پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے پڑوسی کو بلوایا۔ پڑوسی حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے انکار کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا، کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔
دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر افسوس! کہ دنیاوی مال ودولت کی لالچ اور حرص نے اُس شخص کو اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے روک دیا۔
مجلس میں موجود ایک صحابی ابودحداح رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔
ابو دحداح رضی اللہ عنہ اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو ابودحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔
ابوداحداح نے اُس سے کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟
اُس شخص نے حیرت سے پیارے نبی کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابوداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا، آخر کار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا،
ابوداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا اب جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، ابودحداح پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے فکر مند ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابودحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابودحداح ہوتا۔
ابودحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔
بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا، ابودحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟
ابودحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار ستر سال تک چلتا رہے۔
ابودحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابودحداح آپ نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابودحداح آپ نے منافع کا سودا کیا ہے۔
اسے کہتے ہیں حقیقی اور سچی محبت، اللہ اور اس کے رسولﷺ سے سچی محبت کرنے والے یہی لوگ تھے۔
ابو دحداح اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہم دونوں پر اللہ کی رحمتوں کا خوب نزول ہو۔ انہوں نے بہت بڑی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا۔ ہمیں بھی ضرورت پڑنے پر انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک دوسرے کی مدد کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے، اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العلمین ۔