہ کے سرکس پارک تک سینکڑوں شاہین باغ وجود میں آچکے ہیں، جو حقیقی معنوں میں ستیہ گرہ ہے، گاندھی کی بتائی گئی راہ ہے، جمہوریت میں پرامن احتجاج کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے، ان مقامات میں سب سے زیادہ مرکزی حیثیت دہلی کے شاہین باغ کی ہے، وہ قلب ہے، مرکز ہے، وہ چشمہ حیواں ہے جہاں سے مختلف دھارے نکلتے ہیں، پورے ملک نے جن سے ہمت پائی ہے، اس سے پہلے جامعہ ملیہ کی بچیوں نے علم احتجاج بلند کیا اور پھر یہ فکر بن گئی، لوگوں کے گوشت و پوست کا حصہ ہوگئی، خود حکومت بھی خائف ہے، اور اس نے اندرا گاندھی کا زمانہ تاناشاہی دہرانے کی کوشش شروع کردی ہے، آر ایس ایس کے غنڈوں سے کام لیا گیا، پولس کو استعمال کیا گیا؛ لیکن عورتوں کے پایہ استقامت کو ہلا نہ سکے، موسم کی سردی، ہوائیں، بارش نے بھی ان سے ہار مان لی، اور ہر ستم ان پر بے بس ہوگیا.* *چنانچہ اب فکری جنگ شروع ہوگئی ہے، ٹویٹر پر بی جے پی آٹی سیل کے ذریعے پروپیگنڈہ کئے جارہے ہیں، انہیں پانچ سو میں خریدی گئی خواتین کہہ کر بے عزتی کی جارہی ہے، آئے دن دھمکیاں دی جاتی ہیں، ان کے خلاف نیوز چینلز پر بھی مغلظات بکی جاتی ہیں، بعض سڑکوں پر بھی ہوڑڈنگ لگا کر ہندو مسلم کا کھیل کھیلنے کی سازش زوروں پر ہے، اور احتجاج کو صرف مسلمانوں کی حد تک مقید کردینے کی پرزور کوششیں ہورہی ہیں؛ لیکن ان خواتین کو خدا سلامت رکھے__! وہ ہمالیہ بن گئیں ہیں ، ان کے پیر گڑ گئے ہیں، اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ کچھ خطرناک ہونے کو ہے؛ایسے میں اس خطرناکی کی طرف ایک قدم بڑھاتے ہوئے حکومت نے ایک چال چل دی ہے، اس تحریک کو کمزور کرنے کیلئے اس نے قانون کا ہی سہارا لے لیا ہے، چنانچہ وہاں گورنر انل بیجل نے پولس کمشنر کو اس بات کی اجازت دے دی ہے؛ کہ کسی بھی مشکوک شخص کو اٹھالے، اور اسے جیل خانہ میں بند کرے، یہ حکم ١٩/جنوری سے ١٨/اپریل ٢٠٢٠ تک جاری رہے گا، یہ خصوصی اختیار این ایس اے سے موسوم ہے، یعنی نیشل سیکیورٹی ایکٹ___ یہ ١٩٨٠ کی ضمنی دفعہ ٣/ استعمال کی گئی ہے، اس ایکٹ کو ٢٣/ستمبر ١٩٨٠ میں اندرا گاندھی کے دوران حکومت میں بنایا گیا تھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب اندرا گاندھی نے پورے ملک میں ایمرجنسی لاگو کردی تھی، نہ بولنے کی آزادی اور نہ ہی کچھ کرنے کی آزادی؛ بلکہ ہر ایک صورت میں صرف جیل کے در و دیوار ہی استقبال کرتے تھے.* *اس قانون کو ملک کے تحفظ کا نام دیا جاتا ہے، اور یہ بتلایا جاتا ہے کہ اس سے سیکورٹی مضبوط کرنے میں مدد ملے گی؛ لیکن ہمیں اندازہ ہے کہ یہ حکومت کی ایک خطرناک کوشش ہے، جس کی زد میں معصوم عوام کو کچل دینا ہے، ان کے احتجاج کو برباد کردینا ہے، کسی بھی طرح عوام کو روکنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ ہمت توڑنا چاہتے ہیں، وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ملک میں جو بھی ہوگا وہ صرف اور صرف حکومت کی مرکزیت سے ہوگا، انہیں کے اشاروں پر ہوگا، صرف وہی سیاہ و سپید کا فیصلہ کریں گے، حتی کہ سیکولرازم کی تشریح بھی انہیں کے مطابق ہوگی، وہ جسے کہہ دیں قانون وہ قانون کہلائے گا، اور جسے ملک کیلئے خطرہ بتلا دیں وہ دہشتگرد ہوجائے گا، لہذا اب ممکن ہے کہ ظلم ایک دور چلے گا، پولس اپنے زور کا پھر سے استعمال کرے گی، عورتوں کے ساتھ زیادتی ہوگی، سردی میں انہیں بے یار ومددگار کرنے اور انہیں گھر واپس بھیجنے کی انتھک کوشش ہوگی؛ لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ اب ملک کا جمہوریت پسند سرفروشی کی تمنا پال چکا ہے.* *اب پولس کتنا ہی زور دکھائے، ظالمانہ قانون کا سہارا لے، مگر وہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا، وہ انسانوں کے جذبات کو روک نہیں سکتے، ان کے دل کے پھپھولوں کا علاج نہیں کرسکتے، اگر حکومت ڈھیٹ ہوگئی ہے اور اس نے یہ ڈھان لیا ہے؛ کہ اس مسئلے پر ایک انچ بھی نہیں ہٹے گی، تو وہ جان لیں کہ ہم بھی ایک ایک انچ بڑھتے جائیں گے، اور خود حکومت تک پہوچ جائیں گے، انہوں نے پورے ملک کو اور خاص طور سے دہلی کو مشکوک بنا دیا ہے، انہوں نے عوام کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر غلط قانون کا سہارا لیا ہے، اگر وہ اندرا گاندھی کا دور دہرانا چاہتے ہیں تو دہرائیں؛ لیکن وہ یہ بھی نہ بھولیں کہ اندرا گاندھی کے ساتھ کیا انجام ہوا تھا، انہوں نے ملک کی ترقی اور سالمیت کے نام پر ایمرجنسی لگائی، اور خوب تالیاں پیٹتی رہیں، مگر اگلا انتخاب ہی بری طرح سے ہار گئیں، اور ایک دور ایسا آگیا تھا کہ ان کیلئے کوئی راہ نہ بچی، خاندان بکھر گیا، لوگ منتشر ہوگئے، اور تمام اعلی سیاست دانوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، بی جے پی کا حشر کیا ہوگا؟ وہ تو وقت ہی بہتر بتائے گا؛ لیکن اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ انہیں یہ غلط روش کس انجام پر لے جائے گی_؟ وہ عوام سے ٹکرا گئے ہیں اب عوام ان سے ٹکرائے گی اور جمہوریت کا جھنڈا پھر سے بلند کرے گی ___ فیض نے ایسے ہی لوگوں کیلئے کہا گھا:* جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 20/01/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔