شاہین صفت خواتین! تیری ہمت و جرآت کو سلام

*شاہین صفت خواتین! تیری ہمت و جرآت کو سلام*

*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*مولانا* *ابو الکلام آزاد رح* کی شریک حیات (اہلیہ) *زلیخا بیگم* کو *اللہ* تعالی نے حسن سیرت اور حسن صورت دونوں سے نوازا تھا۔ وہ صرف خاتون خانہ نہیں تھیں بلکہ میدان عمل کی خاتون تھیں *حمیدہ سلطان* نے لکھا ہے کہ نرگسی آنکھیں ،دراز پلکیں ۔ پگھلے ہوئے سونے کا رنگ،ساون کی گھٹا جیسے بال،بونا قد حسن و جمال کی پیکر لئےخاتون حضرت مولانا ابو الکلام کی شریک حیات تھیں ۔ *مولانا ابو الکلام آزاد رح* نے لکھا ہے کہ وہ صرف جنگ آزادی میں ہی میرے ساتھ نہیں تھیں، بلکہ پوری ہمت و جرآت اور طاقت سے ہر طرح کے ناخوشگوار حالات میں بھی میرے ساتھ تھیں ۔ *اس* کی وضاحت کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک *خط* کا بھی تذکرہ کر دوں ۔ آپ کی حب الوطنی و جنگ آزادی کے لئے جو جذبہ تھا، وہ کسی خاتون کے لئے اس زمانے میں بڑی بات تھی ۔ جب *مولانا آزاد رح* تحریک خلافت کے سلسلے میں ۱۰/ دسمبر ۱۹۲۰ کو کلکتہ جیل میں ایک سال قید بامشقت کی سزا کاٹ رہے تھے ،تب *زلیخا بیگم* نے ایک خط *مہاتما گاندھی* کو لکھ کر پہلے تو یہ کہا تھا ۔ *آپ اور مولانا جن کاموں کو تحریک کے لئے کیا کرتے تھے ان کے لئے کسی اور کو ذمہ داری نہ دیں ۔ میں خود ان کی غیر موجودگی میں تحریک کے کاموں کو بخوبی انجام دے رہی ہوں، اور آگے بھی دیتی رہوں گی ۔ اگر کوئ دقت پیش آئی تو میں اپنے بھائی سے مدد لے لوں گی* ۔ دوسری بات جو انہوں نے لکھی وہ ان کی شخصیت اور حوصلے کو اس اونچائی پر پہنچاتا ہے، جہاں کسی پردہ نشیں خواتین کو وہ بھی شوہر کی غیر موجودگی میں ناممکن سا دکھتا ہے ۔ *زلیخا بیگم* نے *گاندھی جی* سے جاننا چاہا کہ ۔ *مولانا کو سزا کم کیوں ملی؟ مجھے تو امید تھی کہ کم سے کم تین یا پانچ سال کی سزا ہوگی ۔ آپ نے شک ظاہر کرتے ہوئے گاندھی جی سے جاننا چاہا کہ کہیں آپ مولانا کی سزا کم کرنے کے لئے انگریز حکومت کی کسی شرط کے آگے جھک تو نہیں گئے ۔ اگر ایسا ہے کہ مولانا کو بہت صدمہ پہنچے گا اور ظاہر ہے کہ میں بھی آپ کو گنہگار سمجھوں گی ۔ میری درخواست ہے کہ ملک کی آزادی کے لیے کسی طرح جھکنے کی ضرورت نہیں ہے، چاہے سزا تا زندگی جھیلنی پڑے*۔ یہ *خط* کلیکشن آف ورک مہاتما گاندھی : پبلیکسنس ڈیویزن گورنمنٹ آف انڈیا میں شامل ہے ۔ بحوالہ *لہو بولتا بھی ہے* ص ۱۷۳) *ہندوستان* کی آزادی میں صرف ایک *زلیخا بیگم* ہی نہیں ہزاروں خواتین تھیں، جو سرفروشی کی تمنا لیے میدان جنگ میں کود گئی تھیں، اور مردوں کے شانہ بشانہ اس لڑائی میں پوری ہمت و جرآت کے ساتھ کھڑی رہیں، ملک کو آزادی دلانے میں اپنے جان و مال کا نذرانہ پیش کیا ۔ زہرہ انصاری بیگم ڈاکٹر مختار انصاری، مائی بختاور ۔ فاطمہ بیگم،ماجدہ حسینہ بیگم،سلطانہ حیات انصاری، ہاجرہ زیڈ احمد،فاطمہ اسمعیل ۔بیگم ماجدہ بانو ۔بیگم کلثوم سیانی۔بیگم سکینہ لقمانی ۔ امینہ طیب جی۔ زبیدہ بیگم داؤدی ۔خدیجہ بیگم ۔اصغری بیگم ۔امجدی بیگم ۔ سبز پوش خاتون۔ رحیمی۔ سعادت بانو کچلو ۔کنیز سیدہ بیگم ۔ عصمت آراء بیگم۔ بی بی امت السلام ۔ آمنہ قریشی ۔ صوفیہ سوم۔ بیگم خورشید خواجہ ۔ فاطمہ عریضی ۔ نشاط النساء ۔ عابدی بانو بی اماں۔ حبیبہ ۔ منیرہ بیگم ۔ ارونا آصف علی ۔عزیزن بائ۔ زاہدہ خاتون ۔ صغری خاتون ۔اکبری بیگم ۔ رضیہ خاتون ۔انیسہ بیگم قدوائی اور سریا طیب جی جیسی ہزاروں شاہین صفت خواتین ہیں،جن کا نام جنگ آزادی کے سورماوں میں لکھا ہے اور جس پر ہر ہندوستانی اور خاص طور پر ہر مسلمان کو فخر ہے ۔ *آج* بھی شاہین صفت مسلم خواتین کی کمی نہیں ہے ۔ آج بھی ملک و قوم کی حفاظت کے لیے وہ فکر مند ہیں ۔ شاہین باغ کی شاہین صفت ماوں نے ،اور جہاں بھی خواتین احتجاج کر رہی ہیں، یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم اس ملک کے سچے وفادار ہیں، اس ملک کی سالمیت کے لئے فکر مند ہیں اور یہاں کی جمہوریت کو بچانے کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ یقینا اس امت کی مائیں زندہ دل ہیں ۔ موقع پڑنے پر وہ قیادت کرسکتی ہیں ۔ زمانے کے نئے چیلنجزیز کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔انہیں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے، ان کی زندہ دلی اور ایمانی غیرت دیکھ کر رشک آتا ہے، تو دوسری طرف اپنی کم ہمتی اور بے غیرتی کا احساس بھی ہوتا ہے ۔ سی اے اے این آر سی اور این پی آر کے خلاف آج ملک بھر میں جو پروٹسٹ اور احتجاجات ہو رہے ہیں، ان میں ہماری ماؤں بہنوں کا کردار سب سے نمایاں ہے ۔حکومت نے اس کو ختم کرنے کے لئے ہر ہتھکنڈے اپنائے ،لیکن ان خواتین کے پائے استقامت کو ہلا نہ سکی ۔ موسم کی سردی۔ سرد ہوائیں اور بارش نے بھی ان سے ہار مان لی ۔ اور ہر ستم ان پر بے بس ہوگیا ۔ اب تو فکری جنگ بھی شروع ہو گئی ہے ،ٹیوٹر وغیرہ کے ذریعے ان کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے ۔ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں ۔ان کے خلاف نیوز چینلز پر بھی مغلظات بکی جارہی ہیں ۔لیکن وہ ڈٹی ہوئ ہیں ۔ان خواتین کو خدا سلامت رکھے اور ان کی قربانیوں کو قبول کرلے اور ملک کی تقدیر کو بدل دے ۔ آمین ہمیں امید ہی نہیں یقین ہے کہ آج کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد، جس فیصلہ نے اس معاملہ کو خواہ مخواہ مزید طول دے دیا ہے ۔ یہ لڑائی اب لمبی چلے گی اور ہماری مائیں اور بہنیں اس قانون کے خلاف سینہ سپر رہیں گی اور پوری جرآت کے ساتھ صحیح فیصلہ آنے تک محاذ سنبھالے رہیں گی ،زلیخا بیگم اور دیگر مجاہدین خواتین آزادی کے رول و کردار کو دوبارہ زندہ کریں گی ۔ ہم تمام مسلمانوں سے خاص طور پر دہلی کے مسلمانوں سے اور جہاں جہاں بھی عورتیں پروٹسٹ کر رہی ہیں، سب سے درخواست کرتے ہیں کہ دامے درمے قدمے اور سخنے ان کی مدد کریں اور ان کی ہمت و حوصلہ کو مزید مہمیز لگائیں ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔