پاسبان علم وادب

جی ہاں،وہی علم و ادب کے گلشنوں کا پاسبان جس کی فضاؤں میں محبتوں کی خوشبو مشام جاں کو معطر کرجاتی تھی، علم وتحقیق کی موتیاں جس کے کینوس پر اس طرح بکھری ہوئی ہوتی تھیں جیسے سبزہ زاروں میں گلابوں کے کٹوروں میں شبنمی قطروں کے گہرہائے صدف،

ادب وثقافت اور شعر وسخن کے نرم رو جھونکے دلوں میں اس طرح نشاط کی کیفیت پیدا کرتے تھے۔جیسے سنہری صبح میں باد صبا غنچوں اور کلیوں سے کھیلتی ہے،

مگر وہ خوشگوار ماحول،محبتوں کی دلنواز فضائیں،علم وتحقیق کی کہکشاؤں کی انجمن جانے کہاں ہجرت کر گئی ہے،

آج جب مولانا خالد صاحب ترجمان پاسبان نے زخم زخم احساسات کو لفظوں کا آہنگ دیا تو دل کے زخموں کے ٹانکے ٹوٹ گئے، اداسیوں کی چادر رات کی سیاہ تاریکیوں کی طرح قلب و روح کی کائنات پر چھا گئی، ایسا محسوس ہوا کہ دل کے جذبات کو مایوسیوں کے لامحدود سمندر میں لفظوں کی پتوار حاصل ہوگئی،

اور اب زبان کو یارا اور دل کو تب وتاب میسر ہوئی کہ ہم بھی یہ کہ سکیں،ہاں ، اس گلشن کی رونقیں دھواں ہوچکی ہیں'، اس کی فضاؤں سے جمالیاتی کرنیں رخصت ہوچکی ہیں، الفت ومحبت کی پریوں نے اس دیس کو چھوڑ دیا ہے اور جب گلشنوں میں نفرت وتعصب کی آندھیاں چلنے لگیں، کبر و عناد کی دھوپ اس کے طول وعرض پر چھا جائے، غرور و پندار اور جھوٹی انا کی حکمرانی ہوجائے تو انسانیت،اخوت ،اخلاق وکردار،اور تعمیری جذبات کی کلیاں سوکھ جاتی ہیں'،عروج وارتقا کے عناصر کہیں اور ہجرت کرجاتے ہیں،

فکر و نظر میں خطاؤں کا صدور قطعاً عیب نہیں ہے'مگر ان خطاؤں پر احساس زیاں سے محرومی یقیناً فکری پستی اور زوال کی علامت ہے۔

کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ خطاؤں سے ہم نے نہ صرف آنکھیں بند کر لی ہیں'بلکہ ہم اس احساس سے بھی محروم ہیں کہ ہمارے افکار کے سفر کی سمت درست ہے'یا غلط۔

ملت،قوم ،ملک کے سود وزیاں سے بے خبر غیر ضروری امور میں، لاحاصل اختلافات میں،اپنی صلاحیتوں کو صرف کررہے ہیں،ایک دوسرے پر طعنہ زنی،نفرت و حقارت کی تیر اندازیاں ہماری صلاحیتوں کے مظاہرے کا مرکزی کردار بنی ہوئی ہیں۔

اس صورت حال میں اس انجمن کا جو حشر ہونا چاہیے تھا وہ ہوا،کہ جہاں تاریکیوں کے سائے ہر سو پھیل جاتے ہیں تعمیری کردار اور خوشگوار فضائیں،اور اخوت والفت کے آفتاب روپوش ہو جایا کرتے ہیں

اس گلستاں کو نور و نکہت سے معمور کرنے کے لئے لازم ہے کہ کبر و غرور اور نفرت ونخوت کی دبیز بدلیوں کے پردے چاک کئے جائیں تاکہ اخلاص و وفا کا سورج اپنی شان سے طلوع ہوسکے جیسے ایک عرصے قبل پوری تابانیوں کے ساتھ جلوہ نما ہوکر اس بزم کو روشن ہوتا تھا۔۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔