*آر ایس ایس کی سوچ و فکر اور ان کے قیام کا پس منظر دیکھنے کے بعد یہ کہنا اور سمجھنا مشکل ہے؛ کہ آر ایس ایس کا اعلی ذمہ دار بھی آئیں میں یقین رکھتا ہے، جس آر ایس ایس نے ستر سالوں سے ناگپور ہیڈکواٹر پر سہ رنگی جھنڈا تک نہیں لہرایا، یوم. جمہوریت کی. کوئی وقعت نہ رکھی، یوم آزادی کا جشن نہ منایا، ان سے بھلا ایسی امید بھی کیسے کی جا سکتی ہے__؟ لیکن موجودہ دور میں ایسا ہوا ہے، NAR. CAA. NPR کے چکر میں ملک کی عوام سڑکوں پر ہے اور انقلاب کی آہٹ ہے، اس آہٹ کی گونج آر ایس ایس کے برسراعلی اور چیف موہن بھاگوت کے بیان میں بھی دیکھی گئی ہے، انہوں نے ایک عام مجمع میں بیان دیتے ہوئے کہا: جب ہم یہ کہتے ہیں کہ گھر واپسی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے؛ کہ سبھی ہندو بن جائیں، بلکہ وہ اپنے دھرم پر رہتے ہوئے ملک میں رہ سکتے ہیں، ظاہر ہے اس دیس کا ایک آئین ہے اور یہ دیس آیین سے چلتا ہے، آر ایس ایس بھی آئین میں یقین رکھتی ہے____ آر ایس ایس کے انہی صاحب نے کچھ دنوں پہلے دو بچوں کی تھیوری پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا تھا.**یہ اصل میں پورے ہندوستان کو نشانے پر لے لیا تھا، اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اب دیس میں یہ قانون لایا جائے گا کہ بچے دو ہی اچھے__ تو وہیں ایک بیان میں بڑی شدت کے ساتھ کہہ چکے ہیں؛ کہ سی اے اے اور این آر سی ہر گز واپس نہ لیا جائے گا، ان بیانات کے بعد آئین میں یقین رکھنے کی بات قابل یقین کیسے ہو سکتی ہے__؟ آر ایس ایس کے مینو فیسٹو میں یہ بات طے ہے کہ ہندوستان کو منوسمرتی کے دور میں لیکر جانا ہے، برہمن واد اور طبقہ واریت کو رواج دینا ہے، بی جے پی جس منشاء کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے وہ بھی تو انہیں کا ایجنڈا ہے، جن سنگھ پارٹی ٹوٹ کر اگر بی جے پی کا نام اختیار کرلیتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے مقاصد بدل جائیں گے، سبھی جانتے ہیں کہ سنگھ نے امبیڈکر کے لائے گئے آئیں پر سجت اعتراض ظاہر کیا تھا، اور انہیں نے متعدد مجلات میں اس کے جلاف قلم کھول دیا تھا، یہ بات اگرچہ بہت زیادہ نہ سنی گئی؛ کیونکہ یہ اس وقت کمزور تھے، خاص طور سے ناتھورام گوڈسے وغیرہ نے ان کام نام خراب کردیا تھا، وے گاندھی جی کے مجرم تھے، ایسے میں ہر عام و خاص ان سے دوری بنائے رکھنے میں ہی خیر سمجھتا تھا، اور پھر سردار پٹیل نے ان پر پابندی کی درخواست لگا دی تھی، اور ان کے خلاف ملک گیر نفرت کاماحول بن چکا تھا؛ لیکن اپنے ذاتی اداروں سے شائع شدہ آرٹیکلس میں اپنی بھڑاس ضرور نکالتے تھے.**ویسے بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ آئین کو پس پشت ہی رکھتے ہیں، یہ ہر ہندوستانی کو ہندو جبکہ آئین یہاں کے ہر باشندے کو بھارتی گردانتا ہے، اسی لئے انہوں نے سب بڑا حملہ آئین پر کیا اور اب کہتے ہیں کہ ہم آیین کو مانتے ہیں، اور موجودہ دور کا متنازع قانون سی اے اے ایک ایسا قانون ہے جو ملک اور آئین کی روح کو مارتا ہے، دفعہ ١٤/ کی سخت خلاف ورزی کرتا ہے، جس کے اعتبار سے مذہب کو بنیاد بنانا درست نہیں ہے، یہاں ہر ایک کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جائے گا، ویسے بھی ہندوستان ہمیشہ مذہب مکت ملک رہا ہے، یہاں پر آنے جانے کی کوئی پابندی نہیں رہی ہے؛ لیکن انہوں نے کھلے طور پر دفعہ ١٤/ کی مخالفت کی ہے، بلکہ اسے درست ٹھہراتے ہوئے حیلہ فاسدہ سے کام. لیا ہے، نیز جب عوام ان کے خلاف اتر آئی تو ہر روز ایک نیے زاویے سے گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے، جب آئین یہ کہتا ہے کہ ملک عوام کیلئے ہے اور انہیں کے مطابق فیصلہ ہونا ہے، تو پھر کیوں عوام کی بات ٹھکرائی جارہی ہے، کیوں انہیں سڑکوں پر جمع ہونے اور گھر بار چھوڑ نے پر مجبور کیا جارہا ہے، انہی سے ووٹ لیکر انہی کے ساتھ غداری کیوں کہ جارہی ہے؟**ایسی نازک کیفیت میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کھلے لفظوں میں یہ کہہ دیا کہ سی اے اے واپس نہ لیا جائے گا، خواہ کچھ بھی ہوجائے، اس "کچھ بھی ہوجائے" کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ ملک کسی ایک کا ہے؟ یہاں پھر آئین کا کے کیا معنی ہیں؟ اب تک پچاس سے زائد موتیں ہوچکی ہیں، پولس اور عوام میں ٹھن گئی ہے، ساتھ ہی حکومت کے تئیں نفرت پیدا ہوگی ہے، لوگوں کا سپریم کورٹ سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آئین سے دور ہوتے جارہے ہیں، ایسے میں پہلی دفعہ حکومت کو آئین یاد دلانے کی نوبت آگئی ہے، جہاں جہاں احتجاج ہورہے ہیں وہاں پر دستور کی کاپیاں تقسیم کی جاتی ہیں، چنندہ اقتباسات پڑھے جاتے ہیں، اور حقوق و آیین کی بات کی جاتی ہے، اس کشمکش میں آر ایس ایس کا یہ کہنا کہ وہ آئین کو مانتی ہے یا تو یہ مزاق ہے یا پھر یہ عوامی احتجاج کا دباؤ ہے، چنانچہ موہن بھاگوت بھی اس بات پر مجبور ہوئے ہیں؛ کہ عوام. کے سامنے نرم لہجہ اور عمومی بات کی جائے، انہیں آئین کا جھانسہ دیکر اپنا کام کیا جائے؛ لیکن وہ بھی جان لیں کہ اب عوام بیوقوف بننے والی نہیں ہے، وہ تمام مقاصد کو سمجھتی ہے، اب آئین رہے گا یا پھر آئین کے دشمن رہیں گے!!!*