ہندوستان میں ختم ہوتی قیادت اسباب وعوامل

ہندستان میں ختم ہوتی قیادت۔اسباب وعوامل۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

قوموں کی ترقی وتنزل، ان کے استقبال وادبار میں قیادت وسیادت، نگہبانی وحکمرانی، اور رہبری ورہنمائی کا جو کردار ہے'وہ آفتاب نیم روز کی طرح روشن اور نمایاں ہے' قیادت جب بصیرت سے آشنا ہوتی ہے،اس کی نظریں فلک رسا ۔۔اس کا شعور سمندروں کی طرح گہرا۔۔۔اس کی فراست بجلی کی طرح تیز رفتار۔۔۔اس کے عزائم چٹانوں کی طرح غیر متزلزل۔۔ اس کا جذبہ آسمان کی طرح بلند اور اس کی نیتیں چشمۂ صافی کی مانند شفاف ہوتی ہیں'۔۔

تو ملتیں ارتقاء کے آسمانوں میں پرواز کرتی ہیں'۔ قومیں کامیابی کے سفر پر گامزن ہوتی ہیں'۔ سمت سفر ان کی نگاہوں میں سورج کی طرح روشن رہتی ہیں۔ وقت کے تقاضوں کا ادراک اور زمانے کے بدلتے مزاج کا گہرا شعور ان کی شناخت ہوتی ہے۔ اور پھر اسی شعور و آگہی کی روشنی میں علم و تحقیق کے ہفت افلاک ان کے قدموں میں ہوتے ہیں۔ اقتصادی قلعوں کی فصیلوں پر انہیں کی کمندیں رہتی ہیں۔ دنیا کی فرمانروائی ان کا مقدر اور دیگر اقوام عالم کی قسمتوں کے فیصلے ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔

عالم اسلام کی زریں تاریخ کے علاوہ اٹھارویں صدی کے اوائل تک بر صغیر کے افق پر قوم مسلم کے عروج کا آفتاب پوری شان سے انہیں اوصاف کے ساتھ جگمگا رہا تھا جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔

لیکن قیادت جب مختلف امراض کا شکار ہوئی ، جہاں بانی کے شعور میں کمی آئی، فرائض منصبی کے احساس میں انجماد پیدا ہوا۔۔تو مجموعی اعتبار سے قوم بھی زوال کا شکار ہوئی ۔اور پھر اس کے عروج و اقبال، سطوت وشوکت کا سورج 1857/میں ایسا غروب ہوا کہ آج تک طلوع کی نوبت نہ آسکی ۔۔۔۔۔

ہندستان کی آزادی کے بعد ملت اسلامیہ ہندکو ہر چند جمعیت علمائے ہند کی شکل میں ایک سائبان میسر تھا،مگر ابتدائی دو دہائیوں کے علاوہ خیمہ قیادت کی طنابیں مضبوطی کے ساتھ قائم نہ رہ سکیں۔جس کی وجہ سے ملت کی اجتماعیت کی بقا مشکل ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرے سیاسی لحاظ سے اس نیشنل تنظیم کا سیاست سے کنارہ کشی کے اعلان اور پھر عملاً اس پر منصوبہ بندی نے اس قوم کی حیثیت کو اس طرح ختم کیا کہ وہ اس میدان میں آوارہ پتوں کی طرح بکھر گئی۔ اس کا وجود بے حیثیت ہوکر رہ گیا۔ اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صدا کے مانند ہوکر رہ گئی۔

سیاست جن کا حق تھا،جو اس کے اسرار سے آشنا تھے، جنھوں نے ملک کی سالمیت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔جب میدان ان سے خالی نظر آیا ، تو ان لوگوں نے اس وادی میں قدم رکھا، جن کے قلوب بصیرتوں سے ناآشنا تھے، جن کی نگاہیں محدود اور دل تعصب کی وجہ سے تنگ تھے،مفاد کا حصول ،اقتدار پر قبضہ جن کا نصب العین تھا، نہ انہیں وقت کے تیور کا ادراک تھا۔نہ ہی مستقبل کے ہوشربا طوفان کے اشاروں کا شعور۔ انہیں قوم کی فکر تھی نہ ہی ملک کے تحفظ کی، ضمیر وظرف کی سوداگری ان کا مزاج اور مادہ پرستی اور اقتدار کی ہوس ان کی طبیعت تھی۔۔۔۔ انھوں نے قوم کو ستر سالوں سے اقتدار کا چراغ روشن کرنے کے لئے استعمال کیا اور حصول اقتدار کے بعد دودھ کی مکھی کی طرح کنارے لگا دیا۔اس جرم میں وہ لوگ بھی ہیں' جو نظریاتی اعتبار سے الگ ہیں۔ وہ بھی ہیں' جو وحدانیت کے دعوے دار ہیں'۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملی،تعلمیمی ،سماجی ،معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے یہ اس قوم پر جس قدر بصیرت مند اور درد مند،قیادت کاطویل یتیمی دور گذرا ہے' شاید ہی دنیا کی کوئی قوم ہو جو اس طرح قیادت سے محروم ہو۔

اس سرمائے سے محرومی کی سب سے بڑی وجہ شعور و آگہی سےمحرومی اور اسلامی مزاج سے ناواقفیت ہے'جس کا نتیجہ اختلاف انتشار،کی صورت میں ہر سو نظر آتا ہے'،کسی مسئلہ پر اتحاد کی کہیں رمق بھی دکھائی نہیں دیتی ہے'۔ اور کسی بھی قوم میں جب تعلیمی سرمایہ سے محرومی، فرائض سے پہلو تہی،شعور وادراک کا فقدان، زمانے کی آواز اور وقت کے تقاضوں سے آنکھیں بند کرنے کا عمل، اخلاقی پستی۔دوراندیش اور مخلصانہ رہبروں وبصیرت مندانہ قیادت سے محرومی، پیدا ہوجاتی ہے تو ادبار وپستی اس کا مقدر ہوجاتی ہے۔ ورنہ کسے نہیں معلوم کہ عصر حاضر میں برطانیہ میں محض پانچ فیصد مسلمان ہیں اس کےباوجود وہاں خارجی وزارت ایک مسلم کے ہاتھ میں ہے'۔ اس کے برعکس ہندوستان میں بیس فیصد ملت اسلامیہ ہند کی تعداد کے باوجود ملک کے کسی بھی اہم شعبے میں اس کی نمائندگی نظر نہیں آتی۔ ہر آنے والا وقت اس کے لئے ظلم کا نیا طریقہ سامنے لاتا ہے۔ہر صبح طلوع ہونے والا سورج اس کے لئے تنزل کا ایک نیا پیغام لاتا ہے'، جس میں مظالم وسفاکیت کی لہریں مزید شدت کے ساتھ مختلف رنگوں میں نظر آتی ہیں'۔

مگر اس حوصلہ شکن ماحول میں بھی شعوری قیادت کی کہیں سے آواز نہیں آتی۔یہ امر مسلم ہے'جب تک قیادت بیدار نہیں ہوگی، وقت تقاضوں کو نہیں سمجھے گی، ملت اسلامیہ ہند کی کشتی یونہی ہچکولے کھاتی رہے گی اور وقت اعلان کرتاہے کہ ایک دن تعصب کی خوفناک موجیں اپنے بے رحم حصار میں لے کر اسے فنا کے گھاٹ اتار دیں گی ۔ یہ آواز خیالی اس لیے کہی نہیں جاسکتی کہ انتہائی منظم انداز میں ایک مخصوص نظریہ پورے ملک کی فضاؤں پر پھیلتا چلا جارہا ہے۔جس کے عزائم میں اہل ایمان اور ان کے شعائر کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے مقاصد مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔