*امت کی روتی مائیں اور دکھتا دل ___!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*ہم یہ کس دور میں آگئے ہیں کہ جہاں نہ ایمان کی حفاظت ہے اور نہ ہی ملک و معاشرت کی بکھرتی پرتوں کو جمع کرپارہے ہیں. نوبت یہ آگئی ہے کہ ہماری قوم کی مائیں راستوں اور چوراہوں پر کھڑی ہیں، بینر لئے ہوئی ہیں، اپنے بچوں کو سینے سے لگائے اور جگر سے چمٹائے بے یار و مددگار کھڑی ہیں، نقاب پوش بھی ہیں، حجاب میں بھی ہیں، عام کپڑوں میں بھی ہیں، شب بیدار بھی معلوم ہوتی ہیں، اور دین بیزار بھی، جوان بھی ہیں تو عمر کی آخری دہلیز پر دستک دے چکی معمر خواتین بھی ہیں، ان کے چہروں پر سوالات ہیں، ان کے ماتھے پر شکن ہے، فکر ہے، وہ خود سے استفسار کر رہی ہیں، اور امت کے قائدین کے سامنے اپنی سسکیاں دکھا رہی ہیں، NRC, NPR, CAA کے ظالمانہ قوانین کے سامنے ڈٹ گئی ہیں، ان کے بیانات سنئے__! ان کے اعتراضات اور ان کی فکریں سنئے ___! اگر آپ کے دل میں انسانیت کا درد ہے، صنف نازک کی فکر ہے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں امت کی ماں اور ان کے مقام کے بارے میں سنا بھی ہے، تو آپ کانپ اٹھیں گے، سینہ لرز جائے گا، کہ یہ کیا ہورہا ہے __؟* *بالخصوص NDTV پر رویش کمار کی رپورٹ دیکھئے! شاہین باغ دہلی کی خواتین پر نشر شدہ پروگرام ضرور دیکھیں _ وہاں پر بیان کردہ مظلوموں کی داستانیں سنیں، عورتیں رو رو کر کہتی ہیں؛ کہ ہم نے کبھی چھوکٹ پار نہ کی تھی، ہمارا چہرہ کسی نے نہ دیکھا تھا، گھر ہی ہماری دنیا تھی، ہمارے بچے اور رشتے دار ہی سب کچھ تھے، ایک ایسی پاکدامن اور پاک طینت زندگی سے راستوں پر اتر آئے ہیں، آپ سب کے سامنے چہرہ کھولنا پڑتا ہے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیکر میدان میں بیٹھنا پڑتا ہے، سرد راتوں میں خود کو بھی اور معصوم بچوں کو بھی ٹھٹھرتا ہوا چھوڑنا پڑتا ہے، رات گزارتے ہیں، دن بیتتا ہے، آوازیں بلند کرنی پڑتی ہیں، گلہ سے چیخنا پڑتا ہے، اور نہ کریں تو کیا کریں __؟ ہم مجبور ہوگئے ہیں، بے بس ہوگئے ہیں، اپنے وجود کا خیال کچوکے لگاتا ہے، مستقبل کے اندیشے چین نہیں لینے دیتے، آئندہ نسلوں کی پرواہ میں صبح و شام ہوتی ہے، جو والدین اور محرم باہر نکلنے سے روکتے تھے، اب حالت یہ ہوگئی ہے؛ کہ وہ خود ہمیں نکلنے اور احتجاج میں شامل ہونے کا حکم دیتے ہیں، یہ ملک کا تقاکہ ہوگیا ہے اور دین کا بھی فریضہ بن چکا ہے.* اب تو اس در سے نہ سر اٹھے گا انشاءاللہ جان دیدیں گے یہیں سوچ کے ہم آئے ہیں *ایک اور خاتون سے انٹرویو لیا جاتا ہے، اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی وہ زار و قطار رونے لگتی ہے، اس کے ہاتھ میں موجود معصوم بچہ بھی حیران و پریشان رہتا ہے، وہ باحجاب ہے اور پھر اپنے آنسو پوچھتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کرتی ہی ہے؛ کہ آنسوؤں کا ریلا رکتا ہی نہیں ہے، آنکھیں بہتی جاتی ہیں، جیسے کوئی سیلاب بلا خیر آگیا ہو، وہ آنسو پونچھتی ہیں اور کچھ بولنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ہچکیاں بندھ جاتی ہیں، سسکیاں زور پکڑ لیتی ہیں، وہ خاموش ہوجاتی ہیں، پھر اپنی آنکھیں ملتی ہوئی گویا ہوتی ہیں اور وہ کہتی جاتی ہیں سر ہم کیا کریں_؟ ہمیں اس موڑ پر کھڑا کردیا گیا ہے؛ کہ ہم گھر سے باہر نکلیں، کیونکہ یہ کہتے ہیں ہم کاغذ دکھائیں، خود کا بھی اور اپنے والدین کا بھی_ یہ ملک کے محب ہونے کا ثبوت مانگتے ہیں، ہم یہیں پیدا ہوئے اور ہمارے آباء و اجداد سب یہیں رہے اور مرے، اب یہ کس بات کا ثبوت مانگتے ہیں_!!!* *آہ___ امت کی مائیں کس قدر لاچار ہوگئی ہیں، ان کی. کیفیت دیکھتے ہی دل پھٹ پڑتا ہے، اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، لیکن دل کہتا ہے کہ اگرچہ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں، مگر ان کے سینہ میں جوش و جذب کی کوئی کمی نہیں ہے؛ چنانچہ ان میں بہت سے اشعار گنگنا کر اور ظلم و ظالم کے خلاف نعرے بلند کرکے اپنا تعارف کرواتی ہیں اور ایسا تاثر دیتی ہیں کہ رویش کمار بھی حیران ہوجاتے ہیں..... سچ تو یہ ہے کہ یہ سب دیکھ کر دل چلھلنی ہوجاتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے؛ کہ ہم کس دوراہے پر کھڑے ہیں، مرد تو قوام ہوتے ہیں، ان کے سروں پر خواتین کی ذمہ داری ہوتی ہے؛ لیکن ہماری موجودگی میں بھی وہ محفوظ نہیں ہیں، ہمیں کیسے خود کو قوام کہنے کا حق ہے___ بہرحال اگر ہم مجبور ہیں تو خدا مجبور نہیں ہے، اے بنت حوا __ تیرا حامی و مددگار وہ رب کی ذات ہے، جو بڑا مہربان اور قادر مطلق ہے، اس کے سامنے تیرے آنسو ضائع ہوں گے، وہ یقیناً فرعون کو غرق کر چکا ہے، اور اکیسویں صدی کا فرعون بھی غرق ہوگا؛ اور اس کا وہ انجام ہوگا، جو قابل عبرت بن جائے گا، زمانے میں خدا کی علامت اور تم جیسی مجبور و مقہور کی فغاں کی نشانی ہوجائے گا.* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 13/01/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔