رب دوجہاں کی میزبانی بصورت عید الفطر

رب دوجہاں کی میزبانی بصورت عید الفطر

شرف الدین عظیم قاسمی

قومیں اور ملتیں جب اپنے اہم مقاصد کے قلعوں کو سر کرتی ہیں'، پر مشقت راہوں اور پر پیچ وادیوں کا سفر طے کرکے منزلوں پر پہونچتی ہیں'، سفینے ساحلوں سے ہم کنار ہوتے ہیں، اجنبی سرزمینوں پر ان کی فتوحات کے پرچم لہراتے ہیں'۔۔۔۔۔۔ تو فطری طور پر ان کے قلوب میں مسرتوں کی رو دوڑ جاتی ہے'،وہ اپنی اس کیفیات کا اظہار کرتی ہیں،جشن فتح مناتی ہیں، سرور کی محفلیں منعقد کرتی ہیں۔۔مختلف طریقوں سے وہ خوشیوں کی بزم سجاتی ہیں۔

انسانی فطرت کے مطابق آج کا دن بھی ایسا ہی پس منظر رکھتاہے ،فرق یہ ہے'کہ اہل اسلام کا عظیم الشان فریضہ جس کی تکمیل بندوں نے کی ہے،اس کا نفاذ بھی خداوند عالم کی طرف سے تھا اور اس کا جشن بھی اسی رب العالمین کی طرف ہے'۔۔

رب دوجہاں نے اپنے بندوں کو ایک مہینے مخصوص عبادتوں کا حکم دیا تھا۔اکل وشرب پر پابندیاں عائد کی تھیں، راتوں میں تراویح کی صورت میں اضافی عبدیت کے قیام کا حکم دیا تھا۔ اور بندوں نے پورے اہتمام سے روزے رکھے، اس کی راہوں میں اپنے اموال خرچ کئے، اذکار واوراد اور دوسری عبادات کی طرف مکمل ذوق وشوق سے توجہ کرکے قرب الہٰی کے حصول کی کوششیں کیں۔

ظاہر ہے'اس کا خوشگوار نتیجہ معبود حقیقی کی رضا اور خوشنودی کی صورت میں ظاہر ہونا لازمی ہے۔سو۔۔ آج کا دن نہ صرف ایک فرد۔ایک خاندان،ایک قبیلہ،ایک خطہ،یا ایک قوم کے لئے ۔بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے خوشیوں کا لمحہ ہے۔ آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے'جس میں خالق دوجہاں اپنے بندوں کا میزبان ہوتاہے اور پوری امت مسلمہ اس کی مہمان۔ کسے نہیں معلوم کہ شہنشاہوں کی میزبانی ایک انسان کے لئے سرمایہ افتخار ہے'،یہی وجہ ہے کہ آج پوری خلقت ہی نہیں بلکہ خدا بھی خوشی سے سرشار ہے'، فرشتوں کی محفلوں میں شادیانے بجتے ہیں، مہمانوں کا استقبال ہوتاہے ‌۔اہل ایمان عید کے دن نہا دھو کر،خوبصورت کپڑے زیب تن کرکے،خوشبؤوں میں پورے وجود کو بسا کر خراماں خراماں تشکر وامتنان کے جذبات کے عید گاہ کا رخ کرتے ہیں تو وسیع شاہراہوں پر، بھرے پرے چوراہوں پر،گلیوں کے نکڑوں پر فرشتوں کی جماعتیں استقبال کرتی ہیں،اور ان جاں نواز جملوں سے ان کا خیر مقدم کرتی ہیں،،اے محمد کے امتیو۔۔ چلو تم اس کریم پروردگار کی طرف جو بے انتہا نوازنے والا ہے'،بڑی سے بڑی خطاؤں کو معاف کرنے والا ہے۔ اے مسلمانو! اپنے اس مہربان آقا کی بارگاہ کارخ کرو،جو نیکیوں کی توفیق بھی دیتا ہے'،اور نیکیوں کا حد سے زیادہ بدلہ بھی عطا کرتاہے،تمہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا،اور اس کی تعمیل میں بے تکلف تم نے روزے رکھے، تمہیں راتوں میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تم نے اخلاص کے ساتھ نمازیں ادا کیں۔تم نے اپنے رب کی اطاعت کرکے فرماں بردار بندے کا ثبوت فراہم کردیا ہے'،آج تمہارے لیے انعامات اور اعزازات کا دن ہے'اس لیے بارگاہ اقدس میں قدم بڑھاؤ اور اپنے انعامات حاصل کرلو۔۔۔

کس قدر خوش نصیب ہیں وہ بندے جن کی اطاعت اور بندگی کے متعلق ملاء اعلٰی کی محفلوں میں خوبصورت چرچے ہیں، بارگاہ قدس میں رب دوجہاں عالم افتخار میں فرشتوں سے ہمکلام ہے'، اہل ایمان کو نعمتوں سے مزید سرفراز کرنے کے لئے منصوبہ بندی ہورہی ہے،پروردگار عالم فرشتوں سے پوچھتا ہے'۔ ،،ماجزاء الاجیر اذا عمل عملہ،، اگر کوئی مزدور اپنا کام پورا کردے تو اس کا بدلہ کیا ہونا چاہیے؟ قدسیوں کی جماعت عرض کرتی ہے' الھنا وسیدنا جزاءہ ان توفیہ اجرہ،،اے ہمارے آقا ومولا۔ اس کا حق تو یہ ہے کہ اسے مکمل صلہ عطا کیا جائے۔ رب العالمین کا اعلان ہوتاہے۔ اے میرے فرشتو تم گواہ رہنا،میرے ان بندوں نے پورے مہینے جو راتوں میں جاگ کر نمازیں ادا کی ہیں'،دنوں کو روزے کی حالت میں گذارا ہے'ان کے بدلے میں میں نے انہیں مغفرت کا پروانہ اور اپنی محبتوں کی سوغات عطا کردی ہے'،،

پروردگار عالم تمام بندوں کا خالق ہے' ،ہر خالق کو اپنی تخلیقات سے محبت ہوتی ہے'جبکہ ان کا تخلیقی عمل مجازی ہوتاہے پھر حق تعالیٰ جس نے حقیقتا تمام مخلوقات کو وجود بخشا ہے اس کی محبت کا کیا عالم ہوگا، اس محبت کا ایک منظر اس روایت میں دیکھتے چلیں اور خالقِ کائنات کی عطائے بے بہا کا اندازہ کرتے چلیں جس میں خود وہ بندوں سے فرط محبت سے ہمکلام ہے'،،اے میرے بندو! جو کچھ بھی مانگنا ہے'بے تکلف مانگو،میری عزت وجلال کی قسم،آج تم آخرت کی جس نعمت کا سوال کرو گے میں عطا کردوں گا اور دنیا کی جو چیز بھی مانگو گے اس کا خیال کروں گا

میری عزت کی قسم! تم جب تک مجھ سے غافل نہیں ہوگے، جب تک تم مجھ سے تعلق قائم رکھے رہو گے،میں تمہاری لغزشوں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ میری عزت و جلال کی قسم۔میں مجرموں کے ساتھ تمہیں کبھی رسوا نہیں ہونے دوں گا،جاؤ ،میں نے تمہارے تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے'،تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی،میں تم سے راضی ہوگیا،،

ایک انسان کے لیے اس سے زیادہ خوش بختی اور کیا ہوسکتی ہے'کہ اسے محبوب کی رضا حاصل ہوجائے، اس کی عنایات اور اس کے الطاف کا وہ مورد بن جائے،لاریب ،خالق کی طرف سے یہ اعلان محبت، ندائے مغفرت، صدائے الفت اور اظہار قربت ایک عظیم الشان اعزاز ہے'، وہ اعزاز! کائینات کی تمام رنگینیاں جس پر نثار اور دنیا کے تمام مناصب و مراتب جس پر قربان۔

تاہم یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے'کہ عہدے مناصب تمغوں اور اعزازات کا حصول جس قدر اہم ہے'اس سے کہیں زیادہ اہم ان کی حفاظت اور قدر دانی ہے'،رب کے فرمان میں مسرتوں کی کرنوں کے ساتھ اس راز سے بالکل پردہ اٹھا دیا گیا ہے'کہ خدا کی اطاعت کے نتیجے میں،رب کی فرمانبرداری کے صلے میں جو محبتوں کے تاج عطا ہوئے ہیں اس کی حفاظت کی ہر آن ہر لمحے ہونی چاہیے،بصورت دیگر چاہتوں کا وہ تخت اور قیمتی تاج سلب بھی کیا جاسکتا ہے'، عید کے پر مسرت موقع پر فرشتوں کی طرف سے یہی پیغام عطا کیا جاتا ہے'کہ جس طرح رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں رب کے اشارے پر پورے دن بھوک کی مشقت برداشت کی ہے'، گھر میں کھانا موجود تھا مگر اس کی طرف نگاہ غلط انداز بھی نہیں کیا کہ پروردگار کی مرضی نہیں تھی۔ دھوپ کی تمازت اور گرمی کی شدت کی وجہ سے حلق میں کانٹے چبھ رہے ہیں سامنے پانی ہے'مگر ایک قطرہ زبان پر لانا بندے نے اس لیے گوارا نہیں کیا کہ اس کے رب کی اجازت نہیں ہے'جبکہ اسی زمین پر اسی ماحول میں اور اسی سماج میں ایسے بے شمار انسان بھی تھے جو حلال وحرام سے بے پروا زندگی کے مزے لوٹنے میں مست تھے۔

اسی ایمانی قوت اور عبدیت کے جذبہ بیکراں کے ساتھ اطاعتِ رب العالمین ورسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر زندگی کے ہر مرحلے میں جاری رہنا چاہیے،جس طرح رمضان المبارک کے دنوں میں بندے نے کلام الٰہی سے اپنا رشتہ جوڑا ہے' اس کی تلاوتوں سے قلب کو روشن کیا ہے'،اس کے احکامات پر غوروفکر کی کوشش کی ہے'،رب کی محبت اور اعزاز کا تقاضا ہے'کہ رمضان کے بعد بھی اس تسلسل میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے، اس کے شوق عمل کی کھتیوں پر غفلتوں کی دھوپ نہ پڑ سکے، اس کے جذبات کسی موقع پر سرد نہ ہونے پائیں،۔۔۔

معبود حقیقی کی رضا و خوشنودی اور اس کے عطا کردہ تاج محبت کی یہ اہم صدا ہے'کہ ماہ مقدس میں بندے نے جس طرح اپنے دوسرے نادار بھائیوں کی ضروریات کا احساس کیا ہے'، جس طرح مساکین کے احوال کی فکر کی ہے'،جس طرح ان کی حاجات کا خیال رکھا ہے'،جس طرح ان کی زندگیوں پر ان کے اہل خانہ پر اپنے اموال کو خرچ کیا ہے'، جس طرح انفاق کے ذریعے ایثار و ہمدردی کا ثبوت دیا ہے، رمضان المبارک کے بعد بھی ایثار کی کھتیاں اسی طرح سرسبز و شاداب ہونی چاہیے، اللہ کی راہوں میں خرچ کرنے کا مزاج اسی طرح باقی رہنا چاہیے، ہر موقع اور ہر مقام پر ملت کے درد سے وجود لبریز اور اور قوم کی فکر وتڑپ سے قلب روشن رہنا چاہیے، نیکیوں کی بہاروں میں انقلاب کی یہ فضا اگر دوسرے ایام میں بھی بدستور باقی رہی، طاعات کے جذبات جوان اور شاداب رہے، شوق عمل کے شعلے ارتقاء کی طرف گامزن رہے تو یقینا زندگی نے اپنے خدا کے اعزاز اور محبتوں کے تاج کی حفاظت کرلی ہے'،اس کی زندگی اس دنیا میں بھی کامیاب ہے'اور آخرت میں بھی سرخ رو ہے'،کہ عید کے لمحات دیگر اقوام کی عیدوں کی طرح مخصوص وقت کے لئے محض تفریح کا ذریعہ نہیں کہ انسان چند گھنٹے رنگ رلیاں منا کراور خوردونوش اور رقص و سرود کی محفلیں سجا کر لطف اندوز ہولے اور پھر دوسرے دنوں کی طرح ذہن ودل سے محو کردے،

بلکہ توفیق الٰہی کے نتیجے میں نیکیوں کی سوغات پر ایک لمحہ تشکر وامتنان ہے'، ماضی میں سرزد ہونےوالی خطاؤں اور لغزشوں پر ندامت ، تقصیرات پر استغفار ، اور خالق حقیقی سے وفاداری کے اظہار اور سچے دل سے اس سےعہد وقرار کا دن ہے،جس میں مؤمن ایک طرف اس کی تکبیر و تہلیل اور اس کی کبریائی کے ترانے میں مست رہتا ہے تو دوسری طرف خوشیوں سے لبریز اس موسم فرحت و انبساط بھی وہ بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر عاجزی کا اظہار کرتا ہے اور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ بارالہ عید کی صورت میں یہ نعمتیں صرف اور صرف تیری عطا ہے'، زندگی اور زندگی کی راحتیں تیری ہی بندہ پروری کا نتیجہ ہے،ہم کل بھی تیرے محتاج تھے آج بھی تیری بارگاہ میں سراپا عجز و انکسار ہیں،

یہی وہ جذبہ ہے'اور یہی وہ اعتراف عجز ہے'جو انسان کو بندگی کی معراج عطا کرتاہے،اور اس اوپر رحمت الٰہی کی چادر تان دیتاہے،وہ شدید رنج و الم میں بھی اپنے خدا کے اعتماد اور اس پر ایمان کے سرمائے کو مجروح نہیں ہونے دیتا اور حالات کی آسائشوں اور زندگی کی بے شمار دولتوں میں بھی اپنے خدا اور اس کے فضل وکرم سے آنکھیں بند نہیں کرتا،غور کریں'تو یہی چیز انسان کی سرفرازی کا راز ہے'۔عید الفطر اسی راز کا انکشاف کرتی ہے'،اور اسی راستے کی رہنمائی کرتی ہے'جس خوشیاں سرمد اور مسرتیں لازوال ہوجاتی ہیں۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی مسجد انوار شواجی نگر گوونڈی

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔