سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نفسیات کی رعایت ۳

*سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نفسیات کی رعایت*

*آخری قسط*

*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم* کے تجزیاتی مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نئے نئے اسلام لانے والوں سے شروع شروع میں دین سے ان کی ناواقفیت کی وجہ سے حد درجہ نرمی اور رعایت کا معاملہ کرتے تھے پہلے ہی دن سے بہت زیادہ احکام اور مسائل سے ان کو بوجھل نہیں کرتے تھے اور لاعلمی میں خلاف شرع کوئ بات ہوجاتی تو معافی اور درگزر کا معاملہ فرماتے تھے ۔ اصلاح و تربیت کے لئے سب پہلی ضرورت یہ ہے کہ داعی استاد اور مربی مدعو اور طالب کو خود سے پہلے مانوس کرے کہ ان کو استاد اور داعی سے ایک روحانی محبت اور پاکیزہ وارفتگی پیدا ہوجائے ،ایک مخصوص مدت میں جب تک ان کو اپنے سے مانوس نہ کرلیا جائے ان پر سختی کرنا قبل از وقت ہوگا ۔ پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ میں ہم کو یہ حکمت اور نفسیات واضح طور پر ملتی ہیں، مثلا ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی سخت مذمت فرمائ جو مسجد میں تھوکیں یا کسی گمشدہ چیز کا اعلان کریں، دوسری طرف ہمیں یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ ایک دیہاتی نے جب *مسجد نبوی* میں پیشاب کرنا شروع کر دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو مسجد سے نکالنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا اور جب وہ پیشاب کرچکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانی سے دھلوایا اور نہایت نرمی سے ان کی فہمائش کی کہ مسجد صرف عبادت کی جگہ ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کے اس طرز عمل کا یہ فرق اس پر مبنی تھا ،یہ نو مسلم تھے ابھی اسلام سے کما حقہ مانوس نہیں تھے اور وہ تہدید ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے تھی جو پہلے سے اسلام قبول کرچکے تھے۔ *دعوت و تبلیغ* میں مخاطب کی نفسیات اور انسانی مزاج کا تقاضا یہ بھی کہ ان کو ان کی زبان اور لہجے میں براہ راست دعوت دی جائے اس سے مخاطب کو بات سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور تسکین قلب کا بھی یہ ذریعہ ہوتا ہے بعض لوگوں اور قوموں کو اپنی زبان سے محبت تعصب کی حد تک ہوتی ہے وہاں یہ فارمولہ بہت مناسب ہوگا ۔ بنگالی لوگوں کے بارے میں خود ہمارے دوست نے بتایا کہ بنگالی لوگ زبان کے معاملہ بہت متحمس اور غیرت مند واقع ہوئے ہیں ۔ زبان کے معاملہ میں وہ اتنے متشدد ہیں کہ اگر کوئ مسلمان اردو بولنے والا ہے اور پڑوس میں کوئ ہندو بنگلہ زبان والا ہے تو اس کو اس ہندو بنگالی سے زیادہ انسیت رہتی ہے ۔ خدا کرے یہ معلومات غلط ہوں ۔ کسی دوسری زبان خواہ وہ علاقئ زبان ہی کیوں نہ ہو اس کا سیکھنا مقرر و داعی کے لئے اور اہل سیاست کے لئے مفید و موثر ہوتا ہے آج سے تقریبا چودہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے لوک سبھا الیکشن میں بلاری سیٹ (کرناٹک) سے سونیا گاندھی کے خلاف شسما سوراج مقابلہ میں کھڑی ہوئی تھی اور اس خاتون نے پندرہ دن کے اندر کنڑ زبان سیکھ کر اس کی زبان میں سبھا کو سنبھودت کیا تھا جس کا خوب چرچہ رہا یہ الگ بات ہے کہ وہ کانگریس کے قد آور اور چئیر پرسن لیڈر کے سامنے شکست کھا گئی ۔ جو مقرر اپنی تقریروں میں علاقئ اور ٹھیٹی زبان کا بھی سہارا لیتے ہیں عوام اس کی تقریر بہت شوق اور دلچسپی سے سنتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کبھی کبھی قبائلی لہجہ کی رعایت کرتے ہوئے ان کے لہجہ میں گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔ عرب میں ایک قبیلہ تھا جس کے لوگ لام کی آواز نہیں نکال پاتے تھے لام کی جگہ میم استعمال کرتے تھے ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قبیلہ کے لوگوں سے مخاطب ہوئے تو آپ نے ان کے لہجہ میں گفتگو کرتے ہوئے یہ جملہ بھی ادا کیا *لیس من امبر امصیام فی امصفر* جب کہ صحیح اور درست جملہ یہ ہے ۔ *لیس من البر الصیام فی السفر* *نفسیات* سیرت کی اور مثال پیش کرکے اس مضمون کو مکمل کرتے ہیں ۔ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خدشہ ہوتا تھا کہ کسی صحابی یا کسی اور کے دل میں کسی ط??ف سے کسی بھی قسم کی کوئی بدگمانی پیدا نہ ہو ۔ اس سلسلہ میں ہم ایک مثال حدیث سے پیش کرتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں اعتکاف فرما تھے ۔ اعتکاف کے دوران ازواج سے تعلق یا میل جول اعتکاف کے مسائل اور قواعد کے خلاف ہے ۔ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا کسی غرض سے ۔ کھانا دینے یا کوئی کپڑا دینے کے لیے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد نبوی میں آئیں ۔ اب عشاء کے بعد رات کا وقت تھا ۔ جب وہ واپس جانے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازے میں کھڑے ہوگئے تاکہ وہ بے خوف جاسکیں اور تنہائی کی وجہ سے کوئی جھجھک محسوس نہ کریں ۔ ابھی وہ مسجد سے نکلی نہیں تھیں کہ دو انصاری صحابہ کرام مسجد کی گلی کے نکڑ سے گزر رہے تھے ۔ وہ حضور کو رات کے اندھیرے میں اس طرح دیکھ کر ٹھٹکے ۔ آپ نے ان دونوں کو آواز دی کہ ادھر آو ۔ وہ دونوں آگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ *انما ھی صفیة بنت حیی بنت اخطب* یعنی یہ کوئی غیر خاتون نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارے دل میں کوئی بدگمانی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ *الا ان الشیطان ہجری من الانسان مجری الدم* شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ۔ ہوسکتا ہے وہ تمہارے دل میں یہ بدگمانی ڈال کر کہ رات کے وقت یہ کون خاتون ہے جو اعتکاف کے موقع پر تنہا میرے پاس آئی ہے ۔ اس لئے میں نے یہ وضاحت ضروری سمجھی اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ انسانی نفس میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور خیالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ ان کو دور کرنا اور سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ انسان کو شک اور شبہ کی جگہ سے بچنا چاہیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ شک اور تمہت کی جگہ سے بچو اور چوکنا رہو ۔ ضرورت ہے کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ ہم تجزیاتی انداز میں کریں اور سیرت مبارکہ کے مختلف گوشوں کو حالات حاضرہ کی روشنی میں پیش کریں نیز اس کی عصری معنویت سے لوگوں کو آگاہ کریں ۔ افسوس کہ اس انداز سے سیرت کے مطالعہ کا ذوق ہمارے اندر مفقود ہے ۔ نفسیات سیرت کی مزید تفصیلات اور مثالیں کسی اور موقع کے لئے اب ہم چھوڑتے ہیں آج بس اتنا ہی ۔ خدا کرے یہ حقائق ہمارے سمجھ میں آئے اور ہم ان کو اپنی نجی زندگی اپنی اجتماعی اور دعوتی زندگی میں نافذ کریں ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔