ساوارکر اور محمد علی جناح صحیح تھے

   *ساوارکر اور محمد علی جناح صحیح تھے___!!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*

        *ہندوستان اگرچہ مختلف تہذیب کا گہوارہ رہی ہے، یہاں صدیوں سے لوگ ہجرت کرکے آتے رہے ہیں اور اپنی ثقافت کے ساتھ گزر بسر کرتے رہے ہیں؛ لیکن بیسویں صدی میں انگلش حکومت کے خلاف جب آزادی ہند کی مہم تیز ہوئی اور ایسا لگنے لگا کہ اب ملک آزاد ہوجائے گا، اور ایک قابض و غاصب حکومت سے نجات مل جائے گی، ساتھ ہی ہندوستان کا امتیاز پھر لوٹ آئے گا_ ٹھیک اسی وقت ایک نئی سوچ پنپ رہی تھی، ایک نیا زاویہ فکر اٹھ رہا تھا، ایک نئی لہر چل رہی تھی، وہ یہ کہ ہندوستان ایک ملک نہیں؛ بلکہ دو ملکوں کا حصہ ہے، یہاں مسلمان اور ہندو ممالک الگ الگ ہونے چاہئیں، چنانچہ ۱۹۳۸ میں پہلی بار ساوارکر نے ہندو راشٹر کی فکر دی تھی، اور یہ کوشش بھی ہونے لگی تھی؛ کہ ملک کو ایک ہندو راشٹر بنایا جائے، تو وہیں محمد علی جناح مذہب ہی کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنا چاہتے تھے، ان کی زندگی کا تجربہ اور سیاسی سوجھ بوجھ یہ کہتی تھی؛ کہ ہندوستان ایک ہندو اکثریت ملک ہے، وہ متعصب ہیں اور متشدد ہیں، ان میں رواداری نہیں، جابندارانہ رویہ ان کا خاصہ ہے، چنانچہ اگر مسلمان یہاں رہے تو ان کی پہچان کو خطرہ ہے_ یہ فکریں اپنے اپنے لائحہ پر کام کرتی رہیں، اور پھر ایک دن ۱۹۴۷ میں ہندوستان آزاد ہوا_ بحث پھر چھڑی اور دو ٹوک تبصرے ہونے لگے، محمد علی جناح ایک زیرک سیاست دان تھے، انہوں نے بہر صورت مذہب کو بنیاد بنا کر ایک الگ پاکستان نامی اسلامی ملک کی بنیاد رکھی اور مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر جانے کی دعوت دی، یہ آپسی سمجھوتہ کے ساتھ انجام پایا تھا، خود گاندھی جی راضی ہوگئے تھے، تاہم یہ بھی حق دیا گیا تھا کہ جو چاہے وہ یہاں رک سکتا ہے، اسے بھی ہندوستانی معاشرت اور حقوق دئے جائیں گے۔*        *ساوارکر کی سوچ دراصل تشدد پر مبنی تھی، لیکن اس کے متبعین اسے عظیم لیڈر کا درجہ دیتے، اسی لئے انہیں " ویر ساوارکر" کہا جاتا ہے، بلکہ گرو گولوالکر کی ایہ کتاب میں انہیں " راشٹریہ پتا" یعنی قوم باپ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے، حالانکہ یہ گاندھی جی کے ساتھ خاص ہے۔ ساوارکر اپنی سوچ پر اٹل تھے، ان کی جہد مسلسل دیکھ کر لگتا تھا مذہب کی بنیاد پر ملک بنانے کی کوشش کامیاب ہوجائے؛ لیکن یہ سبھی جانتے تھے کہ ہندو ازم کوئی مستقل مذہب نہیں ہے، یہ دیومالائی افکار کا مجموعہ ہے، نیز طبقاتی اذہان اور معاشرتی تفریق بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی، منوواد ہندو سماج کا سب سے تاریک ترین سچ ہے، جس سے طبقہ واریت پیدا کی جاتی ہے، اور انسانوں کو ذات کی بنیاد پر تقسیم کردیا جاتا ہے، ایسے میں اہل علم و دانش کی جانب سے ہندوستان کو ایک جمہوری ملک بنانے کی طرف پیش قدمی کی گئی، بابا بھیم راو امبیڈکر کو دستور بنانے کا کام سپرد کیا گیا، انہوں نے لگ بھگ پوری دنیا کے آئین کا مطالعہ کیا.*         *چونکہ وہ ذہین و فطین تھے اور ساتھ ہی وہ خود ایک پچھڑے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے، لہذا انہوں نے ایک متوازن آئین مرتب کی، جس میں بنیادی طور پر ہر شہری کو یکساں حقوق دیتے ہوئے اسے ذات پات سے بلند کر کے ایک ہندوستانی کا لقب دیا، پھر اسے نافذ کیا گیا، اور یہ کوشش کی گئی کہ پورا ملک اسی کے مطابق چلتا جائے، ہر ایک کو برابری، انصاف، اور آزادی نصیب ہو_ لیکن ساوارکر کی فکر اب بھی ختم نہ ہوئی تھی، یہ آر،ایس، ایس اور اس کی مختلف شاخوں کی شکل میں زندہ رہی، پھر بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے نام میں خصوصی طور پر پروان پاتی رہی، اور ایک طویل جد جہد کے بعد ۲۰۱۴ میں باقاعدہ اقتدار پر براجمان ہوئی_ ایسے میں پھر سے ہندوراشٹر کی جانب پیس قدمی کی گئی، ملک میں زہر گھولا گیا، ہندو مسلمان اور پھر منتخب شدہ عناوین تیار کرکے جذبات سے کھلواڑ کیا گیا؛ بالآخر CAA، NRC اور NPR کے ذریعے تابوت پر آخری کیل ڈھونکنے کی تیاری کر لی گئی ہے_ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آج ساوارکر اور محمد علی جناح اپنی سوچ پر کھرے اترے_*        Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 02/01/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔