معاشرے میں بڑھتی ہوئی فیشن پرستی اور والدین کی ذمہ داری

از: عبدالواحد مظفر نگری

آج عورتیں غیر محرم مردوں کے لئے تو بڑی سجتی سنورتی اور فیشن اختیار کرتی ہیں، کیا کبھی اپنے اس کریم آقا کے بارے میں بھی سوچا ہے؟ جس نے تمہیں پیدا کیا اور یہ سب چیزیں عطاء کی ہے، "جسے تم استعمال کرکے مردوں کا دل لبھاتی ہیں اور ان کی خواہشات نفسانی کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہیں" کہ پندرہ بیس منٹ اس رب کے لیے بھی نکال لیں، اس کی عبادت کریں اس کے سامنے روئیں، گڑگڑائیں، اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں، اس کے احکامات کی پابندی کریں، پیارے نبی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی پاسداری کریں۔ اپنا کوئی جوڑا کسی غریب کو دے دیں، میک اپ کے سامان کے پیسوں سے کسی غریب کی مدد کر دیں! کبھی اس طرف تمہاری عقل گئی ہے؟ کبھی تمہاری سمجھدانی میں یہ بات اتری ہے؟ ہر گز نہیں! بس تمہیں فیشن پرستی کا شعور ہے، تمہارے ذہنوں میں یہ بات پیوست کردی گئی ہے کہ اس دنیا کے اندر سب کچھ یہی کپڑے، جوتی، سینڈل، میک اپ کا سامان اور فیشن پرستی ہے، انہیں کے ذریعہ ہم ترقی کرسکتی ہیں، انہیں کے ذریعہ ہم اچھے اچھے مرد کو اپنا شکار بنا سکتی ہیں۔ آخرت سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں ہے، نہ تمہیں یہ معلوم ہے کہ ہمیں کس طرح کا لباس پہننا چاہئے کس طرح بناؤ سنگھار کرنا چاہئے اور کس کے لئے کرنا چاہئے۔ تمہارے اندر حرص کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے، فلاں کو دیکھا کہ وہ اس طرح کا لباس پہن رہی ہے تو مجھے بھی یہی لینا ہے، ماں باپ سے کہتی ہے کہ مجھے بھی فلاں بے حیا اور بے شرم عورت کا لباس دلوایا جائے، مجھے بھی بے غیرت اور زانیہ کے کپڑے دلوائے جائیں۔ مجھے بھی ان کپڑوں کو پہن کر بے حیا اور بے شرم عورت کا کردار ادا کرنا ہے، اور بیچارے بے غیرت اور بے شرم والدین بھی اپنی اولاد کی باتوں پر عمل کرنے سے قطعی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ پورے شوق کے ساتھ حیا اور شرم کا جنازہ نکال دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ بچی ہی تو ہے 14 15 سال کی لڑکی ان کی نظر میں بچی ہوتی ہے، کس نے ان لوگوں کی عقل کو بیچ کر کھالیا ہے؟ ان کی سمجھداری کہاں تیل لینے چلی گئی؟ لڑکیوں کو لڑکوں کے شانہ بشانہ ترقی کرنے کی خواہش بے قرار رکھتی ہے۔ وہ ہر کام میں مردوں کی نقالی کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی نسوانیت کھوتی جارہی ہیں ۔ اسی طرح لڑکے لڑکیوں میں مقبول ہونے کے لئے ان کے نظریات کو پسند کرنے لگتے ہیں ۔ ان کے انداز گفتگو، ان کے فکرونظر میں مردانہ وجاہت باقی نہیں رہتی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ دونوں اپنے اپنے فطری مقام سے گرگئے۔ بقول شاعر ؂

چلنا تھا جس کو دین کی پاکیزہ راہ پر وہ قوم بے حیائی کے رستے پر چل پڑی

فیشن کا خاصہ ہے کہ وہ انسانی رویوں کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ اب تو اس فیشن کی وجہ سے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ لڑکیاں جینس، ٹی شرٹ میں ملبوس مکمل لڑکوں والا حلیہ بنائے خود پر فخر محسوس کرتی ہیں تو لڑکے ہاتھوں میں کنگن ڈالے، بالوں کی پونی بنائے، کانوں میں بالیاں سجائے صنف نازک کو مات دیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جبکہ آپؐ نے فرمایا: ’’لعنت ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر بھی جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ‘‘ (بخاری)

مردوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی ہے کہ فرد اور سماج کی تشکیل میں عورتوں کو اس کا صحیح مقام نہیں دیا، اس لئے سماج میں اس کا مقام اب بھی زیر غور ہے۔ پہلے عورت کو ایک قابل احترام شئے مان کر اسے کسی مذہبی آثار کی طرح درونِ خانہ رکھ دیاگیا تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہو، پھر خیال آیا کہ اسے اس قدر مجبور نہ بنانا چاہئے، اسے بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے لذت آشنا ہونے کا موقع دیا جائے۔ اس لئے اسے اس قدر آزادی دے دی گئی کہ وہ گھر سے نکل کر بازاروں میں جا بیٹھی اور مردوں کی عیش پرستی بہترین ذریعہ بن گئی۔ مردوں کی اس لذت آشنائی نے انھیں اس قدر اندھا کر دیا کہ قدیم یونان و روم میں طوائفوں اور بازاری عورتوں کے ہاتھوں میں تہذیب و تمدن کی عنان دے دی گئی اور انھیں زندگی کے اعلیٰ منصب پر فائز کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تہذیب و تمدن کی دھجیاں اُڑ گئیں اور ان کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ یاد رکھنا چاہئے! کہ اس سلسلے میں سب سے بڑے مجرم ماں باپ ہے جو اپنی بیٹیوں کو اس طرح کے کپڑے پہنا کر بے حیا اور بے شرم عورتوں کی فہرست میں شامل کر رہے ہیں۔ نہ انہیں یہ پرواہ ہے کہ ہم کو اپنی بیٹی کے لئے کس طرح کا لباس اختیار کرنا چاہئے اور نہ انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ہماری بیٹی کا اس طرح کا لباس پہننے کی وجہ سے ہماری عزت مٹی مل سکتی ہے۔ بس اولاد کی باتوں پر کان دھر کر انہیں جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں۔ اب تو سمجھ نہیں رہے ہیں، پھر اگر کسی کی بیٹی کے ساتھ کچھ ہوجاتا ہے تو دوسروں کے سامنے روتے گڑگڑاتے پھرتے ہیں اور انصاف کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ مسلمانوں! باز آ جاؤ ورنہ قیامت کے دن بھی یہی اولاد جن پر آج تم جان نچھاور کر رہے ہو خدا کے سامنے تمہارا گریبان پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لائے گی اور کہے گی اے ہمارے پرودگار یہی ہیں وہ جنہوں نے ہماری عاقبت خراب کی تھی، اور ہمیں جہنم کا ایندھن بننے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا (68) اے ہمارے رب تو ان کو دو گنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت فرما۔ اس لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کو فیشن کے دلدل سے نکالنے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔ان کے سامنے فیشن پرستی کے نقصانات کا ذکر کیا جائے ، سنت نبویؐ پر عمل کرنے کا ثواب اور اس کے مثبت اثرات سے انھیں واقف کرایا جائے۔ فضول خرچی اور اسراف کے سلسلے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی بیان کردہ وعیدیں سنائی جائیں ۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو خود ہی غور کرنا چاہئے کہ اگر وہ اسی طرح گناہوں کے دلدل میں خوار ہوتے رہے اور گناہوں کا انبار لے کر اندھیری قبر میں اتر گئے تو یاد رکھئے شدید ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ خواتین بھی فیشن کی ریس میں آگے نکلنے کے بجائے خود بھی بچیں اور اپنی ساتھی خواتین کو بھی بچائیں ۔ رشک کرنے کی چیز لباس اور زیور نہیں بلکہ اخلاق اور اعمال صالح ہیں اور خراب نہ ہونے والی سب سے چمکدار اور معطر چیز اخلاق و اعمال ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ تہذیبوں کا تصادم ہے اس میں مسلم خواتین کو اپنا تاریخی فرض ادا کرنا ہوگا۔ اس کے لئے محنتیں ،مشقتیں ، اوقات، مال اور جانیں لگانی ہونگی، اس کے لئے ہمیں راستہ ہموار کرنا ہوگا۔ بقول شاعر ؂

نہ آئے گی ، نہ آئے گی نظر صورت ترقی کی نہ ہونگے ہم جو میدان عمل میں رونما بہنو!

اللہ رب العزت ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ﴿آمین﴾

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔