مودی حکومت کا نیا پینترا
*شکیل منصور القاسمی*
"صحافت " "سچ بولنے " "سچ لکھنے " اور سچ دوسروں تک پہونچانے " کا نام ہے۔ صحافت کے ذریعہ حقائق وواقعات کی تصویر کشی ہوتی ہے۔لوگوں کو صحیح صورت حال سے واقف کرایا جاتا ہے ۔ اس کے ذریعہ رائے عامہ ہموار ہوتی ،قومی منظر نامہ تبدیل ہوتا اور عوام الناس کی ذہن سازی ہوتی ہے۔ صحافت ہی کے ذریعہ عمومی سطح پہ حق وباطل کے مابین تمیز کی جاتی ہے۔ اس سے سماجی انقلاب برپا ہوتا ہے۔عوام الناس کے حقیقی مسائل اجاگر کرکے حکمرانوں تک پہونچائے جاتے اور مسائل کےحل کے لئے ان کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے ۔ اسی لئے پیشہ صحافت کو شروع سے ہی سماج میں ایک کلیدی حیثیت وتقدس حاصل ہے۔ شاید اسی وجہ سے کسی بھی جمہوری ریاست کے چار اہم ستونوں : عدلیہ ، پارلیمنٹ ،فوج اور صحافت میں سے آخر الذکر کو چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔ اس پیشہ سے وابستہ افراد (صحافی ) کی ذمہ داری بھی دوچند ہے۔ صحافی کو حق گو ،جراتمند ، بے باک ، مصلحت اندیشی ،لسانی ،گروہی ادارتی ومسلکی تعصب وتنگ نائی سے پاک ، غیر جانبدار ،تنگ ذہنی ، انتقام مزاجی اور یرقانی نظر وفکر سے یکسر خالی ہونا چاہئے ۔ حقیقی صحافی وہ ہے جو معاشرتی بگاڑ وفساد پہ کھل کر لکھنا جانتاہو ، لوٹ کھسوٹ اور بدی کی قوتوں وسر چشموں پہ اپنے قلم کے ذریعہ کاری ضرب لگانے کی جرات رکھتا ہو ،حالات کی نامساعدت وخطر ناکی کے باوجود قوم وملت کی ہر خبر پر بصیرت مندانہ نظر رکھنے اور اعصاب وجذبات پہ کنٹرول کے ساتھ ذاتی وشخصی مفادات پہ قومی وملی مفادات کو ترجیح دینا جانتا ہو، رشوت خوروں کی پشت پناہی اور آلہ کار بننے کی بجائے بے خوف وخطر ان کا تعاقب کرنا جانتا ہو ۔ ایسے باضمیر وباکردار صحافی کی صحافت ذہن سازی کا قابل قدر طریقہ اور ملک وملت کو مستحکم بنانے میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ اہل علم کے علم میں یہ بات اچھی طرح ہے کہ ہندوستان کی جد وجہد آزادی میں لوگوں کے جسم وجان میں آزادی کی لہر پہونکنے کے لئے اردو صحافیوں نے اپنے نوک قلم سے اتنے کارنامے انجام دیئے ہیں جو عموماً تیر وتفنگ سے بھی انجام نہیں پاسکتے ۔ ترغیب وترہیب دونوں طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعہ اردو صحافیوں کو اس وقت کے ظالم حکمرانوں نے قابو کرنے کی کوشش کی ، انہیں پابند سلاسل کیا ، قید وبند کی سزائیں دیں ، پھانسیاں دیں ؛ لیکن سچ بولنے اور سچ لکھنے والے کسی کا "چارہ " نہ بن سکے ۔ بلا خوف وتردد اپنے مشن میں جٹے رہے، علم وادب کی آبیاری کرتے رہے ۔سیاسی بیداری اور تحریک آزادی میں بلا خوف وخطر مردانہ وار لکھتے رہے اور ہراول دستہ کا کام انجام دیتے رہے ۔ آج ملک ہندوستان اگرچہ انگریز سامراج سے آزاد ہے ۔ ملک کا ایک حسین و جامع جمہوری آئین ودستور بھی ہے ، جو مذہب کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے بھید بھائو یا امتیاز برتے جانے کی نفی کرتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ آج مادر وطن کے اسی سیکولر آئین کے تانے بانے کو ادھیڑ بن کرنے پہ آر ایس ایس کے چٹے بٹّے فاشزم ،تنگ نظر ،انتہا اور رجعیت پسند حکمراں تلے ہوئے ہیں ۔ انہون نے اپنی عددی برتری کے بل بوتے آئین مخالف متنازع شہریتی ترمیمی قانون پاس کرکے ملک کی جمہوری بنادوں پہ خطرناک حملہ کیا ہے ۔ اس ظالمانہ قانون کے خلاف ہندوستان کی سڑکوں پہ عوامی سمندر امنڈ آیا ہے ، آزاد ہندوستان میں حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ کا یہ پہلا انوکھا تجربہ ہے،سیاسی وفاداریوں ، بینروں اور قیادتوں کے بغیر ہی مرد وعورت ، بوڑھے وجوان ، شیر خوار بچے ، پڑھے لکھے واَن پڑھ ، مزدور ،محنت کش وکیل ،ڈاکٹراور پروفیسر ہر شعبہ حیات کے لوگ سڑکوں پہ نکل آئے ہیں اور ملک کے جمہوری تانے بانے کی حفاظت کے لیے ملک کے چپہ چپہ اور کو نہ کو نہ میں مظاہرے اور ملین مارچ کر رہے ہیں ۔ ملک ودستور کے تحفظ کے لئے کی جانے والی اس پاکیزہ جد وجہد میں اب تک پچاسوں جانیں ضائع ، ہزاروں گر??تار اور زخمی ہوچکے ہیں ۔ظالم حکمرانوں کے خلاف قومی اتحاد ویکجہتی اور عوامی غیظ و غضب کو دیکھ کر زعفرانی حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں دین دار طبقہ بالخصوص علماء برادری میں سی اے اے اور این آر سی وغیرہ کے حوالے سے جو شدید اظطراب پایا جاتا ہے اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے کمال عیاری سے بی جے پی والوں نے نئی حکمت عملی تیار کی ہے ۔ جس کے تحت اردو صحافیوں کے سامنے چارہ ڈال کر انہیں رام کرنے کی پلاننگ تیار کی گئی ہے ۔جہاں حکومت کے گماشتے ،مہرے اور دلال و پروردہ مذہبی حلقوں اور عوامی آبادیوں میں جاکر اس سیاہ بل کے خدشات کو غلط قرار دے رہے ہیں ۔دینی جلسے اور اجتماعات بھی کررہے ہیں ۔ وہیں حکومت کی جانب سے یہ نیا پینترا بھی بدلا جارہا ہے ، اردو صحافیوں اور دینی طبقات کو نام نہاد اعزازات و ایوارڈ کے ذریعہ خاموش کرنے اور انہیں اپنے جال میں پہنسانے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے ۔ملک کے مختلف نامور قلمکار و صحافی کی ایک لسٹ بناکر وقتاً فوقتاً انہیں فنڈنگ کرنے ، نوازنے اور اپنا زر خرید بنانے کی دیر پا مضبوط سازش تیار ہوچکی ہے ۔ مقام مسرت ہے کہ ہندوستان کی اردو صحافت میں اپنے صبر وثبات، بلند حوصلگی ، ذاتی محنت ، جہد مسلسل ، عزم وہمت ، دور بینی ، شائستہ ،مہذب اور آبرو مندانہ زبان وبیان ، ذمہ دارانہ صحافت اور متانت و سنجیدگی کے ذریعہ بہت کم وقت میں اپنی شناخت اور اعتبار قائم کرنے والے فرض شناس صحافیوں میں وقیع نام نوجوان عالم دین صحافی ،فاضل دیوبند، مولانا عبد القادر شمس قاسمی ارریاوی کا بھی ہے ۔ ذرائع کے بموجب اردو صحافت میں ان کے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات حکومت ہند کی جانب سے یوگا ڈے 7جنوری 2020 کو وزیر برائے نشریات و اطلاعات پرکاش جاوڈکر اور دیگر اہم حکومتی عہدیداران کے ہاتھوں اعترافی ایوارڈ دیئے جانے کا اعلان ہوا ہے ۔ مجھے جہاں ذاتی طور پہ اس مسرت آمیز خبر پہ بے انتہا فرحت وشادمانی ہوئی ہے اور دل سے فاضل موصوف کے لیے نیک تمنائیں اور مزید ترقیوں کے لئے دعائیں نکلی ہیں وہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ بے گناہوں اور معصوموں کے خون سے رنگین حکمرانوں کے ہاتھوں اگر یہ ایوارڈ قبول کر لیا جاتا ہے تو معاشرے اور سماج میں اس کا انتہائی غلط اور منفی اثر جائے گا ۔ ملک کی ایسی سنگین صورت حال میں جبکہ غیر مسلم بھائی ہمارے ساتھ ساتھ سڑکوں پہ لاٹھیاں اور گولیاں کھارہے ہوں ایک عالم دین صحافی کا ظالموں کے ہاتھ سے اعزاز و ایوارڈ وصولنا کس قدر ناروا اور افسوسناک واذیتناک اور حوصلہ شکن عمل ہوگا ؟ برا نہ مانئیے تو میں اسے ظالموں کی تائید اور معصوم شہداء کے خون کی تذلیل گردانتا ہوں ۔ ملک بھر میں حکومت کے خلاف جاری مظاہرے کے پیش نظر احتجاج کا سب سے مؤثر اور دور رس طریقہ یہ ہے کہ مولانا موصوف مرکزی حکومت کا یہ ایوارڈ لینے سے صاف انکار کردیں آخر پانڈیچیری یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کی گولڈ میڈلسٹ طالبہ ربیحہ عبدالرحیم نے یونیورسٹی کانووکیشن میں ملک کے صدر سے گولڈ میڈل لینے سے انکار کر کے کیسی انوکھی مثال قائم کردی ؟۔ صحافت تو در اصل " ذاتی وشخصی مفادات پہ قومی وملی مفادات کو ترجیح دینا " ہی کا نام ہے۔ حکومت کے ناروا فیصلوں کے خلاف بطور احتجاج مختلف موقعوں سے مختلف عظیم شخصیتوں نے اپنا ایوارڈ واپس کر کے فن صحافت کا سر فخر سے بلند کردیا ہے ۔جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ۔ مولانا عبد القادر شمس صاحب ! سخت حالات میں بڑے فیصلے لینے ہوتے ہیں ، بادی النظر میں اتنا بڑا ایثار کرجانا شاید آپ کے لئے گراں گزرے ؛لیکن یقین جانیے ! دنیا کی ہر چیز اور منصب عارضی وفانی ہے ، یہاں اعزاز کو دوام حاصل ہے نہ حکومت ، منصب ، جاہ وسلطنت کو ۔ “اقدار وروایات “ کے پاسداروں کی حکمرانی ہمیشہ دلوں پہ ہوتی ہے۔وہ بوریہ نشیں ہوکے بھی تخت نشیں رہتے ہیں۔ان کی حکمرانی کسی کی نظر کرم، عہدہ و ایوارڈ یا کسی سیاسی وابستگی و وفاداری کی رہین منت نہیں ہوتی۔بلکہ ان کی قوت حقیقی قوت ہوتی ہے۔وہ اکیلا رہ کے بھی شیروں کی طرح دہاڑیں مارتے ہیں۔انہیں نہ دولت واقتدار کا نشہ بہکا پاتا ہے اور نہ " ملک کے بڑے سے بڑا اعزاز “ کی حرص وہوس ۔ شمس صاحب ! بخدا آپ کے لئے تاریخ میں امر ہوجانے کا قدرت نے زریں موقع عطا کیا ہے کہ آپ ہمت کرکے ظالم حکومت کے اس بھائو مول کو حکمت ودانائی کے ساتھ یکسر مسترد کردیں ۔آپ قوم کے ہیرو بن جائیں گے اور اپنے پیشہ سے وابستہ لوگوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ عمل بھی ۔ امید ہے زندہ ضمیری اور ملی غیرت وحمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ ایک اچھی اور مثالی پیش رفت کا آغاز کریں گے ۔اگر خدا نہ خواستہ آپ نے ایسے پر آشوب اور لاٹھیوں وگولیوں کے پَہ٘رے والے حالات میں انہی ظالم قصابوں کے رِجھانے میں آگئے تو پہر مابعد کے ردود عمل اور سبکیوں کا جو لامتناہی سلسلہ شروع ہوجانے کا خدشہ ہے اسے سوچ کے ہی پانی پانی ہورہا ہوں۔ آپ اسے بھانپنے کی کوشس فرمائیں، خدا آپ کو حوصلہ دے ۔ والسلام علیکم ورحمة الله وبركاته. آپ کا خیر اندیش بھائی : *شکیل منصور القاسمی* بیگوسرائے 5 جنوری 2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔