یوم قانون اور بکھرتی جمہوریت ✍ محمد صابرحسین ندوی
*۲۶/ نومبر_ آج یوم قانون ہے، جس کی آخری تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر نے جدید ہندوستان کو ایک نیا موڑ دیا تھا، ہر شہری کے حقوق کی حفاظت، ذات پات کا خاتمہ اور طبقاتی اذہان و رواج پر تیشہ چلایا تھا، ایک طویل زمانے سے ظلمت کدہ کی تصویر بنی ہندوستانی معاشرت کو نیا پیمانہ عطا کیا تھا، غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے کے بعد کھلے آسمان میں بھیگے پروں کے ساتھ اڑنے کا حوصلہ دیا اور ساتھ ہی سب نے مل کر اک خوابوں کا جہاں بنانے اور ترقی یافتہ قوموں کے سامنے اپنی اہمیت اور اپنا تعارف کرانے کا عہد لیا تھا، ایک ایسا ہندوستان جہاں صرف قانون کی بالادستی ہو، جرائم کی بیخ کنی کردی گئی ہو، صنف نازک کو تحفظ فراہم ہو، صنف ضعیف کی داد رسی ہو اور سب سے بڑھ کر جمہوری نظام مستحکم ترین ہوتا جاتا ہو اور بے بس قوم خود میں تقویت محسوس کرتے ہوں، وے حوصلہ کن ہو کر دنیا جیت لینے کی قوت محسوس کرتے ہوں؛ لیکن یہ باتیں صرف باتیں ہی رہ گئیں، ترقی کے نام پر تکنیکی دنیا کو عروج دیا گیا مگر عوام بھوکی مرتی رہی، آج بیس کروڑ باشندے بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔* *کسان خودکشی کرتے رہے، فقیری و غریبی میں جرائم نے ترقی کی، تعلیمی ڈھانچہ بدترین ہوتا گیا، ایجوکیشن کو کمرشیل کردیا گیا، right to education کا کوئی خاص مطلب نہ ہو کر صرف سودے بازی رہ گئی، اگر کوئی جہد مسلسل سے تعلیم حاصل کر بھی تو وہ نوکری سے ندارد ہے، سرکاری محکمہ صرف اعلی طبقوں کیلئے ہیں، دیس میں چھوٹی اور بڑی ذات کی عمیق غار اور گہری ہوگئی ہے؛ بلکہ اب تو پانی سر سے اوپر ہوچلا ہے، خود جمہوری ڈھانچے پر خطرہ منڈلا رہا ہے، عدالت عظمی کے فیصلے شک کے دائرے میں ہیں، چیف جسٹس کی تقرری اور ان سے صدور فیصلے پر سوالیہ نشان لگ چکے ہیں، پارلیمنٹ بالا و سفلی دونوں جگہوں پر اپنی من منانی چل رہی ہے، ایسے ایسے قوانین پاس کروائے جاریے ہیں جنہیں طبقہ واریت کے طور پر استعمال کیا جا سکے، اور ایک خاص رنگ کو گاڑھا کیا جا سکے، طاقت کے زور پر یا لالچ دے کر آئین کی جڑوں پر حملہ کیا جارہا یے، اور اسے موم کی ناک بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔* اب تو انتخابات کا بھی کوئی مطلب نہیں ہے، سرکاریں خرید و فروخت پر بنتی ہیں، ایک طرف عوام اپنا نمائندہ منتخب کرتی ہے اور دوسری طرف برسر اقتدار پارٹی عوام کی رائے بدل دیتی ہے، گوا، اتراکھنڈ، بہار، ہریانہ جیسے متعدد صوبوں میں رواں حکومت اکثریت میں نہ ہونے کے باوجود آج حکومت کا ذائقہ لے رہی یے، ابھی مہاراشٹر کا سیاسی فلور گرم ہے، انتخابات میں مہینہ سے زائد ہوجانے کے باوجود سیاسی داو پینچ جاری ہے، سیاسی فساد چل رہا ہے، تو وہیں کرپشن کو قانونی دائرے میں لے آئے، الیکٹرول بونڈ کو ایک ہتھیار بنایا گیا اور پیسے کی طاقت سے راج کرنے کا ایک نیا ڈھنگ نکالا گیا ہے، ہر ایک کو خرید لو اور جو نہ بکے اسے جیل خانہ کا مہمان بنا دو__! ان سب میں سیکولرزم کے سارے ستون یکساں کام کر رہے ہیں، صدر جمہوریہ جو جمہوریت کا محافظ ہوتا ہے، قانون کا رکھوالا اور آئین کی فوقیت کا نگہبان ہوتا ہے، وہ خود کٹھپتلی بنا ہوا ہے، راتوں رات حکومت بن جاتی ہے، جس میں صدر جمہوریہ کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔ *یہ سب دراصل جمہوریت کے لٹیرے ہیں، جنہوں نے جمہوریت کی ہی کمزوری کو اپنا طاقت بنا لیا ہے، اب مخالفت بھی کام نہیں آتی، گاندھی وادی پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی، این آر سی اور سیٹیزن شپ امینڈمنٹ بل کو بھی پیش کردیا گیا، مگر ڈیموکریسی کے متوالے اپنے ہی نشے میں چور ہیں_ خوش آئند بات یہ ہے کہ یونیورسٹیز اور کالجز سے آوازیں بلند ہورہی ہیں، لیکن متوسط طبقہ اب بھی خموش ہے، انہیں سب کچھ ٹھیک لگتا ہے، اگر ایسا ہی چلتا رہا ہے تو ممکن ہے؛ کہ ہندوستان سے جمہوریت کی بچی کھچی ساکھ بھی کھرچ دی جائے، جس کا آخری داو بھی این آر سی اور سیٹیزن شپ امینڈمنٹ بل کی صورت میں پھینک دیا گیا ہے_ وقت ہے کہ جاگ جائیں ورنہ سوتے سوتے ملک بھی سو جائے گا_ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے کہہ دیا تھا: "کسی ملک کے آئین کی کامیابی کا انحصار اس ملک کے باشندوں اور آئین کے مطابق ملک کا نظم و نسق سنبھالنے والوں کے کردار اور ان کی نیتوں پر ہوتا ہے، آئین خواہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہو اگر اس کے نفاذ کی ذمہ داری اٹھانے والوں میں آئین کے بنیادی اصولوں کے آگے خود سپردگی کا جذبہ نہیں تو آئین صرف بے جان الفاظ کا ایک مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے؛ لیکن اس کے برعکس اگر آئین کا پاس و لحاظ رکھنے والے آئین تئیں عقیدت رکھتے ہوں گے، تو وہ ان کمیوں کو دور کر کے ایک بہتر سماج کی تشکیل کر پانے میں کامیاب ہوں گے"_* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 26/11/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔