پولس کی حیوانیت - تھو- تھو

*پولس کی حیوانیت - تھو- تھو ___!!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*

       *محکمہ تحفظ سے ہی حفاظت کی امیدیں ٹوٹ جائیں، جو پاسباں ہوں وہی قزاق بن جائیں، ریوڑ کے نگراں اگر بھیڑیے کا روپ اختیار کرلیں، عوام کی راحت کا سامان کرنے والے اور ان کی خانگی دشواریوں کا حل تلاش کرنے والے ہی پریشانی کا باعث بن جائیں تو کیا کیا جائے_؟ جرائم کی روک تھام کرنے والے مجرم ہوجائیں، درندگی پر اتر آئیں، اصلاح کرنے والے فسادی بن جائیں، بے کسوں کے آنسو پونچھنے والے ہی چشم نم کرنے لگیں_ تو پھر کسے درد غم سنائیں، کون ہے جو زمانے کے ستائے اور لاچاری کے مارے افراد کی ہمت بنے گا، انصاف کا اول زینہ کن کے کاندھوں کا سہارا لیکر طے کیا جائے گا_؟ وہ تو خود عدل کے قاتل ہیں، یکسانیت، جمہوریت اور سیکولرزم کے رخسار پر داغ ہیں، جنہوں نے بندوق قانون کی حفاظت اور آئین کی بالادستی کیلئے رکھا تھا؛ لیکن وہی آئین کی تذلیل اور وقتی حکومت کے احکام کی پیروی میں ماتحتوں کی تحقیر کر رہے ہیں، اس میں اگرچہ محکمہ تحفظ کے کئی شعبے شامل ہیں؛ لیکن پولس کی بر برتا اور ان کی درندگی ان دنوں عروج ہے، رپورٹس دیکھنے والے آنسو پر سکت نہیں رکھ سکتے، مظلوموں کی آہیں سننے والے مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنے کان بند کر لیں، کیونکہ ان کا دل پھٹا جاتا ہے۔ پورے ہندوستان میں CAA اور NRC کے پروٹسٹ میں نکالی گئی ریلیوں کے ساتھ انہوں نے سرکار کی غلامی میں ساری حدیں عبور کردی ہیں_ جامعہ ملیہ میں گھس کر بچے اور بچیوں کو مارا گیا، باتھ روم میں بھی طلبہ پر ڈنڈے برسائے گئے، ہاسٹل اور بیڈ روم سے لڑکے اٹھا لئے گئے، انہیں جیلوں میں ٹھونسا گیا، پیلٹ گن تک استعمال کرنے سے نہیں چوکے، کئی زخمی ہوئے، موتیں بھی ہوئیں، ہاتھ پیر ٹوٹے اور بہت سے شدید ترین زخمی ہو کر اب بھی اسپتالوں مں بے چین ہیں_*         *پوری دہلی میں عوام پر پولس مسلط ہے، دفعہ ۱۴۴ لگائے جانے کے باوجود ہورہے مظاہروں میں پوری طرح سے ہاتھ کھول دئے ہیں، آئے دن ان کا دوہرا چہرہ سامنے آتا ہے، بالخصوص یوپی کے متعدد علاقوں میں انہوں نے انسانیت کی حدین پار کردیں، مظفر نگر اور سنبھل جیسے مسلم اکثریت میں نہ صرف قانونی طور پر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مارپیٹ کی گئی؛ بلکہ گھروں مین گھس کر ان کے سامان پر ڈاکہ مارا گیا، عورتوں اور نوجوان بچیوں کے ساتھ چھیڑ خانی کی گئی، بوڑھوں کو بھی خون آلود کردیا، حتی کہ کئی ماں باپ سے ان کی اولادیں چھین لیں، ان کے بڑھاپے کا سہارا، آنکھوں کا تارہ اور دل کی ڈھنڈک سے محروم کردیا_ نوجوانوں پر بے تحاشہ گولیاں چلائی گئیں، معصوموں کے خون سے سرزمین نہا بیٹھی، اور سینکڑوں کو اغوا کر لیا گیا ہے، ان کے خلاف سخت دفعات لگا کر جیل خانہ میں بند کردیا گیا ہے، اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ ان کے گھر والوں کو نوٹس تک نہیں دی ہے، خبر آرہی یے کہ ایک چودہ سالہ بچی کے والدین کو بھی اٹھا لیا ہے، ایک اسی سالہ بوڑھے باپ کا اکلوتا بیٹا بھی بے گناہ شہید کردیا گیا ہے، آپ رویش کمار صاحب کا پرائم ٹام NDTV پر دیکھئے_ گزشتہ دو دنوں کی رپورٹس دیکھنے اور سننے کیلئے جگر تھام کر بیٹھئے اور دیکھئے کہ کس طرح وقت کے فرعون نے اپنے ہم نواوں کو قتل اولاد کا حکم دے دیا ہے، اور اس کی تعمیل کرتے ہوئے نسلیں اجاڑی جارہی ہیں، بات بات پر بہانہ بنا کر عوام کو لرزاں و ترساں کیا جا رہا ہے، سراسیمگی اور خوف پیدا کر کے اکثریت کا رعب ڈالا جارہا ہے۔* شب آخر سنی یہ کس کی آواز فغاں میں نے قمر تھرا اٹھا تاروں کو دیکھا نیم جاں میں نے        *یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے کشمیر_ آسام جیسے صوبوں کے ساتھ بھی یہی کیا_ اب پورے ہندوستان میں اسی سبق کو دوہرا رہے ہیں، ابھی کل تک کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے تحفظ کا سوال کیا تھا_ وکیلوں سے ہوئی مڈ بھیڑ کی وجہ سے وے سب سڑکوں پر تھے، عوام نے بھی ان کا ساتھ دیا، ان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا_ لیکن وقت اتنا بدل گیا کہ وہی مظلوم اب ظالم بن گئے، خود سسک کر اپنی داستان سنانے والے اور ان کے ساتھ اہل و عیال بھی اپنا درد بتارہے تھے، مگر اب وہ خود ظالمانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں؛ بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ آزاد ہند کی تاریخ میں سب سے مکروہ چہرہ سیاست دانوں کے بعد انہیں کا رہا ہے، یہ وہ درباری اور خصیہ برداری کرنے والے رہے ہی، جن کی وجہ سے ملک کا صوبہ صوبہ جل اٹھا، ہندو مسلم فرقہ بازی اور دنگے فساد میں ایک دوسرے کو شہ دینے والے یہی ظالم ہیں_ بابری مسجد کی شہادت سے لیکر گجرات مسلم کشی اور مظر نگر کے دنگوں میں ان کا کلیدی رول ہے، یہ سب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں؛ بلکہ اس کے عینی شاہد موجود ہیں، نیوز چینلز کے پاس ان کی فوٹیز بھی محفوظ ہیں، یہ کپڑوں سے پہچان کر ساتھ دیتے ہیں، تحقیقی کاروائیاں کرتے ہیں، وہ سیکولر ملک کے سیکولر پولس ہو کر بھی متعصابانہ کردار نبھاتے ہیں_ شاید و باید ہی کوئی کہہ سکے کہ پولس کے ساتھ اگر ان کا سامنا ہوا ہے؛ تو انہوں نے کسی انسانیت کا ثبوت دیا ہو، غضب کی بات ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ پا کر انہیں کی گردن کاٹ لیتے ہیں، وہ اگرچہ پبلک کا مال کھاتے ہیں لیکن گاتے سرکار کی ہیں، وہ حکومت کے دم چھلے ہیں_*        *آج بی جے پی پاور میں ہے تو یہ ان کے سامنے دم لائیں  گے، جب کانگریس حکومت میں ہوگی، تو پھر یہ ان کی گود میں جا بیٹھیں گے_ ان کا دین اور دھرم سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ملک میں اعلی قیادتوں کے ناخن تلے رہ کر انسانی زندگی دوبھر کی جائے_ مسلمانوں کی گرفتاری اور ان کے ساتھ جیل میں حیوانیت کا سلوک کرنے والے یہی ہیں_ اور آج قانونی جنگ میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے یہی مہان لوگ ہیں_ یہاں پر اسے بھی قبول کرنے میں کوئی جھجھک نہیں؛ کہ کئی جگہوں پر پر امن احتجاجات کو بعض شر پسندوں نے نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے؛ لیکن بجائے یہ کہ وہ بھیڑ کو سنبھالیں، ماحول کو سازگار بنائیں، آنسو گیس، فورس واٹر جیسے ذرائع کا استعمال کریں_ وہ تو خود ہی ماحول کو خراب کرنے میں لگ گئے، بسوں کو جلانے والے یہی ہیں، سرکاری جائیداد تباہ کرنے والے بھی یہی ہیں، معصوموں کی کمائی ہوئی دولت کو برباد کرنے والے یہی ہیں_ خدا جانے ان کا ضمیر زندہ بھی ہے یا نہیں_؟ ملک کی حفاظت اور عوام و آئین کے تئیں مخلص رہنے کی قسم کھانے والے اپنے وعدون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انہیں شرم بھی آتی ہے یا نہیں_؟ وہ کیسے صبح کرتے ہیں اور کس ضمیر کے ساتھ آئینہ کا سامنے کرتے ہوں گے_؟ اپنی جان، مال اور اولاد کو دیکھ کر کیا انہیں احساس نہیں ہوتا کہ جس طرح انہیں ان سے لگاو ہے، عوام بھی اپنی اولادوں کو ویسے ہی محبت ہوتی ہوگی_؟* یہ چشم بے مروت یہ جبین پرشکن ساقی یہی ہے کیا جواب اعتماد و حسن ظن ساقی        Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 26/12/2019

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔