*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*ووٹ کی دینی اور شرعی حیثیت*
*محمد قمرالزماں ندوی* *دگھی، گڈا، جھارکھنڈ*
*اس* حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عصر حاضر کی گندگی اور بے لگام سیاست میں الیکشن اور ووٹ کے لفظ کو اتنا بد نام اور داغدار کردیا ہے کہ انتخاب اور الیکشن کے ساتھ مکر و فریب ، رشوت ، جھوٹ ، اوردغا بازی کا تصور لازم سا ہو گیا ہے، اس لیے زیادہ تر شریف اور سادہ لوح لوگ اس جنجال میں پڑنا مناسب نہیں سمجھتے۔اور یہ غلط فہمی بھی عام ہو گئی ہے کہ الیکشن اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں ایسے حضرات کا منشا تو برا نہیں لیکن نتائج بہت برے ہیں یہ سوچ کہ آج کی سیاست مکر و فریب کا دوسرا نام ہے اس لئے نہ الیکشن میں کھڑا ہونا چاہیے اور نہ ووٹ اور حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہیے - یہ نظریہ دین و شریعت کے خلاف اور ملک و ملت کے لیے بھی سخت نقصان دہ اور مضر ہے۔ فقیہ عصر *مولانا تقی عثمانی صاحب* نے بہت نکتے اور پتے کی بات تحریر کی ہے۔ " *ماضی میں ہماری سیاست بلاشبہ مفاد پرست (پاکستان کے حالات کے تناظر میں مولانا نے یہ بات اصلا لکھی ہے ) لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے ، لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا جاۓ گا۔ اور پھر ایک نا ایک دن یہ نجاست خود ان کے گھروں تک پہنچ کر رہے گی عقلمندی اور شرافت کا تقاضہ یہ نہیں کہ سیاست کی اس گندگی کو دور دور سے کہا جاتا رہے بلکہ عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی جائے جو مسلسل اسے گندا کر رہے ہیں ہیں* ۔ *حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ* سے روایت ہے کہ *سرور کونین حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* نے ارشاد فرمایا *الناس إذا راوا الظالم فلم يأخذوا على يديه أوشك أن يعمهم الله بعقاب* (جمع الفوائد صفحہ 51 جلد دوم) *اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالی ان سب پر اپنا عذاب نازل فرمائیں* "۔ اگر آپ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہو رہا ہے ، اور انتخابات میں سرگرم حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجے میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم سے روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں ۔ (فقہی مقالات جلد دوم صفحہ 28- 86) اوپر کی تفصیلات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ جمہوری ملکوں میں مسلمانوں کے ووٹ کی کتنی اہمیت ہے اور مسلمان کس طرح ظالم حکومت کو آنے سے روک سکتے ہیں اور ان کی حکومت کو ختم کرسکتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے ووٹ کی حیثیت، شہادت اور گواہی کی سی ہے ، اور جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام اور ناجائز ہے اسی طرح ضرورت کے موقع پر شہادت کو چھپانا بھی حرام ہے قرآن مجید کا ارشاد ہے "ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فإنه آثم قلبه" اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو شخص گواہی کو چھپائے اس کا دل گناہ گار رہے گا" ۔ اور جمع الفوائد اور طبرانی کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من كتم شهادة إذا دعي إليها كان كن شهد بالزهور (جمع الفوائد بحوالہ طبرانی صفحہ 62 جلد 1) جس کسی کو شہادت کے لیے بلایا جائے پھر وہ اسے چھپائے تو وہ ایسا ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا" اسلام میں سچی گواہی کا مقام ہے کہ مذہب اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان اپنا یہ فریضہ ادا کرےاور کسی دعوت اور ترغیب و تشویق کا انتظار بھی نہ کرے چنانچہ حدیث شریف میں آتاہے کہ *آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے ، وہ شخص ہے جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ادا کردے۔ (جمع الفوائد) *ووٹ* بھی بلاشبہ ایک شہادت ہے اس لئے قرآن وحدیث کے مذکورہ احکام اس پر بھی جاری ہوں گے لہذا ووٹ نہ دینا اور اس حق کو محفوظ رکھنا یہ دینداری کا تقاضہ نہیں بلکہ اس کا صحیح استعمال کرنا ہر مسلمان پر فرض اور ضروری ہے۔ دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتے ہیں اس کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر *ووٹر* کر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے "ومن يشفع شفاعة حسنة يكن له نصيب منها ومن يشفع شفاعة سيئة يكن له كفل منها " یعنی جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس نے اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور وہ سفارش کرتا ہے تو اسی برائی میں بھی اس کا حصہ لگتا ہے۔ اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت داری امن پسند آدمی کی سفارش کرے، جو خلق خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کریں اور پوری امانت اور دیانت کے ساتھ قوم و ملت اور سماج و معاشرہ کی فلاح و بہبود میں لگا رہے، اور بری و ناجائز سفارش یہ ہے کہ نا اہل نالائق، فاسق، ظالم کی سفارش کرکے اس کو خلق خدا پر مسلط کرے ۔اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنی پنج سالہ دور میں جو نیک یا بد عمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔ ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت *وکالت* کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس مید وار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اسی کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ *وکالت* ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے ، اس لیے اگر کسی نا اہل کواپنی نمائیندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اسکی گردن پر رہا *؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟* نیز اگر مسلم ملک ہے تو وہاں ووٹ کی حیثیت ان سب کے علاوہ سیاسی بیعت *؟؟؟؟؟؟؟؟* کی ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے متعلقہ امیدوار کو وکیل بناتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے سربراہ مملکت کا انتخاب کرے خدا کرے جلد ہی ہمارے ملک میں وہ خوش قسمت ساعت آئے ۔ *وما ذالک علی اللہ بعزیز* *اس* وقت اپنے صوبہ جھارکھنڈ میں الیکشن ہے مختلف مرحلوں میں ووٹنگ ہو رہی ہے ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ووٹ کی حیثیت کو سمجھیں ،اس طاقت کو ضائع اور برباد نہ کریں ،چند روپیوں اور پیسوں کے عوض میں اس کو فروخت نہ کریں ۔ سوچ سمجھ کر حق رائے دہی کا استعمال کریں ۔جذبات اور جوش میں آکر کوئی فیصلہ نہ کریں ، اپنی طاقت کو منتشر نہ ہونے دیں ۔ موجودہ حکومت نے کس کس طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے یہ آپ سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے ۔ آپ بھی متحد ہوں اور سیکولر ووٹرروں کو بھی متحد کریں اور جھارکھنڈ کے اس الیکشن کو ٹرنگ پوائنٹ بنادیں اور یہ ثابت کردیں کہ یہ ملک جمہوری اقدار و روایات کا پابند ہے، یہاں ظلم نفرت ہنسا اور تعصب کی کوئی جگہ نہیں ہے یہ ملک اور دیش گنگا جمنی تہذیب اور امن و امان و شانتی والا دیش ہے یہاں کی دھرتی میں پریم بھائ چارہ اور محبت ہے ۔ نفرت کی بیج یہاں نہیں اگ سکتی۔ انسانیت اور مانوتا یہاں کی خمیر میں شامل ہے ۔ جھارکھنڈ کا یہ آپ کا بیٹا اور چھوٹا بھائی( محمد قمرالزماں ندوی) آپ سے دست بستہ درخواست کرتا ہے کہ خدا را آپ سب متحد ہوجائیں ،نوشتئہ دیوار پڑھیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں فکر کریں ۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔