کتنی عظیم دولت ہے'، اس کا اندازہ کیسے اور کیوں کر لگایا جائے، یہاں جذبات خشک ہوجاتے ہیں، اس لفظ کی تشریح سے زبان بھی عاجز ہے'،قلم بھی مجبور ہے'،بس اس عظیم سرمایہ سے صحیح واقفیت وہی سمندر دے سکتاہے جو محسن انسانیت کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے اس فرمان،،جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے'،، میں پوشیدہ ہے، کہتے ہیں دنیا کے تمام رشتوں میں کہیں نہ کہیں غرض کی چنگاری چھپی ہوتی ہے۔ صرف ماں کا ایک بے لوث رشتہ ہے'،جس کی فضاؤں میں اغراض کی گنجائش نہیں ہے، سخت موسلادھار بارش میں دن بھر کا تھکا ماندہ ایک مزدور جب بھیگے بدن کے ساتھ داخل ہوتا ہے تو شریک حیات تنبیہ کرتی ہے،،چھتری کیسے بھول گئے،بہن کہتی ہے رین کوٹ لے لینا چاہیے تھا، مگر ایسے موقع صرف ماں ہوتی ہے جو بیٹے پر الزام نہ دے کر بدلیوں کو ملزم ٹھہراتی ہے'،اور کہتی ہے'کہ،، آسمان کے بادلو تم سے اتنا کیوں نہ ہوسکا کہ تھوڑی دیر ٹھہر جاتے کہ میرا بچہ بھیگنے سے بچ جاتا۔۔۔ آج جب عزیز صاحب کی تحریر پڑھا پڑھتا جلا گیا ماں کی عظمت و محبت کی کہکشاں اس طرح سامنے آئی، اس محبتوں کے سمندر کی لہریں اس طرح مچلتی ہوئی نظر آئی کہ آنکھوں کو بارشوں کا موسم عطا کرگئی،
ماں کے جذبات سے ہر ایک کا واسطہ پڑتا ہے' اس کی محبت کے دریائے فرات سے ہر وجود سرشار ہوتاہے مگر اس کی ترسیل وانتقال پر قدرت ہر ایک کا حصہ نہیں ہے'، بلاشبہ عزیز صاحب نے بڑی سلیقہ مندی سے ان جذبات کو لفظوں کا پیرہن عطا کیا ہے'،اور اس اسلوب میں ان کا اظہار کیا ہے'کہ لفظ لفظ کو قوت گویائی میسر ہوگئی ہے
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔