*این آر سی کا تلخ تجربہ*
*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*این آر سی* ۔ *این پی آر* اور *سی اے اے* کا خوف اور ڈر (صرف ایک خاص طبقہ کو چھوڑ کر) آج ہر ہندوستانی پر مسلط ہے، لوگ اس قانون اور بل سے اتنے خوفزدہ اور گھبرائے ہیں، کہ بلا فرق مذھب و قوم اس کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر آئے ہیں، اور سخت سرد موسم اور شیت لہری میں بھی مہینوں سے احتجاج اور پروٹسٹ کر رہے ہیں، لیکن موجودہ حکومت ابھی تک اس قانون کو واپس لینے کا اعلان نہیں کر رہی ہے ۔ اس قانون سے لوگ اتنے سہمے ہیں ،کہ خبریں آرہی ہیں کہ لوگ نفسیاتی مریض اور ڈپریشن کے شکار ہو رہے ہیں، اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور اس بل کو واپس نہیں لیا گیا، تو بعید نہیں کتنے لوگ ذھنی تناو اور اعصابی شکن جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر راہی ملک عدم ہوجائیں گے ۔ این آر سی مین میڈڈ یزاسٹر نہیں تو اور کیا ہے؟ جس طرح آسٹریلیا میں بھیانک آگ لگی ہوئی ہے اور اس خدائ آگ کو قابو کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔ اسی طرح ہمارا ملک بھی این آر سی اور سی اے اے کی آگ میں جل رہا ہے اور حکومت وقت اس آگ کو بجھانے کے بجائے اور بھڑکا رہی ہے ۔ اللہ کی طرف سے آنے والی آفت پھر بھی ٹل جاتی ہے ۔ لیکن جب انسان خود خدا بننے کی کوشش کرنے لگے، اور اپنے بنائے ہوئے قانون کو خدائ قانون کا درجہ دینے لگے، تو پھر پتہ نہیں چلتا کہ اس آفت کا خاتمہ کب ہوگا؟اور یہ مصبیت کب ٹلے گی؟ اس وقت پورا ہندوستان نفرت کی آگ میں جل رہا ہے، یہ نفرت اور دشمنی کہیں ہندوستان کو خانہ جنگی اور ملک کو تقسیم کی راہ تک نہ پہنچا دے ۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ جس ملک کی جمہوریت ۔ امن و شانتی اور گنگا جمنی تہذیب کی دنیا میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں جہاں کی حکومت اور رعایا کی مذھبی رواداری کی لوگ تعریف کرتے نہیں تھکتے ہیں، کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہیں کے مول باشیوں اور رہنے والوں سے ان کی شہریت کی بابت سوال پوچھاجائے گا؟ اور ان کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی؟ ۔ یہ بل اور قانون ایک طرح سے دنیاوی عذاب ہے، کہ سوتے بیٹھتے جگتے لوگ پریشان ہیں، اور کشمکش اور ذھنی ٹینشن میں مبتلا ہیں ۔ یہ ملک بالکل سطحیت پر اتر چکا ہے ، اپنا وقار و اعتبار کھو چکا ہے ۔ دنیا بھر میں اس ملک کی رسوائی ہورہی ہے، لیکن حکومت بے خبر ہے اور نشہ میں چور ہے ۔ سنجیدگی، شرافت، مروت، پریم ، انسانیت، اور مانوتا کا تو گویا جنازہ نکل گیا ہے ۔ بعض سیاسی نیتا اور پارٹی کے کاریکرتا ایسے سطحی بیانات دے رہے ہیں اور ایسے گندے الفاظ استعمال کرتے ہیں، کہ لگتا ہے کہ اس ملک میں ابھی تہذیب و روایات اور عزت و احترام کا خاتمہ ہوجائے گا اور پرانی جہالت پھر لوٹ آئے گی ۔ آج جمہوریت ، ایک مذاق سا بن گیا ہے، نہ سرکار کی کوئ ویلو نظر آرہی ہے اور نہ قوم کا وزن اور وقار ظاہر ہورہا ہے ۔ سب ایک دوسرے کے دشمن بنتے جارہے ہیں، ریسپیکٹ نام کی تو کوئی چیز رہ ہی نہیں گئی ہے ۔ میڈیا بک چکا ہے ۔ پریس کی آزادی اور سچ بولنے کا حق چھن چکا ہے۔ شوشل میڈیا کی بات کریں تو دل چاہتا ہے کہ یہ سب منفی خبریں رک جائیں اور ملک صحیح پٹری پر آجائے اور امن و امان، شانتی اور خوشحالی کا ماحول پھر آجائے ۔ افسوس کہ اس نازک وقت میں بھی ملک کو سنبھالنے کے لئے لوگ جس طرح مذھب و ملت کے فرق سے اوپر اٹھ کر کھل کر سامنے آنا چاہیے نہیں آرہے ہیں ۔ اس وقت صرف کشیدگی کا ماحول ہے، اور اس میں تیزی سے اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ یہ ہم سب کے لئے بہت خطرہ کی بات ہے یہ حالات ہمارے جسمانی اور دماغی فروغ کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ بچوں پر بھی اس کے نفسیاتی اثرات پڑ رہے ہیں ان کے دل و دماغ اور ذھن و فکر پر اس ماحول کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ میرا چھوٹا بچہ صرف چودہ مہینہ کا ہے، گھر میں اپنے بڑے بھائی بہن کو جب یہ بولتے ہوئے سنتا ہے کہ : *ہم لے کہ رہیں گے آزادی* *ہم چھین کہ لیں گے آزادی* *دیکھیں گے ہم دیکھیں گے* *لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے* تو وہ معصوم بچہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھاتا ہے اور اپنے طور پر شور مچانے لگتا ہے ۔ یہ سب ماحول کے اثر سے ہو رہا ہے۔ اس وقت اس منفی اور ڈپریشن کے ماحول کو ختم کرنے کے لئے سارے ہندستانیوں کو سامنے آنا ہوگا، اور ملک کو بچانا ہوگا ،ورنہ اس قانون کے باقاعدہ نافذ ہوجانے کے بعد ملک کی حالت کیا ہوگی؟ اس کے تصور سے بھی دل کانپ جاتا ہے ۔ *این آر سی* کی آواز آج سے تیس پینتیس سال پہلے آسام میں اٹھی تھی، وہاں کے کچھ مخصوص جغرافیائی حالات تھے، لیکن جن لوگوں نے *آسام* میں این آر سی کے لئے سب زیادہ آوازیں بلند کیں، یعنی آسام گن پریشد، آج ان لوگوں کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ یہ مطالبہ اور یہ قانون کتنا مضر ثابت ہو رہا ہے، اور اس کے اثرات کتنے خطرناک ثابت ہو رہے ہیں ۔ *آئیے* خود انہیں کی زبانی این آر سی کی کہانی سنئے۔ .................................. مشہور صحافی دیپک اسیم، سنجی ورما، گوہاٹی(آسام) لکھتے ہیں : .................................. جس شخص نے اپنی پوری زندگی آسام سے دراندازوں کو نکالنے کی مہم میں لگا دی ہو، اور آخرکار وہی مایوس ہو کر کہے کہ:"ہم نے ایک پاگلپن میں زندگی برباد کردی" تو آپ کیا کہیں گے؟ یہ شخص ہیں *مرنال تعلقدار*؛ جو آسام کے مشہور صحافی ہیں، اور این آر سی پر ان کی لکھی ہوئی کتاب" *پوسٹ کولونیم آسام* "؛ جس کی رسم اجرا محض ایک ہفتہ قبل جسٹس رنجئی گگوئی نے کی ہے، اور ان کی دوسری کتاب، جس کا نام ہے" *این آر سی کا کھیل* " کچھ دنوں کے بعد آنے والی ہے. وہ این آر سی کے معاملے میں مرکزی حکومت کو مشورہ دینے والی کمیٹی میں بھی نامزد ہیں، وہ آل انڈیا آسام یونین (آسو) سے منسلک رہے ہیں، " *دستک* " کے لئے ان سے کافی لمبی گفتگو ہوئی. انہوں نے کہا کہ: "میرے اور میرے جیسے ہزاروں لوگوں کی جوانی آسام سے دراندازوں کو نکالنے کے احتجاج کی نذر ہوگئی، ہمارے اندر جوش تھا مگر ہوش نہیں، پتہ نہیں تھا کہ ہم جن کو آسام سے باہر نکالنے کے لئے احتجاج کر رہے ہیں؛ ان کی کس طرح شناخت کی جائے گی؟ اور انہیں باہر کرنے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ سن 1979م ہمارا احتجاج شروع ہوا، اور سن 1985م میں ہماری ہی آسام میں حکومت قائم ہوئی، "پرفل ہیمنت ہاسٹل" میں رہتے تھے، اور ہاسٹل سے سیدھا ویز اعلی ہاؤس میں پہونچ گئے، پانچ سال کیسے گزر گئے، ہمیں پتہ ہی نہیں چلا. راجیو گاندھی نے صحیح کیا کہ ہمیں انتخاب لڑا کر حکومت دلائی، حکومت حاصل ہونے کے بعد ہی احساس ہوا کہ حکومت کے کام اور مجبوریاں کیا ہوتی ہیں؟ آئندہ انتخاب ہار گئے مگر پانچ سال بعد پھر سے بر سر اقتدار ہوئے، ان دوسرے پانچ سالوں میں بھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ بنگلادیشیوں کی پہچان کے لئے لائحہ عمل کیا ہو؟ لوگ ہم سے اور ہم اپنے آپ سے مایوس تھے، مگر دراندازوں کے خلاف ہماری مہم جاری تھی، کافی عرصے بعد بھارت کے سابق ہوم سیکرٹری "گوپال کرشن" نے ہمارے سامنے اس کا لائحہ عمل پیش کیا؛ انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ:آپ لوگوں کی شہریت چیک کرا لیں، اپنے آپ کی بھی شہریت چیک کرا لیں؛ اور جو باقی رہ جائیں گے وہی درانداز ہیں. چور کو پکڑنے کے لئے کلاس روم میں سبھی کی تلاشی لینے والا یہ آئڈیا ہمیں خوب بھایا، مگر تب نہیں معلوم تھا کہ سوا تین کروڑ لوگ جب کاغذات کے لئے پریشان ہو کر ادھر ادھر بھاگیں گے تب کیا ہوگا؟ بعد میں (سابق چیف جسٹس) "رنجن گگوئی" نے قانونی مدد کی، اور خود اس میں دلچسپی لی، اس سلسلے میں آسام کے ایک شخص"پردیپ بھونیا" کا خاص کردار رہا، وہ اسکول کے پرنسپل ہیں، انہوں نے ہی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی، اور اپنی جیب سے 60 لاکھ خرچ کیا، بعد میں ان کی عرضی پر غور کرکے سپریم کورٹ نے این آر سی کا حکم جاری کیا، (اسی طرح) ایک اور شخص "ابھیجیت شرما" نے بھی این آر سی کے ڈرافٹ کو جاری کرانے کے لئے خوب بھاگ دوڑ کی، تو اس طرح سے این آر سی وجود میں آتے ہی ہم سب سوچنے لگے کہ یہ ہم نے کیا کر ڈالا؟ خود ہمارے گھر کے لوگوں کے نام غلط ہو گئے، سوچیں! یہ کیسی بات ہے کہ جو لوگ دراندازوں کو باہر نکالنے کے لئے احتجاج کر رہے ہیں ان ہی کے گھر والوں کے نام این آر سی کی لسٹ میں نہ آئیں؟ بہرحال یہ غلطیاں بعد میں دور ہو گئیں. بیالیس ہزار عملہ 4 سالوں تک کروڑوں کاغذات جمع کرتے رہے، اور ان کی تشخیص چلتی رہی، آسام گویا پاگل ہوگیا تھا، ایک ایک کاغذ کی تصدیق کے لئے دوسرے صوبوں تک دوڑ لگانی پڑی؛ جیسے کسی کے دادا نے 1971م سے قبل راجستھان کے کسی اسکول میں پڑھائی کی تھی، تو اسے دادا کی اسکول سرٹیفکیٹ لینے کے لئے متعدد بار راجستھان جانا پڑا، لوگوں نے لاکھوں روپے خرچ کئے، سیکڑوں لوگوں نے دباؤ میں خودکشی کرلی، کتنے ہی(لوگوں نے) لائینوں میں کھڑے ہو کر جان گنوا دی، اور کتنے سارے لوگوں کو دباؤ میں اٹیک آیا، اور دوسری بیماریاں لاحق ہوئیں. میں نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے اپنے لوگوں کو کتنی تکلیف دی، اور آخرکار حاصل کیا ہوا؟ پہلے چالیس لاکھ لوگ این آر سی میں نہیں آئے، اب انیس لاکھ نہیں آرہے ہیں، چلیں! میں کہتا ہوں آخر میں پانچ لاکھ یا تین لاکھ لوگ رہ جائیں گے تو ہم ان کا کیا کریں گے؟! ہم نے یہ سب پہلے سے نہیں سوچا تھا، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ یہ معاملہ اتنا زیادہ انسانی پہلوؤں سے جڑا ہوا ہے، مجھے لگتا ہے کہ ہم اتنے لوگوں کو نہ واپس بنگلہ دیش بھیج سکیں گے، جیل میں رکھ سکیں گے، اور نہ ہی اتنے لوگوں کو "برہمپوتر" (ندی) میں پھینکا جاسکتا ہے، تو آخرکار یہ نتیجہ نکلے گا کہ ورک پرمٹ(اجازت نامہ برائے کام) دیا جائے، اور این آر سی سے پیچھا چھڑا لیا جائے. مرکزی حکومت دوسرے صوبوں میں این آر سی لانے کی بات کر رہی ہے، جبکہ اسے آسام کا (تلخ) تجربہ ہو چکا ہے".
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔