تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

"تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں" __!!*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*

گلستاں میں شریک صحبت اہل چمن ہم ہیں بس اتنی بات پر کیوں قابل دار و رسن ہم ہیں جواب ظلم دیتی جارہی ہے اپنی مظلومی ادھر تلوار رنگین ہے، ادھر رنگین کفن ہم ہیں        *دنیا جانتی ہے کہ ظلم کی ٹہنی پھلتی نہیں، ہمیشہ سبز نہیں رہتی، وہ حباب ہے جسے گم ہوجانا ہے، وہ قطرہ ہے جسے سمندر میں اپنی حیثیت کھو دینا ہے، کوئی سحر جسے ٹوٹ جانا ہے، یہی اصول زندگی ہے، یہی دستور زمانہ ہے، یہی قانون فطرت ہے، اور یہی قانون الہی ہے، آج پھر سے فرعونیت اپنی رعونت میں ہے، جمہوریت کے جن کو قابو میں کئے ہوئے زمانہ کو قدموں میں رکھ لینے کا خواب پالے ہے؛ بالخصوص سرزمین ہندوستان ایسے ناشبیہ اور کریہہ کرداروں سے پر ہے، یہ وہ لوگ ہیں_ جنہوں نے دنیا کو طبقہ واریت کا تحفہ دیا، جہالت اور انسانی برادری میں تفریق کا بیج نہ صرف بویا بلکہ اسے ایک تناور درخت بنایا، وہ پھر سے عروج پر ہیں، ایوان ان کے تابع ہے، مقننہ ان کی غلام ہے، محکمہ تحفظ کا ہر شعبہ ان کی نگرانی میں ہے، ذرائع ابلاغ ان کے خدام ہیں، وہ صحیح کو غلط کہہ دیں وہ غلط کو صحیح کہہ دیں، وہی چھپے گا، اور وہی مناظر دنیا دیکھے گی_ اس لئے مرتی انسانیت پر بھی خموش ہیں، ٹوٹتی اجتماعیت اور ملک کے تانے بانے کے بکھرنے پر بھی ہونٹ سل لئے ہیں، اقر اپنی اکثریت کے گمان میں پورا دیس نفرت کی نذر کردیا گیا ہے_*       *چنانچہ آج نوبت یہ آن پڑی ہے کہ ہندوستان کی سیکولرزم پر حملہ بول دیا گیا ہے، کیب جیسا قانون بنا کر پوری تاریخ کو ہی مسخ کردیا ہے، ان کے خلاف آئین کے محافظین کھڑے ہیں، ملک بھر میں آگ لگی ہے؛ خاص طور پر طلبہ و طالبات نے مورچہ سنبھال رکھا ہے، مگر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جن گردنوں پر تعلیم کا بوجھ تھا، مستقبل میں ہندوستان کو ایک پہچان دینے اور ملک کیلئے کچھ کر دکھانے کا جنون تھا؛ انہیں کے سروں پر پولس کے ڈنڈے پڑ رہے ہیں، جامعہ ملیہ کے غیور طلبہ و طالبات اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بچوں پر ظالمانہ کاروائی کی گئی، پوری دہلی خطرے کے نشان پر ہے، شر پسندوں کا شر جاری ہے، ویڈیوز اور تصاویر سے صاف پتہ چلتا ہے؛ کہ انہوں نے ہی پتھر بازی کی ہے، بسوں میں آگ لگائی ہے، وہاں کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے بھی اس کی تائید کی ہے، مگر کیا کیجئے_ حسن کی کرشمہ سازی کے سامنے سب پھیکے ہیں_! دراصل دلی میں نظام قانون مرکزی حکومت کے پاس ہے، ظاہر ہے کہ یہ تمام کاروائیاں عین توقع کے مطابق ہیں، یوپی میں بھی ہر جگہ پولس کی پہرہ داری ہے، لاٹھیاں چلا رہے ہیں، سر پھوڑ رہے ہیں، اور اپنے ہی ہاتھوں ہندوستان کا مستبل تباہ کر رہے ہیں۔* ظلم اب بھی وہی کرتے ہو جو کرتے آئے تم ستمگر ہی فقط ہو، ستم ایجاد نہیں       پوری دنیا میں ان طلباء کے ساتھ ظلم پر واویلا ہے، معروف شخصیات نے مذمت کی ہے، بلکہ جامعہ کے طلباء کا ساتھ دینے اور ان کی صفوں کو مضبوط کرنے کیلئے دہلی کا رخ کر چکے ییں، کیا ہندو اور کیا مسلمان_! اگرچہ حکومت نے پوری کوشش کی تھی کہ یہ مسئلہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوجائے، اور پولس کی کاروائی بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی یے؛ لیکن خاص طور پر دہلی کی عوام قابل مبارکباد ہے، بنارس کی ہندو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی، پوڈوچری کی یونیورسٹی وغیرہ بھی قابل تعریف ہیں، جنہوں نے حق و ناحق کا میزان پکڑا، ملک کے آئین اور دستور کی پرواہ کی اور پوری شدت کے ساتھ موجودہ حکومت کی بربرتا کے خلاف کھڑے ہوگئے، کئی جانیں جا چکی ہیں؛ لیکن یقین جانئے ان کا خون سب سے مبارک خون ہے، وہ مقام شہادت پر فائق ہیں، انہوں نے انسانیت کی خاطر اور امن و سلامتی کیلئے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں؛ کہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے اپنی جان دی ہے، ان کا خون زمین پر ٹپکا بھی نہ ہوگا، کہ مغفرت کا پروانہ انہیں نصیب ہوگیا ہوگا، رب کعبہ کی قسم وہ کامیاب ہوگئے ہوں گے، اور وہ بہشت کی ضیافت کا لطف لے رہے ہوں گے_       *وہ کوتاہ نظر ہیں جنہوں نے صرف ظاہر کو دیکھا ہے، ظاہری علامتیں انہیں خوف و ہراس میں ڈالے ہوئی ہیں_ بات دراصل یہ ہے کہ ایسے ظاہر پسند لوگ صرف ایمان کے نام لیوا ہیں، کلمہ حق ان کے حلق سے اترا نہیں ہے، وہ ایمان کی حلاوت سے محروم ہیں؛ چنانچہ وہ نہیں سمجھتے کہ حق کیلئے اپنی جان قربان کردینا کس لطف کی بات ہے، یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے، اور یہ دائمی زندگی اور شہادت کا درجہ ہے_ یہ معصوم ہیں، کمزور ہیں، اور ایک طرف ہتھیار لیس اوباش اور درندے ہیں، محافظ کی شکل میں غدار بھی ہیں، اور حکومت کے پیادے بھی ہیں، وہ جو چاہیں کرلیں _ لیکن امت کے درمندو_! تم بڑھتے جاو_ حق کا راگ چھیڑتے جاو_ صبح بے نور کا انکار کرتے جاو_ ایسے دستور کو مٹاتے جاو_ ظلم کی ہمنوائی کو مت مانو_ اے نوجوانوں_! تم تاریخ کا سنہرا باب رقم کر رہے ہو_ جو محروم ہیں یہ ان کی حرماں نصیبی ہے، مگر تمہاری سعادت ہے کہ تم نسلوں میں زندہ رہوگے، اگر مر بھی گئے تب بھی دوام پاوگے، صبح قیامت تک تم چمکتے دمکتے رہو گے، یہ سرزمین تمہاری مقروض رہے گی، معصوم عوام ہمیشہ بار احسان تلے دبی رہے گی_ یونہی بڑھتے جاو_ ایک حدی خواں کا نغمہ سنو_ اور قدم سے قدم ملاتے جاو_ اور کہتے جاو_!* ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 16/12/2019

تیر آزما ہم جگر آزمائیں" __!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*

گلستاں میں شریک صحبت اہل چمن ہم ہیں بس اتنی بات پر کیوں قابل دار و رسن ہم ہیں جواب ظلم دیتی جارہی ہے اپنی مظلومی ادھر تلوار رنگین ہے، ادھر رنگین کفن ہم ہیں        *دنیا جانتی ہے کہ ظلم کی ٹہنی پھلتی نہیں، ہمیشہ سبز نہیں رہتی، وہ حباب ہے جسے گم ہوجانا ہے، وہ قطرہ ہے جسے سمندر میں اپنی حیثیت کھو دینا ہے، کوئی سحر جسے ٹوٹ جانا ہے، یہی اصول زندگی ہے، یہی دستور زمانہ ہے، یہی قانون فطرت ہے، اور یہی قانون الہی ہے، آج پھر سے فرعونیت اپنی رعونت میں ہے، جمہوریت کے جن کو قابو میں کئے ہوئے زمانہ کو قدموں میں رکھ لینے کا خواب پالے ہے؛ بالخصوص سرزمین ہندوستان ایسے ناشبیہ اور کریہہ کرداروں سے پر ہے، یہ وہ لوگ ہیں_ جنہوں نے دنیا کو طبقہ واریت کا تحفہ دیا، جہالت اور انسانی برادری میں تفریق کا بیج نہ صرف بویا بلکہ اسے ایک تناور درخت بنایا، وہ پھر سے عروج پر ہیں، ایوان ان کے تابع ہے، مقننہ ان کی غلام ہے، محکمہ تحفظ کا ہر شعبہ ان کی نگرانی میں ہے، ذرائع ابلاغ ان کے خدام ہیں، وہ صحیح کو غلط کہہ دیں وہ غلط کو صحیح کہہ دیں، وہی چھپے گا، اور وہی مناظر دنیا دیکھے گی_ اس لئے مرتی انسانیت پر بھی خموش ہیں، ٹوٹتی اجتماعیت اور ملک کے تانے بانے کے بکھرنے پر بھی ہونٹ سل لئے ہیں، اقر اپنی اکثریت کے گمان میں پورا دیس نفرت کی نذر کردیا گیا ہے_*       *چنانچہ آج نوبت یہ آن پڑی ہے کہ ہندوستان کی سیکولرزم پر حملہ بول دیا گیا ہے، کیب جیسا قانون بنا کر پوری تاریخ کو ہی مسخ کردیا ہے، ان کے خلاف آئین کے محافظین کھڑے ہیں، ملک بھر میں آگ لگی ہے؛ خاص طور پر طلبہ و طالبات نے مورچہ سنبھال رکھا ہے، مگر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جن گردنوں پر تعلیم کا بوجھ تھا، مستقبل میں ہندوستان کو ایک پہچان دینے اور ملک کیلئے کچھ کر دکھانے کا جنون تھا؛ انہیں کے سروں پر پولس کے ڈنڈے پڑ رہے ہیں، جامعہ ملیہ کے غیور طلبہ و طالبات اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بچوں پر ظالمانہ کاروائی کی گئی، پوری دہلی خطرے کے نشان پر ہے، شر پسندوں کا شر جاری ہے، ویڈیوز اور تصاویر سے صاف پتہ چلتا ہے؛ کہ انہوں نے ہی پتھر بازی کی ہے، بسوں میں آگ لگائی ہے، وہاں کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے بھی اس کی تائید کی ہے، مگر کیا کیجئے_ حسن کی کرشمہ سازی کے سامنے سب پھیکے ہیں_! دراصل دلی میں نظام قانون مرکزی حکومت کے پاس ہے، ظاہر ہے کہ یہ تمام کاروائیاں عین توقع کے مطابق ہیں، یوپی میں بھی ہر جگہ پولس کی پہرہ داری ہے، لاٹھیاں چلا رہے ہیں، سر پھوڑ رہے ہیں، اور اپنے ہی ہاتھوں ہندوستان کا مستبل تباہ کر رہے ہیں۔* ظلم اب بھی وہی کرتے ہو جو کرتے آئے تم ستمگر ہی فقط ہو، ستم ایجاد نہیں       پوری دنیا میں ان طلباء کے ساتھ ظلم پر واویلا ہے، معروف شخصیات نے مذمت کی ہے، بلکہ جامعہ کے طلباء کا ساتھ دینے اور ان کی صفوں کو مضبوط کرنے کیلئے دہلی کا رخ کر چکے ییں، کیا ہندو اور کیا مسلمان_! اگرچہ حکومت نے پوری کوشش کی تھی کہ یہ مسئلہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوجائے، اور پولس کی کاروائی بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی یے؛ لیکن خاص طور پر دہلی کی عوام قابل مبارکباد ہے، بنارس کی ہندو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی، پوڈوچری کی یونیورسٹی وغیرہ بھی قابل تعریف ہیں، جنہوں نے حق و ناحق کا میزان پکڑا، ملک کے آئین اور دستور کی پرواہ کی اور پوری شدت کے ساتھ موجودہ حکومت کی بربرتا کے خلاف کھڑے ہوگئے، کئی جانیں جا چکی ہیں؛ لیکن یقین جانئے ان کا خون سب سے مبارک خون ہے، وہ مقام شہادت پر فائق ہیں، انہوں نے انسانیت کی خاطر اور امن و سلامتی کیلئے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں؛ کہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے اپنی جان دی ہے، ان کا خون زمین پر ٹپکا بھی نہ ہوگا، کہ مغفرت کا پروانہ انہیں نصیب ہوگیا ہوگا، رب کعبہ کی قسم وہ کامیاب ہوگئے ہوں گے، اور وہ بہشت کی ضیافت کا لطف لے رہے ہوں گے_       *وہ کوتاہ نظر ہیں جنہوں نے صرف ظاہر کو دیکھا ہے، ظاہری علامتیں انہیں خوف و ہراس میں ڈالے ہوئی ہیں_ بات دراصل یہ ہے کہ ایسے ظاہر پسند لوگ صرف ایمان کے نام لیوا ہیں، کلمہ حق ان کے حلق سے اترا نہیں ہے، وہ ایمان کی حلاوت سے محروم ہیں؛ چنانچہ وہ نہیں سمجھتے کہ حق کیلئے اپنی جان قربان کردینا کس لطف کی بات ہے، یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے، اور یہ دائمی زندگی اور شہادت کا درجہ ہے_ یہ معصوم ہیں، کمزور ہیں، اور ایک طرف ہتھیار لیس اوباش اور درندے ہیں، محافظ کی شکل میں غدار بھی ہیں، اور حکومت کے پیادے بھی ہیں، وہ جو چاہیں کرلیں _ لیکن امت کے درمندو_! تم بڑھتے جاو_ حق کا راگ چھیڑتے جاو_ صبح بے نور کا انکار کرتے جاو_ ایسے دستور کو مٹاتے جاو_ ظلم کی ہمنوائی کو مت مانو_ اے نوجوانوں_! تم تاریخ کا سنہرا باب رقم کر رہے ہو_ جو محروم ہیں یہ ان کی حرماں نصیبی ہے، مگر تمہاری سعادت ہے کہ تم نسلوں میں زندہ رہوگے، اگر مر بھی گئے تب بھی دوام پاوگے، صبح قیامت تک تم چمکتے دمکتے رہو گے، یہ سرزمین تمہاری مقروض رہے گی، معصوم عوام ہمیشہ بار احسان تلے دبی رہے گی_ یونہی بڑھتے جاو_ ایک حدی خواں کا نغمہ سنو_ اور قدم سے قدم ملاتے جاو_ اور کہتے جاو_!* ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 16/12/2019

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔