یہ وقت سیکولر طاقتوں کے متحد ہونے کا ہے

*یہ وقت سیکولر طاقتوں کے متحد ہونے کا ہے*

*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*اس* وقت *ملک عزیز* جس سمت اور دشا کی طرف جا رہا ہے اور *ملک عزیز* میں جو افراتفری اور انارکی پھیلی ہوئی ہے،تعلیمی ادارے میں جو بے اعتمادی اور غیر یقینی صورتحال کا ماحول، حکومت کے بعض رویے اور فیصلے کی وجہ سے ہے ، اس سے ہر امن پسند اور جمہوریت نواز شہری افسردہ اور غمگین و مایوس ہے ۔ بعض لوگ تو کھل کر اس پر بولنے اور اظہار خیال کرنے لگے ہیں اور اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ بعض لوگ کھل کر حکومت وقت کے فیصلے پر شوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر نقد و تبصرہ کرنے لگے ہیں، ایک بڑا طبقہ (جس میں ہندو مسلم سکھ عیسائ سب شریک ہیں) سڑک پر اتر کر ہفتوں سے بلکہ مہینوں سے احتجاج اور پروٹسٹ کر رہا ہے۔ خود حکومت وقت کے اتحادی پارٹیاں اپنے آپ کو اس قانون اور فیصلے سے اپنے کو محاذ سے الگ کررہی ہیں، بلکہ کرچکی ہیں ۔ کل راقم السطور *بھارتیہ جنتا پارٹی* کے ایک اہم سیاسی لیڈر اور اس مرکزی حکومت کے سابق وزیر خزانہ *یشنونت سنھا جی* جو کہ ایک قد آور لیڈر ہیں معیشت اور خارجہ پالیسی پر گہری نظر ہے انہوں نے اپنے انٹرویو میں کھل کر این آر سی اور سی اے اے کی مخالفت کی اور اس کو ملک و قوم اور آئین و دستور کے خلاف قرار دیا اور اس کے خطرات اور بھیانک و دور رس نتائج سے آگاہ کیا ۔ کھل کر اس کے منفی اثرات پر گفتگو کی ۔ اس انٹرویو کے بعد ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئے کہ اس سے ملک کے مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقوں کی کیسی درگت بنے گی اور کن مشکل حالات کا ان کو سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود جو قائدین اور رہبران قوم اس کے بارے میں متذبذب ہیں یا پس و پیش میں ہیں اور اس کی تائید کر رہے ہیں ان پر حیرت اور تعجب ہے کہ وہ کیسے اس قانون اور ایکٹ کی تائید کر رہے ہیں کیونکر اس پر مطمئن ہیں اور لوگوں کو مطمئن کر رہے ہیں ۔ *اس* ایکٹ اور قانون کو ختم کرنے کے لئے( جو ایکٹ کہ سراسر دستور و آئین اور جمہوری قانون اور اقدار کے خلاف ہے) اور ملک سے نفرت عصبیت اور ظلم و تعصب کو ختم کرنے کے لئے سیکولر طاقتوں کو اور امن پسند شہریوں کو آگے آنا ہوگا اور اس کے لئے متحدہ محاذ بنانا ہوگا، ورنہ ملک تقسیم اور بربادی کے راستہ پر چلا جائے گا ۔ جھارکھنڈ کے حالیہ الیکشن اور اس کے نتائج سے امیدیں جگی ہیں اور اس کے اچھے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں سیکولر پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے لگی ہیں بلکہ بہت حد تک ہوگئ ہیں ۔ آج *رانچی* میں نئے مکھیہ منتری اور وزراء کی سپت گرہ سماروہ( تقریب حلف برداری) میں سیکولر پارٹیوں کے نمائندہ لوگوں کی اور جمہوریت نواز باشندوں کی جو بھیڑ اکھٹا ہوئی، اس نے ثابت کر دیا کہ اس ملک کی زمیں زیادہ دنوں تک سمپر دائکتا طاقتوں کو جھیل نہیں سکتی ہے، یہ دھرتی امن و شانتی پریم و محبت سلامتی اور رواداری کی دھرتی ہے، یہ دھرتی نانک چشتی اور تلسی کی دھرتی ہے یہ دھرتی کبیر داس اور جائسی کی دھرتی۔ یہ دھرتی اشوک اور رام و نظام کی دھرتی ہے ۔ یہ ظلم نفرت ناانصافی بدامنی اور ہنسا کو قبول نہیں کرسکتی ۔ آج کی بھیڑ اور نظارہ نے اس کو ثابت کر دیا ہے ماضی میں بھی یہ نظارے ہمیشہ دکھے ہیں اور آئندہ بھی دکھیں گے ۔ *جھارکھنڈ* اسمبلی الیکشن کے نتائج کئی دن ہوئے آ چکے ہیں۔۔اور آج نئی حکومت کے نئے سربراہ کی تاجپوشی بھی ہوچکی ہے ۔۔کہا جا سکتا ہے کہ آج سے جھارکھنڈ کی سیاست کے ایک نئے باب کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔۔۔بہت سی چیزیں جو اپنی اصل حالت سے تبدیل کر دی گئی تھیں۔۔اب اپنے اصل مقام کو حاصل کرنے والی ہیں۔۔بہت سی چیزیں جو منافرت،تعصب اور تنگ نظری کی بنا پر جبرا و ظلما لاد دی گئی تھیں وہ ردی کی ٹوکڑی کی نذر کر دیی جائیں گی۔۔ ہمارے ایک عزیز اور قریبی رشتہ دار *مولانا شمس پرویز مظاہری* (مہتمم مدرسہ نظامیہ دار القرآن دگھی گڈا جھارکھنڈ جن کی اس الیکشن پر نظر تھی اور اپنے اعتبار سے انہوں اچھی محنت کی تھی) نے جھارکھنڈ کے حالیہ الیکشن اور اس کے نتائج پر اپنا تبصرہ اور تجزیہ جو راقم کو ارسال کیا ہے وہ مفید اور حوصلہ بخش ہے ، مناسب معلوم ہوتا کہ اس کی تلخیص آپ قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش کر دوں، تاکہ ہماری آنکھیں کھلے اور ہم مستقبل کی ابھی سے تیاری شروع کردیں ۔ کیوں کہ مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے نفلی عبادت ہے اور جو لوگ اس خدمت کو للہ انجام دے رہے ہیں وہ اسلام اور دین کی خدمت کر رہے ہیں ۔ غلطی سے ہم عبادت و معاشرت کے مجموعہ کو ہی صرف *اسلام* سمجھ بیٹے ہیں جب کہ قوم و ملت کی ملی سیاسی اور سماجی خدمت بھی دین ہی کا اہم شعبہ ہے اگر سیاست کو دین سے اور دین کو سیاست الگ کر دیا جائے تو یہ بہت خطرے اور نقصان کی بات ہے ۔ دین کو سیاست سے الگ کر دیا جائے تو صرف چنگیزی رہ جاتی ہے ۔ جب ہم سیاست سے بالکل کٹ گئے اور ہم نےاس کو دین کے منافی عمل سمجھ لیا تو اسی دن سے ہمارا سیاسی زوال شروع ہوگیا اور ہم ذلت و رسوائی کہ اس مقام پر پہنچ گئے کہ آج اپنی شہریت ثابت کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے ؟ ۔ لیکن سیاست سے مراد اسلامی سیاست ہے نہ کہ آج کی گندی سیاست ۔ لیکن سیاست کی گندگی کو دور کرنا یہ بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے نہ کہ کسی اور کی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے *مدینہ منورہ* پہنچے تو آپ نے دعوت و تبلیغ کا کام پورے طور پر جاری رکھا تو دوسری طرف مسلمانوں کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصارٰی اور دیگر قبائل سے معاہدہ کیا تاکہ مشرکین مکہ کی شرارت سے حفاظت ہو اور *مدینہ اسٹیٹ* کے سارے باشندے بلا فرق مذھب و ملت امن و امان اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں ۔ تاریخ میں اس *معاہدہ* کو *میثاق مدینہ* کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ *ہندوستان* کے موجودہ حالات میں تمام ارباب دانش اور قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ معزز اور معتبر لوگوں کو لے کر پورے ملک کے سیکولر سیاسی جماعتوں سے ملک کر شانتی ، سلامتی اور امن و امان کے لئے معاہدہ کریں اور ان کو ملک کے نازک حالات سے واقف کرائیں اور باور کرائیں کہ اگر کشتی ڈوبے گی تو نیچے اور اوپر ہر منزل کے سوار غرق ہوں گے، کوئی خوش فہمی میں نہ رہے کہ ہم تو بچ جائیں گے ۔ اس موقع پر اصحاب ثروت طبقہ سے بھی اپیل ہے کہ وہ بھی اپنا وقت اور سرمایہ اس کے لئے قربان کریں ۔ *جھارکھنڈ* صوبائی الیکشن کی جنگ پارٹیوں سے اوپر اٹھ کر نظریات کی جنگ کے طور پر لڑی جانے والی جنگ تھی۔۔تعصب اور نفرت کے خلاف جنگ تھی۔۔دو قومی نظرئیے اور دوغلی پالیسی کو شکست دینے والی جنگ تھی۔شدت پسندی،،ظلم و انارکی،،عناد اور سرکشی کو خاک میں ملا دینے والی جنگ تھی۔۔۔سی اے اے ،،این آر سی اور این پی آر کے حکومت کے سپنے کو چور چور کر دینے کی جنگ تھی۔۔یہ جنگ صوبہ کے تاناشاہ اور ظالم حکمراں کو ان کی اوقات یاد دلانے کی جنگ تھی۔۔اقتصادی نظام کی اصلاح اور معیشت کو ترقی دینے کی کوشش کی جنگ تھی۔۔لاء اینڈ آرڈر کی بحالی اور بےلگام و منہ زور حکومتی اہلکاروں کو ہوش میں لانے کی جنگ تھی۔۔ صوبہ جھارکھنڈ کے حالیہ الیکشن اور اس سے برآمد شدہ نتائج نے یہ ثابت کر دیا کہ ملک کے جمہوری نظام سے کھلواڑ کرنے والوں،، آئین و دستور کا مذاق اڑانے والوں،،متحدہ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا خواب دیکھنے والوں ،،نفرت اور فرقہ پرستی کا بیج بونے والوں اور اپنی سیاسی دوکان کو چمکانے کے لئے کسی بھی حد سے گزر جانے والوں کو ،ملک کے سوا سو کروڑ باشندے، بے حیثیت اور بے مقام کرنا اچھی طرح سے جانتے ہیں۔۔یہ بات بھی خوب اچھی طرح ثابت ہو گئی کہ ملک ہندوستان کی تعمیر میں اس ملک کے بسنے والے تمام شہری خواہ وہ کسی بھی مذہب ،،ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہوں ۔۔برابر کے شریک رہے ہیں۔۔اجتماعیت میں وحدت اس ملک کی شناخت ہے۔۔ہندو اور مسلمان اس ملک کی دو آنکھیں ہیں ۔۔ان میں سے ایک کے بغیر بھی ملک بدصورت اور قبیح نظر آئے گا۔۔۔اس الیکشن کے نتائج نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ملک کے وقار ،،سالمیت اور عزت و آبرو کی بقا اور دوام و استحکام کے لئے جب بھی ضرورت پیش آئے گی ۔۔ملک کے ہندو،، مسلمان ،،سکھ اور عیسائی سینہ سپر نظر آئیں گے۔۔ملک کی جمہوریت کی حفاظت کی خاطر وہ کسی بھی حد سے گزر جائیں گے۔۔مذہب و مسلک اور ذات پات سے اوپر اٹھ کر وہ مانوتا ، انسانیت ،،رواداری اور بھلائی کا علم بلند کریں گے۔۔اگر کہیں مسلمانوں پر ظلم ہوگا تو ہندو اس ظلم کے خلاف کمر بستہ ہو جائے گا اور اگر کسی ہندو کے ساتھ زیادتی ہوگی تو مسلمان کسی بھی صورت اسے برداشت نہیں کرے گا۔۔اشفاق اللہ خاں کے سینے پر اگر گولی چلے گی تو سینہ رام پرساد بسمل کا چھلنی ہوگا۔۔مہاتما گاندھی کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر،،پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ مولانا ابو الکلام آزاد،،بھگت سنگھ کے ساتھ رحیم خان اور سردار ولبھ پائی پٹیل کے ساتھ شیخ الھند اور شیخ الاسلام کی قربانیوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔۔اس ملک میں ساورکر ،،گولکر اور گوڈسے کا نظریہ کسی بھی صورت نہیں چلنے دیا جائے گا۔۔نفرت اور تشدد کی سیاست قبول نہیں کی جائے گی۔۔قومی یکجہتی اور آپسی رواداری کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔داغدار شبیہ اور زہر آلود زبان کی ناپاک جڑیں اکھیڑ دی جائیں گی۔۔ *صاحبو !* اپنے کانوں کو ذرا قریب کیجئیے ایک اور بات رازدارانہ انداز میں کہوں گا، کیا صوبہ جھارکھنڈ کے نتائج دوسرے صوبوں کے لئے درس عبرت نہیں ہیں؟؟کیا یہ نتائج ثابت نہیں کرتے کہ اگر مستقبل قریب میں ہونے والے دہلی اور بہار و بنگال کے انتخابات میں سیکولر ہندؤوں اور مسلمانوں نے تھوڑی سی بھی حکمت عملی سے کام لیا اور اپنے ووٹوں کو انتشار سے بچا کر متحد ہوکر فرقہ پرست اور تشدد پسند جماعت کے خلاف استعمال کیا تو وہاں کے نتائج بھی جھارکھنڈ کی طرح ہو سکتے ہیں۔۔ اور موجودہ بیمار ذہنیت کی حامل حکومت کو ان صوبوں میں بھی منہ کی کھانی پڑ سکتی ہے؟؟؟جس طرح جھارکھنڈ کے باشندوں نے ظلم و بربریت کے خلاف اپنے ووٹوں کی قدر و قیمت پہچان کر حق رائے دہی کا استعمال کیا اور اتحاد و اتفاق کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ظالم و جابر حکمراں کے خلاف محاذ قائم کیا اور جم کر اور ڈٹ کر حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے حکومت تبدیل کر ڈالی ۔۔اگر ایسا ہی اتحاد اور ایسی ہی جرآت دہلی بہار اور بنگال کے باشندے دکھا دیں تو کیا ان صوبوں میں ایسی خوشنما اور خوبصورت تبدیلی نہیں آ سکتی؟؟؟؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت ہمارا ملک اپنی زندگی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔۔ظلم و سفاکی اپنے عروج پر ہے۔۔وحشت و بربریت کا ننگا ناچ ناچا جا رہا ہے۔۔ملک کی جمہوریت اور ملک کے وقار کو شدید خطرہ لاحق ہے۔۔قوانین و ضوابط کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔۔معیشت تباہ حالی کے دہانے پر ہے۔۔مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔۔شروحات میں خطرناک حد تک کمی آ رہی ہے۔۔تعلیم گاہیں اجڑ رہی ہیں۔۔حقوق تلف کئے جا رہے ہیں۔۔عورتوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔۔کسان اور مزدور فاقہ کشی کی موت مر رہے ہیں۔۔سی اے اے اور این آر سی جیسے ظالمانہ قوانین بنائے جا رہے ہیں اور مکمل داداگیری کے ساتھ اسے پارلیامنٹ میں پیش اور پاس کروایا جا رہا ہے۔۔ ظالم حکومت ایک خاص طبقہ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہے۔۔احتجاج اور مظاھرے ہو رہے ہیں۔۔ہندوستانی چیخ رہے ہیں ۔۔سڑکوں پر نکل کر اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں اور پولیس اہلکار لاٹھی اور ڈنڈوں سے اور کبھی گولیوں سے ان کی آوازیں دبا رہے ہیں۔۔گویا ایمرجنسی جیسے حالات پیدا ہو چکے ہیں۔۔امن کے دشمنوں ظالموں ،،دجالوں اور طاغوتوں نے پورے ملک کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے اور اپنے خونی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔۔۔ صاحبو!!! ان خطرناک صورتحال میں کیاضرورت اس بات کی نہیں کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں ؟؟ہوش کے ناخن لیں ؟؟ایمانی اور اخلاقی صفات سے خود کو آراستہ کریں ؟؟اسلامی تعلیمات کو عام کریں؟؟ عیش کوشی اور لذت پرستی کی دنیا سے باہر نکلیں؟؟بغض ،حسد اور نفاق کو اپنے دلوں سے باہر نکال کر الفت و محبت کا پیغام عام کریں؟؟۔برادران وطن کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں؟؟اپنے اندر سیاسی سوجھ بوجھ پیدا کریں۔انتخابات کے وقت مؤثر اور کارگر حکمت عملی اختیار کریں۔؟؟ملک کی بقا و سالمیت کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے خود کو تیار رکھیں؟؟ بھائیو!!!سو بات کی ایک بات یہ کہ صوبہ جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج نے ہمارے لئے سیکھنے کی خاطر بہت کچھ چھوڑا ہے۔۔ان نتیجوں نے پورے ملک کو ایک دور رس اور سبق آموز پیغام دیا ہے۔۔ کاش کہ ہم سمجھ پاتے۔۔۔؟؟؟

*نوٹ اس پیغام کا علاقائ زبانوں میں ترجمہ کراکے دوسروں تک پہنچائیں نیز تمام ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے اس تحریر کو عام کریں*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔