سوشل میڈیا کا مثبت استعمال

از: نازش ہما قاسمی جدید ٹکنالوجی سے لیس اس دور میں ہر شخص کے پاس سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ پر ایک آدھ اکاؤنٹ ضرور ہے۔ ٹوئٹر، فیس بک، وہاٹس ایپ ، انسٹا گرام وغیرہ کے ذریعے عوام و خواص ایک طرف جہاں اس کا مثبت استعمال کرتے ہیں وہیں منفی پروپیگنڈوں کےلیے بھی ان ویب سائٹوں کا سہارا لیاجاتا ہے۔ غیر مسلم طاقتیں ان ویب سائٹوں سے اسلام ومسلم دشمنی، حضور ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی ، مذہبی اشتعال انگیزی اور مخرب اخلاق فعل انجام دیتی ہیں ۔ اپنی مذہبی تعلیمات کے فروغ کےلیے بھی ان کا سہارا لیتی ہیں، وہیں اکثر مسلم نوجوان ان سائٹس سے صرف خبر رسانی،عشق مجازی، شعرو شاعری، محبت والفت، ایک دوسرے پر نقد وجرح ، طعن وتشنیع ، قائدین کی پگڑیاں اچھالنا، علمائے دین کی بے توقیری اور دیگر ہفوات میں مشغول رہتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ اگر کرنے کی چیزیں ہیں، جس سے دنیا وآخرت میں سرخروئی ہوگی تو وہ ہے اسلام کی نشرواشاعت وغیرہ ۔ جدید ٹکنالوجی نے دنیا کو ایک دم سمیٹ کر آپ کی مٹھی میں رکھ دیا ہے اگر آپ چاہیں تو اس سے بہت سارے بہترین کام لے سکتے ہیں۔ اسلام پر ہورہے اعتراضات کا جواب، حضور ﷺ کی تعلیمات کا فروغ اور اسلام ومسلمان پر ہورہے اعتراضات کا دندا ں شکن جواب دے سکتے ہیں۔ کچھ مسلمان دے رہے ہیں اور ان کی مثبت تعلیمات سے اعتراض کرنے والے سوچنے پر مجبور ہیں اور اپنے فعل سے توبہ کررہے ہیں کہ واقعی اسلام تو امن پسندی کا مذہب ہے یہاں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں۔ان پر لگائے گئے الزامات مسلم دشمنی میں تیار کی گئی سازش ہے ۔یہ جو منظر عام پر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ پیش کی جارہی ہے وہ انتہائی غلط ہے مسلمان ایسے نہیں ہیں اور نہ ہی اسلام اور صاحب شریعت محمد عربی ﷺ ایسے تھے ۔ محمد عربی ﷺ نے تو انسانیت کی تعظیم کا درس دیا ہے، غیر مسلموں کے ساتھ بہتر سلوک کا پیغام دیا ہے جو لوگ ا ن کی شان میں گستاخی کررہے ہیں وہ حضور ﷺ کی تعلیمات سے نابلد ہیں ۔ دجالی میڈیا کے شکار ہوکر دنیا کو امن وامان سے نہیں رہنے دیناچاہتے، ایک دوسرے میں نفرت پیدا کرکے محبت کے تاج محل کو گراناچاہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان ان ویب سائٹوں کا استعمال مثبت طریقے پر کریں۔ سوشل میڈیا ایک پاور ہے آپ کے پاس ، پہلے آپ کے پاس اپنی باتیں کہنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا؛ لیکن آپ یہاں سے اپنی باتیں بلا روک ٹوک کہہ سکتے ہیں ۔ اس کا مثبت استعمال کریں، ملک وقوم کی بھلائی کےلیے کریں۔ نفرت کے سوداگروں کو محبت کا اسیر بنالیں۔ حال ہی میں کملیش تیواری کے مرڈر کے خلاف ٹوئٹر پر خدا، رسولﷺ ، اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا۔ خدائے پاک کی شان اقدس میں گستاخی کرنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں، رسول اقدس ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی گئی۔ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے کو اس کا علم نہیں ہوا۔ لیکن چند مسلم نوجوانوں نے مشتعل ہوئے بغیر صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹوئٹر پر فعال ہوکر تقریباً دو دنوں تک حضوراقدس ﷺ کی زندگی، ان کے اقوال کریمانہ، اوصاف حمیدہ ، اسلام اور مسلمانوں کے پس منظر اور اسلام کی حقیقی تصویر سے پورے ٹوئٹر کو بھردیا جس کی بڑے پیمانے پر ستائش کی گئی، سیکولر برادران وطن نے بھی اپنے بگڑے ہوئے بھائیوں کو تعلیمات نبوی پڑھنے کا مشورہ دیا، عالمی میڈیا نے بھی چلائے گئے ہیش ٹیگ کو اپنی خبروں کی زینت بنایا اور وہ لوگ جو خدا، رسول ، اسلام اور مسلمانوں پر طعن وتشنیع کررہے تھے انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ اگر پوری دنیا کے مسلمان اپنی مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر اس ہیش ٹیگ میں حصہ لیتے تو اس کے دور رس نتائج سامنے آتے۔ مسلمان پوری دنیا میں بستے ہیں، اگر ہندوستان میں توہین نبیﷺ کی گئی تو یہ صرف ہندی مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے ، اور ہندوستان میں بھی صرف ٹوپی کرتا پہننے والوں کا مسئلہ نہیں؛ بلکہ ہر کلمہ گو کا مسئلہ ہے ، پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے کہ وہ حضور ﷺ کی شان میں گئی توہین آمیز باتوں کا جواب دیں، گستاخ رسول کو ان کی اوقات بتائیں اور اسلام کی تعلیمات ان کے سامنے رکھیں۔ اسوہ رسولﷺ سے انہیں متعارف کرائیں یقیناً ان کا دل پسیج جائے گا، ان کے دل میں بھی شمع نور آبسے گا ۔ ہمیں ان سے نفرت نہیں کرنی چاہئے، ان سے محبت سے پیش آئیں ، نفرت کا جواب محبت سے دیں ، جس طرح ہم نے سوشل میڈیا پر ان کی گالیوں کے جواب میں ان کے مذہبی رہنمائوں کو گالی نہیں دی، کسی کے مذہبی رہنما کو گالی دینا اور برا بھلا کہنا مسلمانوں کا کام بھی نہیں ہے، یہ ہمارا ایک مثبت کردار تھا جسے اغیار بھی سراہنے پر مجبور ہوگئے ۔ پہلے جب یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی تو پوری دنیا کے مسلمان گستاخی کے خلاف سراپا احتجاج ہوجاتے تھے؛ لیکن اب ایسا نہیں ہوتا جہاں گستاخی ہو وہاں کے مسلمان جوابدہ ہوں گے۔ یہ شاید دنیا میں آپ تصو ر کرلیں لیکن آخرت میں پوری دنیا کے مسلمانوں سے سوال کیاجائے گا کہ اگر ہند وستان میں گستاخی ہوئی تو اس کا جواب کیوں نہیں دیاگیا۔ ہماری تعلیمات سے انہیں بہرہ ورکیوں نہیں کیاگیا، اگر افریقہ کے جنگل میں کوئی اہانت رسول کا مرتکب ہوا تو ان تک ہماری تعلیمات کیوں نہیں پہنچائی گئیں ۔ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، حضور اقدس ﷺ دونوں جہاں کے نبی ہیں نبی رحمتﷺ کی تعلیمات کا تقاضہ ہے کہ ان کے پیغام کو ہر خاص وعام تک پہنچایا جائے؛ تاکہ سسکتی دنیا امن وچین کاگہوارہ بنے۔ اور ان کی تعلیمات سے روشناس ہوکر اگر اسلام مقدر میں ہے تو مسلمان ہوجائیں؛ ورنہ اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ بنے رہیں۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔