شاہین باغ یونہی آباد رہے گا

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(862) *شاہین باغ یونہی آباد رہے گا __!!*

*جہد مسلسل کی داستان، حق کی آواز، کمزوروں اور ضعیفوں کی پکار، آئین کے حق میں بلند صدا، یکسانیت، اپنائیت کا علمبردار، بڑھتے اندھیرے، انارکی اور ستم میں روشنی کی امید، ظالم حکمرانوں کے سامنے مضبوط اینٹ شاہین باغ اب ابھی زندہ ہے، اس کا پیغام پائندہ ہے، کرونا وائرس کی بنا پر اگرچہ اسے ہٹایا گیا، ان کے شامیانے اکھیڑے گئے، نششت گاہیں اجاڑی گئیں، مگر ان کے دل کی آگ یونہی برقرار ہے، ان کے سینہ میں قربانی کا جوش یونہی ابل رہا ہے، وہاں دادیاں خوب داد دے رہی ہیں، انہوں نے صاف صاف کہہ دیا؛ کہ وائرس ہو کہ کچھ اور ہو ہم صرف خدا سے ڈرتے ہیں، ہم آئین کیلئے ڈٹے ہیں، حق کی خاطر کھڑے ہیں، سو دن سے زائد کا یہ احتجاج سی اے اے، این پی آر اور این آر سی جیسے بے تکے اور ظالم قوانین کے خلاف ایک ع??امت تھا، ایک ایسا نشان جس نے پورے ہندوستان میں حق کا پرچم بلند کرنے کی ہمت دی، یہ بتانے کا موقع دیا کہ ہندوستان میں مسلمان زندہ ہے، طاقت ور ہے، وہ سیاسی، سماجی اور ملی اعتبار سے کسی سے کم نہیں ہے، کسی سے دبنے والا نہیں ہے، تم خون کرو، قتل کرو، مارو یا کاٹو ہم مسلمانان ہند دین کے ساتھ ساتھ دستور کی بھی حفاظت کریں گے، اس تحریک نے تاریخ رقم کی، انسانیت کیلئے ایک مثال اور نمونہ چھوڑا، انہیں اگرچہ ایک سازش اور وقت کی نزاکت کی آڑ لیکر زور زبردستی کے ساتھ ہٹایا گیا، اور مہینوں کا خواب شرمندہ تعبیر کیا گیا.* *مگر ان سب نے یقین دہانی کروائی ہے؛ کہ ملک کی یہ زندہ دل خواتین پھر واپس ہوں گی، ان کا مشن ادھورا ہے، ان کا کام پورا ہوگا، وہ آئین کے خلاف بننے والے سیاہ قوانین کی کمر توڑ کر ہی مانیں گی، انہیں کیا کیا نہ کہا گیا، ان پر موسم کی زور دستیاں، حکومت کی فرعونیت، اپنوں کی بے رخی غرض ہر ظلم کا دروازہ بلکہ دہانہ کھول دیا گیا، ایسا لگتا تھا کہ ملک میں صرف یہی ایک مدعی ہے، اسی ایک مدعی پر دہلی میں حکومت بن گئی، ملک کی اکثریت کو مسلم مخالف کا پاٹھ پڑھایا گیا، گرما گرم مناقشہ کئے گئے، مگر اس نے بی جے پی کی فاشزم کی تمام قلعی کھول دی گئی، اس تحریک پر نظر رکھنے والے اور موجودہ حکومت کی سازشوں کو سمجھنے والے بتا سکتے ہیں؛ کہ یہ اسی تحریک کی برکت ہے کہ کوئی اس حکومت کے خلاف بھی سوچ سکے، بول سکے، یہ کہہ سکے کہ بی جے پی ایک فاشسٹ آڈیالاجی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، وہ ملک میں ہندو راشٹر کی کہانی دہرانا چاہتی ہے، وہ جمہوریت کے تمام زنجیروں کو کاٹ کر، کڑیوں کو بکھیر رکھ دینا چاہتی ہے، یہاں تک کہ آئین کو بدل کر منوواد، سواراج لانا چاہتی ہے، جس میں طبقہ واریت ہو، اور عورت ایک شئی حقیر بن کر رہ جائے، یہی ہے جو رام کے نام پر قاتلوں کو پیدا کرنا چاہتی ہے، ہجومی تشدد کے ذریعے ملک کے اتحاد اور ایکتا کو قتل کردینا چاہتی ہے، سچ تو یہ بھی ہے کہ اس حقیقت سے نہ صرف لوگوں کی آنکھیں کھلیں؛ بلکہ انہوں نے شاہین باغ کو ایک آئیڈیل بنا کر ملک بچاؤ تحریک چھیڑ دی، گونگے کو زبان مل گئی، مظلوموں کو ایک پلیٹ فارم مل گیا، دبے کچلے افراد کو ایک نئی راہ مل گئی، پھر ریلیاں نکالی گئیں، احتجاجات ہوئے، پورے ملک میں ایک ہی آواز گونجی کہ بس ہوگا تو یہ کہ آئین ہوگا، انسانیت ہوگی، اور یکسانیت بھی ہوگی.* *یہ احتجاج خواتین کے ذریعہ اٹھا، مردوں نے اس کی حفاظت کی، ان کی پشت پناہی کی، ان کے حوصلے کی داد دی، انہیں ہر طرح کا اطمینان دیا، اس سے بڑی بات یہ کہ پورے ہندوستان اور دنیا بھر میں یہ پیام دیا کہ کس طرح ملک کی خواتین زندہ ہیں، انہیں گھروں میں بیٹھے رہنے کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا، انہیں پردہ نشین کہہ کر اور قدامت پسند بول کر رسوا نہیں کیا جا سکتا، دین کی اتباع ہر ان کا حق ہے، انہوں نے بتا دیا کہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا داری بھی انہیں خوب آتی ہے، اگر موقع پڑ جائے تو ملک کی حفاظت کیلئے سینہ سپر رہنے کو تیار ہیں، شاید تاریخ میں یہ پہلی تحریک ہو جسے عورتوں نے خود اٹھایا ، زندہ رکھا، اور خود ہی قیادت بھی کی، حتی کہ نرے ملاؤں نے اس کی مخالفت کی، اس کی حمایت سے کتراتے رہے، مگر انہوں نے کسی کی پرواہ نہ کی، وہ میڈیا سے بات کرتی رہیں، اپنی داستان بھی بیان کرتی رہیں، میڈیا کے پروپیگنڈہ پر پانی بھی پھیرتی رہیں، بڑی دلیری اور ہمت کے ساتھ سیاست دانوں کے اعتراضات کا جواب بھی دیتی رہیں، موقع پر گورنر سے ملنے بھی گئیں، اپنی بات رکھی، اپنے مطالبات رکھے، غلط فہمیاں دور کیں، ماحول سازگار بنانے میں تعاون کیا.* *بالخصوص عمر رسیدہ خواتین جنہیں دادی کہہ کر پکارا گیا، انہوں نے دنیا کو حیران کردیا کہ اس عمر میں بھی وہ کسی سے کم نہیں ہیں، وہ دین اور دنیا کی سمجھ رکھتی ہیں، ان کی رگوں میں حمیت و حرارت موجود ہے، چنانچہ موسم سرما نے ان پر قہر ڈھایا، بارش نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی؛ لیکن انہوں نے بھی پیر جمائے رکھے، حکومت کے سارے حربے ناکام رہے، پولس کے ڈنڈے، بدمعاشوں کی فائرنگ بھی بے کار رہی، مگر چونکہ اس وقت کرونا کا عذاب دنیا پر اترا ہے، لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے، یہ بیماری ایک دوسرے کو چھونے سے بھی پھیل جاتی ہے، مصالحت ہیں، انسانی جان اور ملک کا تحفظ بھی پوشیدہ ہے، بات مان لی گئی، نرم رویہ اختیار کیا گیا، اسے باطل اپنی جیت نہ سمجھے، اگر سمجھتے ہیں تو وہ نادانی کر رہے ہیں؛ کہ جااتین پر فتح کو ہنر مانتے ہیں، یہ وقتی ضرورت کے تحت کیا گیا ہے، وقت آنے پر پھر سے یہ تحریک زندہ ہوگی، وہ ایمان کی شادابی سے سرشار ہیں، ان کے سینوں نے میں ایمان کی جوت جگتی ہے، وہ ملک کی محبت سے بھی معمور ہیں، جب جب وقت پڑے گا، وہ آئیں گی، باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گی، اب یہ آسان نہیں کہ حکومت کچھ بھی کردے، اسے سوچنا ہوگا، سنبھلنا ہوگا، ورنہ شاہین پھر سے جھپٹ پڑیں گی، ان کا شکار کرنے کیلئے وہ تأزم دم ہونے گئیں ہیں، اپنے پروں اور ناخنوں کو تیز کرنے گئیں، خبردار اسے شکست نہ سمجھنا، سن لو__! اسے فرار نہ جاننا، ورنہ انجام تمہارے سر ہوگا.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 24/03/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔