تیسویں پارے کے اہم مضامین

سورہ نباء

مشرکین مکہ استہزاءو تمسخر کے طور پر مرنے کے بعد زندہ ہونے کو اور قرآن کریم کو *”النبا العظیم“* یعنی *”بڑی خبر“* کہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعی بڑی اور عظیم الشان خبر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ کی بات لیکر فرمایا کہ اس ”بڑی خبر“ پر تعجب یا انکار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں عنقریب اس کی حقیقت کا علم ہوجائے گا۔

سورہ نازعات

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اثبات ہے۔ سورہ عبس

سرداران قریش کے مطالبہ پر حضور علیہ السلام ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو کررہے تھے کہ ان کے اسلام قبول کرلینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ اسلام ہوجائیں گے۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال سے ناواقف تھے۔ حضور علیہ السلام کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورت نازل فرمائی۔

سورہ تکویر

قیام قیامت اور حقانیت قرآن اس کے مرکزی مضامین ہیں۔ قیامت کے دن کی شدت اور ہولناکی اورہر چیز پر اثر انداز ہوگی۔ سورج بے نور ہوجائے گا۔ ستارے دھندلاجائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، پسندیدہ جانوروں کو نظر انداز کردیا جائے گا، جنگی جانور جو علیحدہ علیحدہ رہنے کے عادی ہوتے ہیں یکجا جمع ہوجائیں گے۔ (پانی اپنے اجزائے ترکیبی چھوڑ کر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہوکر) سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ انسان کا سارا کیا دھرا اس کے سامنے آجائے گا۔

سورہ انفطار

قیام قیامت کے نتیجہ میں کائنات میں برپا ہونے والے انقلابی تغیرات کو بیان کرکے انسان کی غفلت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اسے محسن حقیقی کے احسانات یاد دلاکر اس کی *”رگِ انسانیت“* کو پھڑکایا ہے۔

سورئہ مطففین

ناپ تول میں کمی کرنے والے کو مطفف کہتے ہیں۔ اس سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو دوسروں کا حق مارتا اور اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرتا ہو۔ مطففین کی ہلاکت کے اعلان کے ساتھ سورت کی ابتداءہورہی ہے اس کے بعد بتایا کہ یہ لوگ اپنے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتے جبکہ دوسروں کے حقوق کی دھجیاں بھی بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔

سورئہ انشقاق

قیامت کے خوفناک مناظر اور عدل و انصاف کے مظہر ”بے رحم احتساب“ کے تذکرہ پر یہ سورت مشتمل ہے۔ آسمان پھٹ جائیں گے اور زمین پھیل کر ایک میدان کی شکل اختیار کرلے گی اور اللہ کے حکم پر گوش بر آواز ہوں گے۔ انسان کو جہد مسلسل اور مشقت کے پے در پے مراحل سے گزر کر اپنے رب کے حضور پہنچنا ہوگا۔ دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال کا مل جانا محاسبہ کے عمل میں نرمی اور سہولت کی نوید ہوگی جبکہ پیٹھ کی طرف سے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال کا ملنا کڑے محاسبہ اور ہلاکت کا مظہر ہوگی۔

سورئہ بروج

اس سورت کے پس منظر کے طور پر احادیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک نوجوان جو شاہی خرچہ پر بل کر جواں ہوا تھا مسلمان ہوگیا، بادشاہ نے اس کے قتل کا فیصلہ کیا، اس نے ایمان کے تحفظ میں اپنی جان قربان کردی، اس واقعہ سے متاثر ہوکر بادشاہ کی رعیت مسلمان ہوگئی، اس نے خندقیں کھدوا کر ان میں آگ جلا دی اور اعلان کردیا کہ جو ایمان سے منحرف نہ ہوا اسے خندق پھینک دیا جائے گا، لوگ مرتے مر گئے مگر ایمان سے دستبردار نہ ہوئے۔

سورئہ طارق

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ ہے۔ ستاروں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح نظام شمسی میں ستارے ایک محفوظ و منضبط نظام کے پابند ہیں اسی طرح انسانوں کی اور ان کے اعمال کی حفاظت کے لئے بھی فرشتے متعین ہیں۔

سورئہ اعلیٰ

ابتداءمیں اللہ تعالیٰ کے ہر عیب و کمزوری سے پاک ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی قدرت کاملہ اور انسانوں پر اس کے انعامات و عنایات کا تذکرہ پھر اس بات کا بیان ہے کہ نبی کو براہِ راست اللہ ہی تعلیم دیتے ہیں جس میں نسیان اور بھول چوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ اگر اللہ کسی مرحلہ پر قرآن پاک کے کسی حصہ کو منسوخ کرنے کے لئے آپ کے ذہن سے محو کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔

سورئہ غاشیہ

قیامت کی ہولناکی اور شدت اور کافروں پر اترنے والی مشقت و مصیبت اور مو منوں کے لئے جنت کی نعمتوں کے ذکر سے ابتدا کی گئی ہے۔

سورئہ فجر

ابتداءمیں پانچ قسمیں کھا کر اللہ نے کافروںکی گرفت کرنے اور عذاب دینے کا اعلان کیا ہے

سورئہ بلد

سورت کی ابتداءمیں مکہ مکرمہ جس میں نبی علیہ السلام رہائش پذیر تھے اور والد و اولاد کی قسم کہ انسان مشقت اور تکالیف کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ نیکی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرنے میںبھی مشقت آتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نیکی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کے لئے اجرو ثواب ہے جبکہ بدی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کو ثواب کی بجائے عذاب ہوگا۔

سورئہ شمس

سات قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ جس طرح یہ تمام حقائق برحق ہیں اسی طرح یہ بات بھی برحق ہے

سورئہ لیل

تین حقائق کی قسمیں کھا کر فرمایا کہ جس طرح ان حقائق کو تسلیم کئے بغیر چارئہ کار نہیں ہے اسی طرح اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ خیر و شر اور نیکی و بدی کے حوالے سے انسانوں کے اعمال مختلف ہیں

سورئہ ضحی

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی وجہ سے چند روز تہجد کے لئے نہ اٹھ سکے تو آپ کی چچی ام جمیل کہنے لگی کہ آپ کے رب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا

سورئہ انشراح

حضور علیہ السلام کے اعلیٰ مرتبہ و مقام کا بیان ہے۔

سورئہ تین

تین مقامات مقدسہ کی قسم کھائی کہ جس طرح طور، بیت المقدس اور مکہ مکرمہ کو ”وحی“ کے ساتھ اعزاز و شرف عطاءفرمایا اسی طرح کائنات کی تمام مخلوقات میں انسان کو ”شاہکار قدرت“ بنا کر حسین و جمیل اور بہترین شکل و صورت کے اعزاز و اکرام سے نواز اہے۔ سورئہ علق

پہلی وحی میں نازل ہونے والی پانچ آیتیں اس سورت کی ابتداءمیں شامل ہیں جن میں قرآنی نصاب تعلیم کے خدو خال واضح کرکے انسان کی سرکشی کے اسباب سے پردہ اٹھایا گیا ہے

سورئہ قدر

اس سورت میں لیلة القدر کی فضیلت اور وجہِ فضیلت کا بیان ہے کہ یہ رات ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے زیادہ اجرو ثواب دلانے والی ہے اور اس کی فضیلت کی وجہ اس رات میں نزول قرآن ہے۔ سورہ بینہ

اس سورت میں پڑھے لکھے جاہلوں کے بغض و عناد کا تذکرہ ہے کہ دین فطرت اسلام کا راستہ روکنے کے لئے یہودی و عیسائی او رمشرکین باہم متحد ہیں۔

سورہ زلزال

اس سورت میں قیام قیامت کی منظر کشی کے بعد انسانی مستقبل کو اس کے اعمال پر منحصر قرار دے کر بتایا ہے کہ معمولی سے معمولی عمل بھی، چاہے اچھا ہو یا برا، انسانی زندگی پر اپنے اثرات پیدا کئے بغیر نہیں رہتا اور قیامت میں خیر و شر ہر قسم کے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔

سورہ عادیات

مجاہدین کی سواریوں کی قسمیں کھاکر جہاد فی سبیل اللہ عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے

سورہ قارعہ

اس سورت میں قیام قیامت اور اس کی ہولناکی کے تذکرہ کے ساتھ اعمال کے وزن اور بے وزن ہونے کا تذکرہ اور دونوں صورتوں کا انجام مذکور ہے۔

سورہ تکاثر

مال میں زیادتی کی حرص قبر تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ جب جہنم کا نظارہ ہوگا تبھی اس مال کی بے ثباتی کا پتہ چلے گا وہی محاسبہ کا وقت ہوگا اور ایک ایک نعمت کا حساب لیا جائے گا۔

سورہ عصر

زمانہ کی قسم کھاکر دراصل ماضی کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے کہ چار صفات ۱۔ایمان ۲۔اعمال صالحہ ۳۔حق کی تلقین کرنے ۴۔اور حق کے راستہ کی مشکلات پر صبر کرنے والے ہر دور میں کامیاب اور ان صفات سے محروم ہر دور میں ناکام رہے ہیں۔

سورہ ہمزہ

لوگوں کا استہزاءو تمسخر اڑانے اور طعنہ زنی کرنے والوں کی مذمت اور حب مال میں مبتلا لوگوں کا عبرتناک انجام مذکور ہے۔

سورہ فیل

ہاتھیوں کے خانہ کعبہ پر حملہ آور ہونے اور ان کے عبرتناک انجام کے تذکرہ سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر انسان اللہ کے دین کے دفاع سے پہلوتہی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ حقیر پرندوں سے یہ کام لے سکتے ہیں۔

سورہ قریش

قریش مکہ اور ان کے واسطہ سے ہر اس شخص کو غیرت دلائی گئی ہے جو براہ راست اللہ کی نعمتوں، خاص طور پر اللہ کے دین کی برکتوں سے مستفید ہونے کے باوجود اپنے رب کی عبادت اور اس کے دین کے دفاع سے غافل ہو

سورہ ماعون

:خدمت خلق کے کاموں سے غفلت برتنے، یتیموں کی کفالت سے دست کش ہونے اور نماز میں سستی کا مظاہرہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔

سورہ کوثر

حوض کوثر جیسی خیر کثیر اپنے نبی کو عطا فرمانے کے اعلان کے ساتھ ہی دشمنان و گستاخان رسول کا نام و نشان تک مٹادینے کا اعلان ہے۔

سورہ کافرون

اسلامی نظام حیات کے علاوہ کسی دوسرے نظام کی طرف نگاہ نہ اٹھانے اور کفر سے بیزاری کا اظہار کرنے کی تلقین ہے۔

سورہ نصر

اسلامی ترقی کے بامِ عروج ”فتح مکہ“ کی پیشن گوئی اور لوگوں کے جوق در جوق اسلامی نظام کو اختیا رکرنے کے اعلان کے ساتھ تسبیح و تحمید واستغفار میں مشغول ہونے کی تلقین ہے۔

سورہ لہب

دشمنانِ خدا و رسول کے بدترین نمائندے ابو لہب جو آپ کا چچا بھی تھا اور قریش کا سردار بھی تھا اس کی اپنی بیوی سمیت عبرتناک موت کے اعلان کے ساتھ مخالفین اسلام کو تنبیہ ہے۔

سورہ اخلاص

عیسائیوں اور مشرکوں کے باطل عقیدہ کی تردید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ اور خالص توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔ حضور علیہ السلام نے اس سورت کو ”تہائی“ قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔

سورہ فلق

تمام مخلوقات اور شرارت کے عادی حاسدین کے شر سے اللہ کی پناہ حاصل کرنے کی تلقین ہے۔

سورہ ناس

توحید کی ”اقسام ثلاثہ“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن و انس کے قبیل سے تعلق رکھنے والے ہر وسوسہ پیدا کرنے والے سے اللہ کی پناہ میں آنے کی ترغیب ہے۔ محمدفاروق خان نانیگاؤی اور نگ آباد

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔