آیات قرآنی:
"اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو"(البقرہ:183) ، "رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ حق دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ، لہذا جو شخص اس مہینہ کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے" (البقرہ 185)
احادیث مبارکہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔(بخاری ومسلم)
طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی پریشان حال بال بکھرے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے پوچھا : یا رسول اللہ ! بتائیے مجھ پر اللہ تعالیٰ نے کتنی نمازیں فرض کی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ نمازیں ، یہ اور بات ہے کہ تم اپنی طرف سے نفل پڑھ لو ، پھر اس نے کہا بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر روزے کتنے فرض کئے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے ، یہ اور بات ہے کہ تم خود اپنے طور پر کچھ نفلی روزے اور بھی رکھ لو ، پھر اس نے پوچھا اور بتائیے زکوٰۃ کس طرح مجھ پر اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے ؟ آپ ﷺ نے اسے اسلام کی باتیں بتا دیں ۔ جب اس اعرابی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو عزت دی نہ میں اس میں اس سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کر دیا ہے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ مراد کو پہنچایا (آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) اگر سچ کہا ہے تو جنت میں جائے گا ۔(بخاری)
حضرت ابی جمرہ فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس بیٹھا کرتا تھا وہ مجھ کو خاص اپنے تخت پر بٹھاتے (ایک دفعہ) کہنے لگے کہ تم میرے پاس مستقل طور پر رہ جاؤ میں اپنے مال میں سے تمہارا حصہ مقرر کر دوں گا ۔ تو میں دو ماہ تک ان کی خدمت میں رہ گیا ۔ پھر کہنے لگے کہ عبدالقیس کا وفد جب نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا مرحبا اس قوم کو یا اس وفد کو نہ ذلیل ہونے والے نہ شرمندہ ہونے والے (یعنی ان کا آنا بہت خوب ہے) وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے ۔ پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجئیے جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور انہوں نے آپ سے اپنے برتنوں کے بارے میں بھی پوچھا ۔ آپ ﷺ نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا ۔ ان کو حکم دیا کہ ایک اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ ۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ جانتے ہو ایک اکیلے اللہ پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ (مسلمانوں کے بیت المال میں) داخل کرنا اور چار برتنوں کے استعمال سے آپ ﷺ نے ان کو منع فرمایا ۔ سبز لاکھی مرتبان سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے ، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے ، اور روغنی برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں ۔ حدیث متعلقہ ابواب: مال غنیمت کا پانچواں حصہ ، خمس ادا کرنا ۔ چار قسم کے برتنوں میں پینا منع ہے ۔(بخاری )
حضرت ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !)ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔(اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے)پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ (بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔ (نوٹ: صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے۔(بخاری و مسلم )
ام المؤمنین عائشہ ؓ نے فرمایا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے ۔(بخاری و مسلم )
سلمہ بن اکوع ؓ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی "وعلى الذين يطيقونہ فديۃ طَعام مسكين"(اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں )تو جس کا جی چاہتا تھا روزہ چھوڑ دیتا تھا اور اس کے بدلے میں فدیہ دے دیتا تھا ۔ یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی اور اس نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا ۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ بکیر کا انتقال یزید سے پہلے ہو گیا تھا ۔ بکیر جو یزید کے شاگرد تھے یزید سے پہلے ہی مر گئے تھے ۔ (بخاری )
صحیح مسلم کی روایت میں یہ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہمارا عمل یہ تھا کہ جو چاہتا روزہ رکھتا اور جو چاہتا روزہ چھوڑ دیتا اور کسی مسکین کو کھانا کھلا دیتا حتی کہ یہ آیت "وعلى الذين يطيقونہ فديۃ طَعام مسكين"( اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں )نازل ہوئی۔(مسلم)
ماہ رمضان کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں کس دیا جاتا ہے ۔ (بخاری و مسلم )
ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رمضان کے سوا نبی کریم ﷺ نے کبھی پورے مہینے کا روزہ نہیں رکھا ۔ آپ ﷺ نفل روزہ رکھنے لگتے تو دیکھنے والا کہہ اٹھتا کہ بخدا ، اب آپ بے روزہ نہیں رہیں گے اور اسی طرح جب نفل روزہ چھوڑ دیتے تو کہنے والا کہتا کہ واللہ ! اب آپ ﷺ روزہ نہیں رکھیں گے ۔(بخاری و مسلم )
ححضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا ، کہ رسول اللہ ﷺ نفل روزہ رکھنے لگتے تو ہم (آپس میں) کہتے کہ اب آپ ﷺ روزہ رکھنا چھوڑیں گے ہی نہیں ۔ اور جب روزہ چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں ۔ میں نے رمضان کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کو کبھی پورے مہینے کا نفلی روزہ رکھتے نہیں اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔(بخاری و مسلم )
عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے دریافت کیا کہ :کیا رسول اللہ ﷺ کا رمضان کے علاوہ کوئی متعین روزہ تھا ؟ تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم آپ نے سوائے رمضان کے کسی خاص مہینے کے روزے نہیں رکھے حتیٰ کہ آپ نے وفات پا لی ، اور نہ ہی پورے ماہ بغیر روزے کے رہے ، کچھ نہ کچھ روزے اس میں ضرور رکھتے ۔(مسلم ،ترمذی )
ایک اور روایت میں عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: "میں نے مدینہ منورہ آنے کے بعد سے کبھی آپ ﷺ کو رمضان المبارک کے علاوہ پورا مہینہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔(مسلم)
ححضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے"پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے درمیان سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں، مگر یہ کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔"(مسلم ، مسند احمد )
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں ، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا ، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا ، منادی پکارتا ہے : اے بھلائی کے چاہنے والے ! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ ، اور اے برائی کے چاہنے والے ! اپنی برائی سے رک جا ، کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے ، اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے ۔(ابن ماجہ)
حضرت ابی بکرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دومہینے (عید سے) ناقص (خالی) نہیں رہتے ۔ مراد رمضان اور ذی الحجہ کے دونوں مہینے ہیں ۔(بخاری )
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : " رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے ، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں ، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں ، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں ، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا " ۔(نسائی)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے (شعبان کی آخری تاریخوں میں) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے ۔ حدیث متعلقہ ابواب: رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھنا ۔(بخاری )
عبادات کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے ۔(بخاری و مسلم )
حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کوئی رمضان میں (راتوں کو) ایمان اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔(بخاری و مسلم )
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر ‘ اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا ‘ فرض نماز قائم کر ‘ فرض زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا ۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے ۔ (بخاری و مسلم )
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ روزہ کس طرح رکھتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ کو اس کے اس سوال پر غصہ آ گیا ، عمر ؓ نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا"رضينا باللہ ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا نعوذ باللہ من غضب اللہ ومن غضب رسولہ" "ہم اللہ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے ، اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی و مطمئن ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں " عمر ؓ یہ کلمات برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : "ہر ماہ کے تین روزے اور رمضان کے روزے ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہیں ۔"(مسلم ، ابو داؤد )
حضرت ابوایوب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : "جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے " ۔ (مسلم ، مسند احمد )
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : " ماہ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے محرم کے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے ، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات کی نماز (تہجد) ہے" ۔(مسلم، ابو داؤد، ترمذی)
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : " اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ شخص مجھ پر درود نہ بھیجے ، اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر گیا ، اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں پایا ہو اوروہ دونوں اسے ان کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنے کی وجہ سے جنت کا مستحق نہ بناسکے ہوں (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ جنت میں داخل کرے گا خواہ اللہ کے راستے میں وہ جہاد کرے یا اسی جگہ پڑا رہے جہاں پیدا ہوا تھا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کئے ہیں ‘ ان کے دو درجوں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین میں ہے ۔ اس لیے جب اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا سب سے درمیانی حصہ اور جنت کے سب سے بلند درجے پر ہے ۔ یحییٰ بن صالح نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں یوں کہا کہ اس کے اوپر پروردگار کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں ۔ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے "وفوقہ عرش الرحمن" ہی کی روایت کی ہے ۔(بخاری )
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ سے رمضان میں ملتے ، جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا ۔ نبی کریم ﷺ جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے ، جب جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے ۔(بخاری و مسلم )
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو آپ ﷺ نے ام سنان انصاریہ عورت ؓ سے دریافت فرمایا کہ تو حج کرنے نہیں گئی ؟ انہوں نے عرض کی کہ فلاں کے باپ یعنی میرے خاوند کے پاس دو اونٹ پانی پلانے کے تھے ایک پر تو خود حج کو چلے گئے اور دوسرا ہماری زمین سیراب کرتا ہے ۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔(بخاری و مسلم )
حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا ، ایک دن میں صبح کو آپ سے قریب ہوا ، اور ہم چل رہے تھے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے ، اور جہنم سے دور رکھے ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے ، اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان کر دے ، تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو ، نماز قائم کرو ، زکاۃ دو ، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو “ ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے نہ بتاؤں ؟ روزہ ڈھال ہے ، صدقہ گناہوں کو ایسے ہی مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے ، اور آدھی رات میں آدمی کا نماز (تہجد) ادا کرنا “ ، پھر آپ ﷺ نے یہ سورۃ السجدۃ آیت 16، 17 (ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وه خرچ کرتے ہیں کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے)تلاوت فرمائی پھر فرمایا : ” کیا میں تمہیں دین کی اصل ، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتا دوں ؟ وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے “ ، پھر فرمایا : ” کیا ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتا دوں “ ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں ضرور بتائیے ، تو آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا : ” اسے اپنے قابو میں رکھو “ ، میں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! کیا ہم جو بولتے ہیں اس پر بھی ہماری پکڑ ہو گی ؟ ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” معاذ ! تیری ماں تجھ پر روئے ! لوگ اپنی زبانوں کی کارستانیوں کی وجہ سے ہی اوندھے منہ جہنم میں ڈالے جائیں گے “ ۔(ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک الحاکم)
سحرى :
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سحری کھایا کرو کیونکہ اس میں برکت ہے (بخاری ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ اس وقت سحری کر رہے تھے تو آپ نے فرمایا سحری کرنا برکت ہے جو اللہ تعالی نے تمہیں عطا کی ہے لهذا اسےمت چهوڑو(سنن نساءی)
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں قیام الیل کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن اس کا تاکیدی حکم نہیں فرماتے تھے چنانچہ آپ فرماتے جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور اللہ کی رضا کے لئے قیام الیل کیا تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے گئے (مسلم)
حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ ہم رمضان کی تئیسویں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہائی رات تک نماز ادا کرتے رہے پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک اور ستائیسویں رات کو اتنی دیر تک نماز ادا کرتے رہے ہیں سحری کے وقت کے نکل جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا (نسائی)
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی ۔ صحابہ نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ یہ نماز پڑھی ۔ دوسری رات بھی آپ ﷺ نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہو گیا تھا ۔ لیکن نبی کریم ﷺ اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے ۔ صبح کے وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ جتنی بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے ۔ میں نے اسے دیکھا لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے ۔ یہ رمضان کا واقعہ تھا ۔(بخاری )
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں"لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ"(بخاری و مسلم )
عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا ۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے ، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا ، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے ۔ اس پر عمر ؓ نے فرمایا ، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا ، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب ؓ کو ان کا امام بنا دیا ۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں ۔ عمر ؓ نے فرمایا ، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں ۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے ۔(بخاری، سنن بیہقی، موطا امام مالک )
رمضان المبارک کا آخری عشرہ
حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے ۔ (بخاری و مسلم )
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت) میں ایسی محنت کرتے تھے کہ ویسی آپ اور دنوں میں نہیں کرتے تھے ۔ (مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ )
اعتکاف
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں ابو سعید خدری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میں نے عرض کی کہ فلاں نخلستان میں کیوں نہ چلیں سیر بھی کریں گے اور کچھ باتیں بھی کریں گے ۔ چنانچہ آپ تشریف لے چلے ۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے راہ میں کہا کہ شب قدر سے متعلق آپ نے اگر کچھ نبی کریم ﷺ سے سنا ہے تو اسے بیان کیجئے ۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ گئے ، لیکن جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں (رات) وہ آگے ہے ۔ چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف کیا اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی ۔ جبرائیل علیہ السلام دوبارہ آئے اور فرمایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ (رات) آگے ہے ۔ پھر آپ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ دیا ۔آپ نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ کرے ۔ کیونکہ شب قدر مجھے معلوم ہو گئی لیکن میں بھول گیا اور وہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے اور میں نے خود کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا ۔ مسجد کی چھت کھجور کی ڈالیوں کی تھی ۔مطلع بالکل صاف تھا کہ اتنے میں ایک پتلا سا بادل کا ٹکڑا آیا اور برسنے لگا ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی اور میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا اثر دیکھا ۔آپ کا خواب سچا ہو گیا ۔(بخاری و مسلم )
نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں ۔ (بخاری و مسلم )
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے ۔(بخاری و مسلم )
حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، ایک سال سفر کی وجہ سے اعتکاف نہیں کر سکے تو اگلے سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔(ابو داؤد، ابن ماجہ )
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ "رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔"(بخاری )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "مجھ کو شب قدر دکھائی گئی پھر مجھے میرے گھر والوں نے بیدار کردیا تو میں بھول گیا، لہٰذا تم آخری عشرہ میں اس کو تلاش کرو۔"(مسلم ، سنن دارمی)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی اکیسوئیں یا تئیسوئیں یا پچیسوئیں راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو)۔(بخاری، ابو داؤد، مسند احمد )
ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا شب قدر رمضان کے (آخری) عشرہ میں پڑتی ہے ۔ جب نو راتیں گزر جائیں یا سات باقی رہ جائیں ۔ آپ ﷺ کی مراد شب قدر سے تھی ۔(بخاری )
حضرت عبادہ بن صامت ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتا دوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا ۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا ۔ پس اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (کی راتوں) میں کیا کرو ۔(بخاری، سنن دارمی، موطا امام مالک )
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں ۔ اس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے ۔(بخاری و مسلم )۔
حضرت عبداللہ ابن انیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ "مجھے یہ رات (شب قدر) دکھائی گئی لیکن پھر بھلوا دی گئیمیں نے (خواب میں) اپنے کو دیکھا کہ اس رات کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں ۔ پھر تیئسویں رات کو بارش ہوئی پھر نبی کریم ﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی اور رسول اللہ ﷺ کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا اثر تھا ۔(مسلم، صحیح ابن خزیمہ)
حضرت عیینہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ ابوبکرہ ؓ کے پاس شب قدر کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا : ” جس چیز کی وجہ سے میں اسے صرف آخری عشرے ہی میں تلاش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک بات سنی ہے ، میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے : ” تلاش کرو جب (مہینہ پورا ہونے میں) نو دن باقی رہ جائیں ، یا جب سات دن باقی رہ جائیں ، یا جب پانچ دن رہ جائیں ، یا جب تین دن رہ جائیں “ ۔ ابوبکرہ ؓ رمضان کے بیس دن نماز پڑھتے تھے جیسے پورے سال پڑھتے تھے لیکن جب آخری عشرہ آتا تو عبادت میں خوب محنت کرتے ۔(ترمذی، صحیح ابن خزیمہ، مستدرک الحاکم ،)
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب ؓ سے کہا : ابومنذر ! مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیے ؟ اس لیے کہ آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود ؓ سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : جو پورے سال قیام کرے اسے پا لے گا ، ابی ابن کعب ؓ نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن پر رحم فرمائے ، انہیں یہ ناپسند تھا کہ لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں،انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ رات رمضان میں ہے ۔یقینا یہ رات رمضان میں ہے اورآخری عشرہ میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے ،اور انہوں نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ وہ ستائیسویں رات ہی ہے ، میں نے پوچھا : اے ابومنذر ! آپ کو یہ کیوں کر معلوم ہوا ؟ انہوں نے جواب دیا : اس علامت سے جو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو بتائی تھی ۔ (عاصم کہتے ہیں میں نے زر سے پوچھا : وہ علامت کیا تھی ؟ جواب دیا : اس رات (کے بعد جو صبح ہوتی ہے اس میں) سورج طشت کی طرح نکلتا ہے ، جب تک بلندی کو نہ پہنچ جائے ، اس میں کرنیں نہیں ہوتیں ۔(مسلم، ترمذی )
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے ، آپ نے مہینے کی کسی رات میں بھی ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا یہاں تک کہ (مہینے کی) سات راتیں رہ گئیں ، پھر آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یعنی تیئیسویں (۲۳) یا چوبیسویں (۲۴) رات کو یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی اور جب چھ راتیں رہ گئیں یعنی (۲۴) ویں یا (۲۵) ویں رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا ، اس کے بعد (۲۵) ویں یا (۲۶) ویں رات کو جب کہ پانچ راتیں باقی رہ گئیں آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس رات کاش آپ اور زیادہ قیام فرماتے ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کو ساری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے “ ، پھر چھبیسویں (۲۶) یا ستائیسویں (۲۷) رات کو جب کہ چار راتیں باقی رہ گئیں آپ ﷺ نے پھر قیام نہیں کیا ، پھر ستائیسویں (۲۷) یا اٹھائیسویں (۲۸) رات کو جب کہ تین راتیں باقی رہ گئیں آپ ﷺ نے اپنے گھر والوں ، اپنی عورتوں اور لوگوں کو اکٹھا کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا ، یہاں تک کہ ہمیں خوف ہونے لگا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے ، میں نے پوچھا : فلاح کیا ہے ؟ ابوذر نے کہا : سحر کا کھانا ، پھر آپ ﷺ نے مہینے کی بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا۔(ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ )
سفر میں روزہ
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کے ساتھ رمضان کے مہینے میں جنگ کے لئے نکلتے ھم میں کچھ لوگ روزہ رکھتے اور کچھ لوگ نہ رکھتے تو روزہ رکھنے والے غیر روزہ داروں پر تنقید نہ کرتے اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والے روزے داروں پر تنقید کرتے، لوگوں کا خیال تھا کہ اگر کوئی روزہ رکھ سکتا ہے تو اس نے روزہ رکھا تو یہ بھی اچھا ہے اور اگر کوئی کمزوری محسوس کرتا روزہ نہیں رکھ سکتا تو یہ بھی اچھا ہے صحیح (مسلم)
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں تھے تو اپنے لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور ایک آدمی کو دیکھا جس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ نے پوچھا یہ کیا ہے لوگوں نے بتایا کہ یہ روزے دار ہے تو آپ نے فرمایا بھلائی ہی نہیں ہے کہ سفر میں روزہ رکھا ہی جائے (صحیح بخاری)
محمد بن کعب کہتے ہیں کہ میں رمضان میں حضرت انس کے پاس آیا اس وقت وہ سفر کے ارادے سے تھے ان کی سواری تیار تھی اور وہ سفر کا لباس پہن چکے تھے پھر انہوں نے کھانا منگوا کر کھایا میں نے کہا کیا یہ سنت ہے انہوں نے کہا ہاں سنت ہے اور یہ کہ کر سوار ہوگئے (سنن ترمذی)
حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسی نہر سے ہوا جس میں آسمان سے پانی برسا ہوا تھا لوگ روزے سے تھے بہت سخت گرم دن تھا اور وہ لوگ پیدل چل رہے تھے جب کہ آپ سواری پر سوار تھے آپ نے فرمایا لوگو پانی پی لو لوگوں نے نہیں کیا تو آپ نے فرمایا میری اور تمہاری حالت میں فرق ہے میں آرام سے ہو سواری پر ہو لیکن پھر بھی لوگوں نے پانی نہیں پیا تو آپ اپنی ران کو جھکا کر اترے اور پانی پی لیا تو سب لوگوں نے پیا حالانکہ آپ پانی نہیں پینا چاہ رہے تھے (مسند احمد)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ (فتح مکہ کے موقع پر) مکہ کی طرف رمضان میں چلے تو آپ ﷺ روزہ سے تھے لیکن جب کدید پہنچے تو روزہ رکھنا چھوڑ دیا ۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ عسفان اور قدید کے درمیان کدید ایک تالاب ہے ۔(بخاری و مسلم )
حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے کہا ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے ۔ دن انتہائی گرم تھا ۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ گرمی کی سختی سے لوگ اپنے سروں کو پکڑ لیتے تھے ، نبی کریم ﷺ اور ابن رواحہ ؓ کے سوا کوئی شخص روزہ سے نہیں تھا ۔(بخاری و مسلم )
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ (رمضان میں) سفر کیا کرتے تھے ۔ (سفر میں بہت سے روزے سے ہوتے اور بہت سے بے روزہ ہوتے) لیکن روزے دار بے روزہ دار پر اور بے روزہ دار روزے دار پر کسی قسم کی عیب جوئی نہیں کیا کرتے تھے ۔ (بخاری )ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔