*کمر توڑ مہنگائی اور گمشدہ قوم__* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*مہنگائی آسمان چھورہی یے، پیاز آنسو نکال رہے رہیں، کئی صوبوں میں پیاز کی قیمت سو سے زائد ہے، خشک آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہیں، سبزیاں اور پھل بھی اپنی اپنی اکڑ میں ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جنہیں انسانوں کیلئے بنایا گیا تھا؛ اب وہ سجانے کیلئے ہوگئے ہیں، ٹماٹر کی خوبصورتی پر صرف نگاہ ہی رہ جاتی ہے، لیکن اس تک ہاتھ پہونچانا مشکل ہے، بازار جانے والا ہر شخص یوں لوٹ کر آتا ہے؛ جیسے کسی میت سے ہو کر آیا ہے، اب بس فاتحہ پڑھنا چاہتا ہے، گھر میں داخل ہوتے ہی مرثیہ خوانی شروع ہوجاتی ہے، ایک ایک سبزی نکالتے جائیے اور حکومت کو تو کبھی اپنی قسمت کو لعن طعن کرتے جائیے، یہ حال ان لوگوں کا ہے جو کھانے کیلئے کچھ کرتے ہیں؛ لیکن جنہیں کچھ کرنا بھی نصیب نہ ہو تو وہ اپنی قسمت کا رونا ہی رو رہے ہیں، گھروں میں عموما سبزی کے نام پر بس ایک کوئی ہری سبزی بن جاتی ہے اور سبھی روٹی کبھی چٹنی کے ساتھ یا صرف چٹخارہ بھر کے کھائے جاتے ہیں، غرباء و فقراء اگر بھیک بھی مانگیں تو کس سے_؟ اعلی طبقہ جو مالدار ہے انہیں فرصت نہیں کہ اپنے سے نیچے بھی دیکھیں_ ویسے بھی زیادہ بلند عمارت سے نیچے کچھ دکھتا بھی نہیں ہے_متوسط گروہ اپنے ہی مسائل میں یوں الجھ گیا ہے؛ کہ سلجھنے کو تیار نہیں، خود کیلئے دو _دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گیے ہیں، جتنی کمائی نہیں اس سے زیادہ خرچ ہے، جیب بھرتی کم ہے اور خالی زیادہ ہوتی ہے، اپنی ضروریات ہی ایسی ہیں کہ اب کسی اور کے بارے میں سوچنا محال ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، شکم پروری تو پہلے سے ہی تھی اب شکم پرستی کی نوبت ہے، عمدہ اخلاق بھی جواب دے جاتے ہیں اور بہترین شخصیات بھی ماتھا پکڑ کر بیٹھے نظر آتے ہیں۔* *اس مہنگائی نے کمر توڑ دی یے، ہر شہری پریشان ہے؛ لیکن حکومت کی ملع سازیاں ایسی ہیں کہ غلاظت بھی سونا نظر آئے، ایسا لگتا ہے کہ گھوڑے کے منہ پر وہ مکھوٹا لگادیا دیا گیا ہے، جو صرف ایک ہی سمت دیکھتا ہے، عموما پوری قوم اسی مکھوٹے میں قید ہے، مستقبل کی پلاننگ ہیں، آئندہ یہ ہوجائے گا اور وہ ہوجائے گا__ کے نعرے گونجتے ہی رہتے ہیں؛ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر اج کچھ نہ ہوا تو کل جو کچھ بھی ہو اسے دیکھنے کیلئے آپ نہ ہوں گے_! حکومت اس نازک موڑ پر بھی اپنی ہندو احیائیت کا کارڈ کھیل رہی ہے، فاشزم زوروں پر ہے، ہندو راشٹر کا فقرہ گنگائے جارہی ہے، سوجھ بوجھ اور عقل پر جیسے پردہ پڑ چکا ہے، فکریں جواب دے گئیں ہیں، خبر یہ بھی ہے کہ خود حکومت نے کئی ٹن پیاز ضائع کردئے، غلوں کو باہری ممالک میں بھیجنے کی تیاری ہے، کئی غریب ملکوں کو رفاہی طور پر اناج پہونچانے کی تمنا ہے، ماہرین معیشت مستقل خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، ملک کی جی ڈی پی ساڑھے چار پوائنٹ پر آگئی ہے، یعنی ملک کی ترقی اب سست ترین ہوگئی ہے، عالمی طاقت بننے کا خواب چکنا چور ہونے کو ہے، پانچ ٹریلین معیشت کی ہوا نکل رہی ہے؛ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ پوری قوم سورہی ہے، اپنی آنکھوں پر بھکتی کی پٹی باندھے ہوئی ہے، سناٹا پسرا ہوا ہے، اور ایک خواب و خیال میں گم ہو کر آج کو برباد کئے جارہی ہے، اور ساتھ ہی آئندہ نسل کیلئے بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے_ جاگئے اور اپنے حق کیلئے آواز بلند کیجئے__! کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر اور بہت دیر ہوجائے_!!* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 05/12/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔