نماز اور نماز جمعہ کی اہمیت

جرمنی کے اسکول میں اپنے بیٹے کو پابندیوں کے باوجود جمعہ ادا کرنے کی اجازت دلوانے والی عظیم ماں کار گزاری خود اس کی زبانی، جمعہ کی اجازت نہ ملنے پر وہ جرمنی تک چھوڑنے کیلیے تیار ہوگئی تھیں. تمام مائیں اپنے بچوں کی ایسے تربیت کریں تو وہ ہر میدان کے شاہ سوار ہوں، اسی طرح ماؤں کو بلا عذر ملازمت کے بجائے اپنے بچوں کی بہترین دینی تربیت پر توجہ دینی چاہیے جو دوسروں کی ملازمت سے ہزار درجہ بہتر ہے.

تحریر : مسز بلال، جرمنی.

سردی ہو یا گرمی، برف پڑ رہی ہو ہمیں سکول کے لئے جگاتے ہوئے کبھی بچے کی نیند کا خیال نہیں آتا کیونکہ ہم اسے ضروری کام سمجھتے ہیں، وقت پر پہنچنا ڈسپلن کی پابندی بہت ضروری ہے لیکن جب چھٹی کا دن ہو تو اکثر لوگ بچوں کی نیند کا خیال کرتے ہوئے انھیں فجر کی نماز کے لئے نہیں جگاتے کہ چھٹی ہے نیند پوری ہو جائے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے دل میں نماز کی اہمیت ویسی نہیں بیٹھی جیسی ہونی چاہیے. بچے بہت اسمارٹ ہوتے ہیں، یہ اپنے والدین کی priorities کو judge کرتے ہیں اور پھر اس کے مطابق چلتے ہیں، اس لئے ہمیں اپنی ترجیحات میں نماز کو سب سے مقدم رکھنا ہے. جب ہم نماز کے فضائل کی احادیث پڑھیں گے ، روزانہ احادیث کی تعلیم کا ایک حلقہ لگائیں گے تو ان شاء اللہ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی ، بلکہ فضائل اور انعامات کا سن کر خود ہی بچے نماز شوق سے پڑھتے ہیں. سات سال کی عمر سے بچے کو نماز پڑھوانی شروع کی جائے ، اپنے ساتھ کھڑا کیا جائے تو ان شاء اللہ دس سال کی عمر تک انکی عادت بالکل پختہ ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔ تین سال کی مسلسل محنت انھیں پکا نمازی بنا دے گی. چھ سال سے انھیں پہلے نماز سکھانا شروع کیا جائے ، پھر فرض ، سنت ، انکی تعداد یاد کروائی جائے ، پھر پڑھنے کا طریقہ ایک سال میں وہ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ سات سال میں باقاعدہ نماز پڑھ سکیں ، فجر اور عشاء بھی اپنے ساتھ پڑھائی جائے جب سکھانی شروع کی جائے تو ساتھ ساتھ وہ حدیث بھی اکثر دوہرائی جائے سات سال کی عمر میں نماز والی ۔۔۔ ساتھ ہی ایکسائٹمنٹ ظاہر کرنا کہ آپ کے پکے والا نمازی بننے میں اتنے مہینے رہ گئے ، یا اتنے دن رہ گئے وغیرہ جس چیز کے تذکرے ہم کریں گے ، وہی ہمارے بچوں کے دل میں اترے گئ ،ویسا ہی عمل وہ کریں گے بچے کیسے ہماری ترجیحات کو جانچتے ہیں ۔۔۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جب ہم یہاں شفٹ ہوئے اور کچھ عرصہ بعد جب سردیاں شروع ہوئیں اور ظہر کا وقت ڈھائی بجے ختم ہو جاتا تھا ، حارث کی جمعہ کی نماز سکول آورز میں آنے لگی اور اس کا ایک جمعہ miss ہو گیا ، گھر آ کر ظہر پڑھی ۔۔۔۔ مجھے بڑی پریشانی بھی ہوئی اور ظاہر ہے تکیف بھی ہوئی کہ اس کو جمعہ کی نماز نہیں مل سکی یہاں کے پرانے لوگوں سے جب پوچھا تو یہی پتہ چلا کہ اب مسلمان بچوں کو نماز کے لئے آف نہیں دیا جاتا ، کچھ عرصہ سے یہاں سختی چل رہی ہے ، پہلے کوئی راستہ نکال لیا جاتا تھا. ایک خاتون نے کہا کہ آپ کوئی بہانہ بنا کر چھٹی کروا سکتے ہیں یا جلدی بلا سکتے ہیں لیکن وہ نا ممکن تھا کہ جھوٹ بولا جاتا ۔۔۔ بچوں کے لئے بہانہ وغیرہ کوئی تصور نہیں بنا ہوا ذہن میں، بات سیدھی کرنی تھی، اس لئے دو نفل حاجت کے پڑھے، سکول میں ای میل کی ، جواب نہیں آیا. دل میں سوچ رکھا تھا کہ بیٹا حافظ قرآن ہے ، اگر اس کی جمعہ نماز سردیوں میں مس ہونے لگی تو بہت برا اثر پڑے گا ، یہاں تک سوچ لیا کہ اگر کچھ نہ ہو سکا تو جمعہ کی قربانی نہیں دی جا سکتی ، پاکستان واپس شفٹ ہوا جاسکتا ہے، ٹیچر سے میٹنگ کی ، اس نے بھی کہا مشکل ہے ، آپ سیکرٹیریٹ میں لیٹر بھیجیں. لیٹر بھیجا تو الحمدللہ انھوں نے جواب میں جو لیٹر گھر بھیجا، اس ہر باقاعدہ لکھا ہوا تھا کہ نماز کے لئے 45 منٹ پہلے آف لے سکتا ہے ، فورا دو نفل شکرانے کے پڑھے اب بچہ سب دیکھ رہا ہے اور اس کے دل میں بات بیٹھ رہی ہے کہ جمعہ کی نماز کتنی اہم ہے، ہم جس چیز کو اہم سمجھیں گے ، بچے اسے اہمیت دیں گے اور جس چیز کو ہم کم اہمیت دیں گے، اس کو بچے بھی غیر اہم سمجھیں گے وہ ہمارا عمل دیکھتے ہیں ۔۔۔ ہماری ترجیحات کو judge کرتے ہیں ایک واقعہ ہے نا کہ ۔۔۔ ایک عورت نے ایک عالم سے پوچھا: "میں اپنے بچوں کے ساتھ ایسا کیا کروں که فجر کے وقت انکی گہری نیند کے باوجود بھی ان كو اٹھا سکوں؟" عالم نے کہا: "تم اس وقت کیا کروں گی اگر گھر میں آگ لگ جائے اور بچے گہری نیند سو رہے ہوں؟" عورت: "میں انہیں جگاؤں گی۔" عالم: "اگر انکی نیند گہری ہوئی تو؟" عورت نے جواب دیا: "والله! میں یا تو انہیں جگاؤں گی یا انکی گردنوں سے پکڑ کر انکو گھسیٹ کر باہر لے جاؤں گی۔" تب عالم نے کہا: "اگر تم انہیں دنیا کی آگ سے بچانے کے لیے یه کرو گی تو پھر انہیں جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ سے بچانے کے لئیے بھی ایسا کرو۔"

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔