*مسلمانوں کے ساتھ انتقامی سیاست_*
*ہندوستان پر اسلام اور مسلمانوں کے گہرے نقوش ہیں، حکومت و سیادت سے لیکر معاشرتی زندگی تک ہر ایک ناحیہ میں اسلامی مزاج کہیں نہ کہیں پایا جاتا ہے، تقریبا آٹھ سو سالہ اسلام پسند حکمرانوں کی حکمرانی والا یہ ملک ایک خاص اعزاز رکھتا ہے؛ لیکن یہ ماننے میں کوئی دشواری نہیں کہ بادشاہت اور سیاست کا میدان اپنے اور پرائے کا ہی خون بہاتا ہے، ناانصافیاں بھی ہوتی ہیں، اور انصاف بھی ہوتے ہیں، جب ایک فکر طاقت ور ہو اور دوسرا کمزور ہوجائے تو یقینا مد مقابل متاثر ہوتا ہے، مگر جب ہندوستان نے سامراجی طاقتوں سے آزادی حاصل کی، رام اور رحیم کے ماننے والوں نے ایک ساتھ ملکر ملک کی تقدیر سنوارتے ہوئے اسے ایک خوبصورت جمہوری ملک بنایا، اور یہ قرار پایا کہ یہاں کی ہر ایک آبادی برابر کا حق رکھے گی، شہری حقوق میں کوئی امتیاز نہ ہوگا، بنیادی ضروریات میں کوئی تفریق نہ ہوگی، حق رائے دہندگی ہر ایک کو حاصل ہوگی، مذہب اور ذات پات کے نام پر کوئی سمجھوتہ نہ ہوگا، طبقہ واریت کی کوئی گنجائش نہ ہوگی، عوام اب حقدار ہوں گے، وہ کسی راجا کے غلام یا سامراج کے پیادے نہ ہوں گے۔* مگر حقیقت یہ ہے کہ ان سب باتوں پر سیاست کرنے والوں نے پانی پھیر دیا، ابتدائی زمانوں میں پوشیدگی کے ساتھ اور اب کھلے عام بالخصوص بی جے پی کی جماعت نے ان بنیادی اصولوں کو چوٹ پہونچانا اپنا فریضہ مان لیا ہے، تین طلاق، بابری مسجد کا فیصلہ، اور اب کیب کی بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ صرف ایک گروہ کو ٹارگیٹ کیا جائے اور انہیں حاشیہ پر لا کر سیاسی انتقام لیا جائے، وشوہندو پریشد_ آر، ایس، ایس اور رواں حکومت کے نامور سیادت دانوں نے متعدد بار ایسے بیانات دئے ہیں اور مسلسل دئے جاریے ہیں، جن سے صاف اندازہ ہوتا ہے؛ کہ وے اسلام اور مسلمانوں سے خار کھائے بیٹھے ہیں، تقسیم ہند کا قصور وار مانتے ہیں، ملک کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دینے کا مجرم سمجھتے ہیں، پارٹیشن کے وقت ہوئی افرا تفری اور قتل و غارت گری کا الزام رکھتے ہیں، ذرا غور کیجئے_! آخر کیا بات ہے کہ مسلمان حکمرانوں کو ہمیشہ غلط ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے، فلمی دنیا ہمیشہ ایسے ایسے موضوعات کو کیوں منتخب کرتی ہے جنہوں نے مسلمان حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہو، حتی کہ اگر انہوں نے غداری بھی کی ہو اور مسلمانوں کے پشت پر حمل کیا ہو تب بھی اسے ہیرو بناکر کیوں پیش کرتے ہیں_؟ *پانی سر سے اوپر ہوگیا ہے، چنانچہ سیاست کے گلیاروں سے جو دھواں اٹھا تھا، وہ اب عوام تک پہونچ گیا ہے، رواداری اور محبت کی روح ختم ہوتی جاتی ہے، بلکہ کہنا تو یہ چاہئے کہ اس انتقامی جذبہ کو قانونی حیثیت دینے کی جد وجہد جاری ہے، آئین کے ساتھ چھیر چھاڑ اور موب لنچنگ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں، یہاں تک کہ عدالت عظمی اور آئین ساز کمیٹیاں اور اسمبلیاں بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں، ایوان بالا یا سفلی کی کارروائیوں پر غور کیجئے_ ایک خاص سوچ اور رنگ کا انداز ملاحظہ کیجئے_ بی جے پی چیف امت شاہ کا انداز دیکھئے_ وہ حزب مخالف کو گلی کے غنڈے اور بدمعاش کی طرح پکارتے ہیں، آنکھیں دکھاتے ہیں، تیور بتاتے ہیں، زبردستی کرتے ہیں، آج ٩/١٢/٢٠١٩ ہی کی کارروائی پر نگاہ ڈالئے، سٹیزن شپ امینڈمنٹ بل کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے تمام پارٹیوں کو دھکمی بھرے انداز میں مخاطب کیا، "_سننا ہوگا، مت جائیے، او سنو_ ہماری اکثریت ہے_" جیسے فقرے استعمال کئے، پورے ایوان میں صرف بیاسی لوگوں کو چھوڑ کر سبھی نے تائید کی کہ غیر ملکی مسلمانوں کو ہندوستانی شہریت نہ دی جائے، یہ بل پاس کردیا گیا؛ لیکن ابھی راجیہ سبھا کا مرحلہ ہے، سپریم کورٹ کے دروازے کھلے ہیں، ممکن ہے کہ وہ سب بھی اسی فیصلہ کو قائم رکھیں، اور مسلمان انتقامی سیاست کا شکار ہوکر ڈیٹینشن کیمپ میں جہنم کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے_ اٹھئے اس سے قبل کہ یہ انتقام کے بھوکے آپ کو نگل جائیں، جاگئے اس سے قبل کہ یہ فرقہ پرست آپ کا وجود مٹادیں، متحد ہو کر اور ایک محاذ بنا کر حکومت کے سامنے ڈٹ جائیے_ اس سے پہلے کہ آپ منتشر ہو کر پارہ پارہ کردئے جائیں_!!!*
✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 09/12/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔