قومی قیادت راہبوں سے رندوں کی طرف منتقل

از ، محمد ہارون قاسمی

شاید آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب مسلم قوم کی طرف سے اس کے ساتھ مسلسل ہو رہی نا انصافیوں کے خلاف کوئی ایسی طاقتور اور موثر آواز اٹھی ہے جس نے فضا میں ایک غیر معمولی ہلچل پیدا کردی ہے جس نے حالات کو ایک نیا رخ دیا ہے اور جس نے ایوان اقتدار کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔۔ اور جس نے وقت کے فرعون اور ہامان کو یہ بتا دیا ہے کہ اس سخت جان قوم کو اتنی آسانی سے نہ دبایا جاسکتا ہے نہ مٹایا جاسکتا ہے ۔۔

قابل مبارک باد ہیں جامعہ اور علیگرھ اور ملک کی دیگر یونیورسٹیز کے وہ نو عمر طلباء جو اپنے سروں سے کفن باندھ کر اور اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھکر ملت اسلامیہ کی عظمت اور مادر وطن کے تقدس کی حفاظت کےلئے میدان میں اترے ہیں اور قابل مبارک باد ہیں وہ غیور عوام جنہوں نے انجام سے بے پرواہ ہو کر ان کی آواز پر لبیک کہا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آئے ہیں ۔۔۔

مسلمانوں کی اس احتجاجی تحریک کے اپنے منطقی انجام تک پہنچنے میں تو ممکن ہے کچھ وقت لگے تاہم قوم کی اس اضطرابی جنبش اور ہلکی سی انگڑائی نے ملک کی سیاست میں ایک ہیجان کی کیفیت ضرور پیدا کردی ہے اور وقت کے مغرور حکمرانوں پر یہ واضح کردیا ہے کہ یہ قوم ابھی زندہ ہے ۔۔۔ ابھی مری نہیں ہے ۔۔۔ یہ صرف سوئی ہوئی ہے ۔۔۔ اور بہتر یہی ہے کہ اسے سونے دو ۔۔۔ ورنہ یہ قوم اگر جاگ اٹھی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اضغاث احلام کی تعبیریں الٹی ہوجائیں کیوں کہ یہ قوم ظالم کا ہاتھ پکڑنا بھی جانتی ہے اور مادر وطن کی عزت اور ناموس کی حفاظت کرنا بھی اس کو بہت اچھے سے آتا ہے

اس تحریک کا سب سے اہم اور امید افزا پہلو یہ ہے کہ ان بے مثال اور تاریخی مظاہروں کی قیادت مذہبی پیشوا اور سیاسی قائدین نہیں بلکہ ان کی قیادت یونیورسٹیز کے نوجوان اسٹوڈنٹس پردہ نشیں لڑکیاں اور عام عوام کررہے ہیں ۔۔۔ اس آواز میں خلوص ہے للہیت ہے اور ملی تحفظ اور قومی ہمدردی کا سچا اور مخلصانہ جذبہ ہے اور یہ آواز کسی تاریک حجرہ کسی عزلت کدہ یا کسی روحانی مرکز سے نہیں بلکہ یہ آواز ہند کے میکدوں سے اٹھی ہے ۔۔۔ جو اس بات کا صاف اعلان ہے کہ نام نہاد اہل جبہ و دستار زاہدوں ۔ خاندانی اور موروثی مرشدوں ملت فروش علماء سوء اور نفس پرست رہنماؤں کا وقت اب پورا ہوچکا ہے اور اب قوم مسلم کی قیادت بدکردار راہبوں سے روشن ضمیر رندوں کی طرف منتقل ہو نے کا وقت آگیا ہے ۔۔۔۔ اور یہ صرف ہمارا کوئی وہم اور قیاس نہیں ہے بلکہ ملت کا ذی شعور سنجیدہ فکر ارباب علم و دانش کا طبقہ اس کو اسی نظریہ سے دیکھ رہا ہے ۔۔۔ جامعہ ملیہ کے سابق وائس چانسلر اور دہلی کے سابق گورنر جنرل نجیب جنگ نے این ڈی ٹی وی سے اپنی خصوصی بات چیت میں حکومت ہند کو مشورہ دیا ہے کہ وہ موجودہ مسئلہ( سی اے بی اور این آر سی ) پر مسلمانوں کے خدشات اور تحفظات کو سنے اور ان سے بات کرے انہوں نے خاص طور پر حکومت سے کہا ہے کہ وہ یہ بات چیت ملاوں(ملت فروش مذہبی ٹھیکیداروں) سے نہ کرے بلکہ جامعہ اور علی گڑھ وغیرہ کے اسٹوڈنٹس اور پولٹیشن سے بات چیت کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کیجئے ،، حکومت ملاوں سے بات نہ کرے ،، نجیب جنگ کا یہ ایک نہایت اہم درست اور دانشمندانہ مشورہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نجیب جنگ کوئی عام آدمی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک عظیم دانشور اور سنجیدہ فکر کے حامل ایک دور اندیش انسان ہیں جن کی قومی اورملکی سیاست پر بڑی گہری نگاہ ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اس صاف ستھری تحریک پر اس منحوس طبقہ کا سایہ پڑگیا تو یہ تحریک اپنی ممکنہ تاثیر اور حقیقی معنویت کھودے گی اور اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے گی ۔۔۔۔۔۔۔

اور اس حقیقت کو حکومت بھی اچھی طرح جانتی ہے اور مسلمانوں کی بے ضمیر اور مفاد پرست قیادت بھی اس سے بخوبی آگاہ ہے ۔۔۔۔ اور یہ دونوں حریف اس اعصاب شکن تحریک کو سبوتاژ کرنے اور اس کو بے اثر بنانے کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔۔۔

لہذا مسلمانوں کو بڑی سمجھداری اور دانشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور ان کو یہاں چند باتوں کا خاص خیال رکھنا ہوگا ۔۔۔ ان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ ایک انتہائی اہم اور نازک مقام پر کھڑے ہیں ۔۔۔ اور جس تحریک کو انہوں نے اٹھایا ہے یہ تحریک ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی اگر ان کی یہ تحریک کامیاب ہوگئی اور انشاءاللہ ضرور ہوگی ۔۔۔ تو پھر ان کے بہت مسائل حل ہونگے اور اپنی تقدیر کے وہ خود مالک ہوں گے ۔۔۔ اور اگر خدا نخواستہ ان کی یہ تحریک بغیر کسی نتیجہ کے دم توڑ گئ تو پھر ان کے مسائل اور مشکلات میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔

لہذا پوری قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تحریک کی بہر قیمت حفاظت کرے اور اس کو ایک کامیاب منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا تعاون پیش کرے ۔۔۔

اسے حکومت پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ ہمارے نمائندے یہ نفس پرست مذہبی پیشوا اور عیش پسند سیاسی رہنما نہیں ہیں بلکہ ہمارے نمائندے یہ نوجوان اسٹوڈنٹس اور پولٹیشن ہیں جنہوں نے اپنے خون سے تاریخ کی ایک نئی عبارت لکھی ہے اور جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر قوم کو ایک نئی زندگی دی ہے ۔

ہمیں ہشیار رہنا ہوگا ان ملت فروش قائدین سے جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ نوجوان اسٹوڈنٹس کے ذریعہ اٹھائی جانے والی یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو کیوں کہ انہیں پہلی مرتبہ اپنے قصر قیادت کی بنیادیں ہلتی نظر آرہی ہیں ۔۔۔ یہاں علماء حق کا رول بھی بڑا اہم ہوجاتا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوان نسل سے نمودار ہونے والی اس نو خیز قیادت کے سر پر ہاتھ رکھیں اس کی پشت پناہی کریں اس کو ہمت دیں اس کو حوصلہ دیں اور اس کو اپنا مخلصانہ تعاون فراہم کریں اور اس کے لئے بارگاہ ایزدی میں دعا کریں کہ خدا تعالی ان نوجوان سرفروشوں کی اس عظیم جدوجہد اور قربانی کو قبول فرمائے اور دین و ملت کے لئے اس کو مفید اور نافع بنائے ۔۔ آمین یا رب العالمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ ۔۔۔۔۔۔ یہ چند سطریں حالت سفر میں یوں ہی بلا ترتیب لکھی گئی ہیں قارئین حضرات ان پر اپنے تاثرات کا اظہار فرمائیں ۔ جزاک اللہ

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔