*ہندوستان عجیب و غریب دو راہے پر کھڑا ہوا ہے، ایک حکومت ہے جسے اپنی طاقت کا غرور پیدا ہوگیا ہے، وہ اپنے سامنے کسی اور طاقت کو خاطر میں بھی نہیں لاتی، اس نے تو اپوزیشن کو کسی لائق چھوڑا نہیں، اور دوسرے سارے بڑے سیاست دانوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے، اکثر و بیشتر اسی کے اشارے پر چلنے والے اور حکومت کی آسائشوں سے لطف اندوز ہونے والے ہیں؛ لیکن ہوا کا رخ کچھ اور ہی ہے، وقت بدلتا ہوا نظر آتا ہے، زمین کی نمی کچھ اور ہی کہتی ہے، فضا میں گونجتی آوازیں انقلابی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مختلف صوبوں سے انتخابات میں شکست کھانے کے بعد اور خود اپنی بیوقوفی بھرے اقدامات کے بعد حکومت دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے، جگہ جگہ پر اپنی صفائی پیش کر رہی ہے، اپنے اصول و ضوابط بتلا رہی ہے. دراصل اس نے سی اے اے جیسا کالا قانون پیش کرکے اپنے ہی قدموں پر کلہاڑی مار لی ہے، اس نے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے تمام صبر پسند اور امن پسند ہندوستانی کو بھڑکا دیا ہے، انہوں نے یہ قانون سب سے پرے جاتے ہوئے بنایا ہے، صرف سیاسی طاقت کا استعمال کرکے اور عوامی و آئینی روح کو مار کر اقدام کیا ہے، یہاں تک کہ تمام صوبائی حکومتوں اور ملک کے اعلی دماغوں کو کنارہ کرتے ہوئے بنایا ہے.*
*انہوں نے سوچا کہ ہمارے پاس ٣٠٣ سیٹوں کی طاقت ہے، پارلیمنٹ میں اکثریت پالینا ہی سب کچھ ہے، اب ان سے کوئی سوال نہ کرے گا، کسی کے پاس ہمت نہ ہوگی؛ کہ ان کے قانون کورد کرے، ان کے سامنے کھڑا ہوسکے، ہمیشہ کی طرح سبھی خاموش رہیں گے، زعفرانی رنگ اور دیش بھکتی کی لاٹھی کافی ہوجائے گی؛ لیکن وہ لوگ غلط ثابت ہوئے، ملک کا ہر شخص کھڑا ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ کمزور اپوزیشن بھی ہے، ان میں بھی صوبائی حکومتوں نے قانونی اور ودھان سبھا کی طاقت کے ساتھ جنگ کی شروعات کردی ہے، ایک طرف سپریم کورٹ میں اس قانون کو چیلینج کردیا ہے، تو دوسری طرف انہوں نے عوامی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے، اپنے اپنے صوبوں میں اس کے خلاف پیش قدمی کردی ہے، سب سے پہلے اس محاذ پر مورچہ کھولنے والے کیرلا کے وزیر اعلیٰ ہیں، کیرلا ویسے بھی سب سے زیادہ سنجیدہ اور سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ملک ہے، انہوں نے آئین پر ہوتے ہوئے حملے کو سب سے پہلے بھانپ لیا، اور سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا؛ نیز اپنے ودھان سبھا میں اس کے خلاف قانون بھی پاس کردیا، بلکہ انہوں نے اس بات کی بھی تائید کی ہے کہ ان کے اسٹیٹ میں این آر سی لاگو نہ کہ جائے گی، تو وہیں این پی آر کے مشکوک ہونے کے بعد اسے فورا بند کروایا دیا تھا، اور اسے بھی دیس مخالف بتاجر سب کو حیران کردیا تھا.*
*کیرلا جیسے بیدار مغز صوبہ سے یہی امید تھی، ان کی بیداری کی ہی بات ہے کہ آج تک وہاں بی جے پی اپنے پیر نہ پسار پائی، اسی طرح ان کے ساتھ ساتھ پنجاب کی گورنمنٹ نے بھی سی اے اے کے خلاف باقاعدہ قانون پاس کیا ہے، انہوں نے اسے رد کردیا ہے، اس کے بعد راجستھان کے گہلوت سرکار نے بھی اسے بے کار کردیا، اور ودھان سبھا میں قانون لا کر مرکزی حکومت کی نیند اڑا دی، ایسے میں ممتا بنرجی کیسے پیچھے رہ سکتی تھیں، حالانکہ ان سے امید یہ کی جاتی تھی کہ وہی سب سے پہلے اس میں پیش قدمی کریں گی، لیکن کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی، یونہی کوئی تاخیر نہیں کرتا؛ لیکن کم سے کم بیوفائی تو نہیں کی، ممتا بنرجی نے بھی اپنے صوبہ میں اسے لاگو کرنے سے انکار کردیا، وہاں این پی آر پر بھی کام بند ہے، آج مدھیہ پردیش نے بھی یہی کام انجام دیا ہے، اس کے بعد مختلف ریاستیں بالخصوص نارتھ ایسٹ اور وہاں کے اہم صوبوں سے یہی امید کی جارہی ہے.*
*غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت شہریت کے مسئلے کو مرکز کا معاملہ قرار دیتی ہے اور یہ کہتی ہے؛ کہ اس قانون کو رد کرنے کا حق انہیں نہیں ہے، لیکن صوبائی حکومتوں نے صاف کردیا ہے کہ عوام ہی اصل ہے، جب عوام نے اس قانون کو نکار کردیا ہے تو پھر اسے رائج کرنے کا کوئی لاجک نہیں ہے، وہیں ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس قانون کو بناتے ہوئے ان سے کوئی مشورہ نہ کیا گیا، جو ان کا حق تھا، ایسے میں وہ اپنے صوبے کی خیر کے بارے میں سوچیں گے. یہ ایک ایسی ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، جس سے بہت سے خدشات پیدا ہونے لگے ہیں، اس سے پہلے اس ملک میں ایسی کیفیت کبھی پیدا نہ ہوئی، اندرا گاندھی کے دور کو کچھ مماثلت ضرور ہے؛ لیکن یہ عالم کہ ملک کے مختلف حصے مرکز سے بغاوت کریں اور عوام بھی ان کے ساتھ ہوجائے، یہ کیفیت انوکھی بھی ہے، اور ڈراؤنی بھی ہے، اگر اس معاملہ کو سلجھایا نہ گیا، تو خطرہ ہے کہ مرکز کی فرعونیت اسے لے ڈوبے، عوام پس جائیں اور سکون وچین ہوا ہوجائے، اور ایک cold War کی طرف بڑھتے ہوئے مختلف صوبوں اور مرکز میں کھٹاس آجائے اور وہ سب کچھ ہو جس سے آج گلف ممالک جوجھ رہے ہیں.*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
05/02/2020