*پہلے تو حسن عمل، حسن یقیں پیدا کر*
*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*ملک و ملت* کی موجودہ صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں،جو غیر یقینی صورتحال اس وقت یہاں ہے ،اس سے سبھی خائف ہیں، ملک کے سارے باشندے فکر مند ہیں اور عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ چند فرقہ پسند عناصر ہیں ،جن کی وجہ سے ملک میں ایک بیچنی اور بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ حکومت وقت کے غیر انسانی اور غیر منصفانہ فیصلے نے ایک حشر برپا کر دیا ہے ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کی بے مثال جمہوری روایات و اقدار اور مذھبی رواداری ختم ہونے کے قریب ہے ۔ جب کہ اب بھی ملک کی اکثریت کا مزاج رواداری ،شانتی، اور امن و سلامتی ،پریم و ایکتا کی راہ پر چلنے کا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود امن پسند اور جمہوریت نواز لوگوں کی آواز اس لئے دبی رہتی ہے کہ ان کے پاس تشہیر اور پروپیگنڈہ کی صلاحیت کم ہے، یہ سچ اور صحیح بات کی اتنی تشہیر نہیں کرپاتے ،جتنا کہ دوسرے لوگ غلط بات کو بھی ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی مدد سے سچ ثابت کرلیتے ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور جے این یو کے معاملہ میں میڈیا اور پولیس کا جو رول اور کردار رہا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ اس وقت خاص طور پر مسلمان بہت ڈرے ، سہمے ہوئے ہیں ۔ جبکہ ان کو ہر حال میں اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے، اس امتحان اور آزمائش میں بھی کھرا اترنا چاہیے، اس طرح کے حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اگر آج ہم کو زخم لگے ہیں ۔اور ہمارے دل زخمی ہوئے ہیں تو کیا ہوا؟ کل ماضی میں دشمن کے دلوں پر بھی زخم لگے ہیں، ہم سے زیادہ ان کو وار لگے ہیں ۔ اس لئے حالات سے مایوس،شکستہ، بددل اور کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے ۔ حالات کا رونا رونا،شکوہ و شکایت کرنا، اپنی پریشانی اور بزدلی کا اظہار کرنا، یہ مومن کی شان نہیں ہے ۔ مومن حالات سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ ان حالات کو اپنے لئے سرخ روئ اور عند اللہ مقبولیت اور بلندی کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ *دنیا* کی محبت اور موت کی کراہیت و ناپسندیدگی، نے آج ہماری حیثیت ایسی کردی ہے، اور ہم کو ذلت و رسوائی اور پستی کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ، آج دشمن ہر چہار جانب سے ہم پر اس طرح ٹوٹ پڑے ہیں جیسے کوئی بھوکا شخص دسترخوان پر کھانے کے لئے ٹوٹ پڑتا ہے جیسا کہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا ۔ دشمن ہماری تعداد کی قلت کی بنا پر ہم پر حملہ نہیں ہوں گے ۔ ہماری تعداد تو بہت ہوگی لیکن ہماری حیثیت سمندر کے جھاگ کی طرح ہوگی ۔ یہ پیشن گوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی، اس امت کے لئے، صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یہ حالت ہماری کیوں ہوگی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے اندر *وہن* پیدا ہو جائے گا ۔ صحابہ کرام نے پوچھا *وہن* کیا ہے؟ دنیا سے محبت اور دشمن سے پنجہ آزمائ سے گریز کا پیدا ہوجانا ۔ اس وقت یقینا پوری دنیا میں اور خاص طور پر ہندوستان میں مسلمان بالکل اسی صورت حال سے دوچار ہیں ۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر سے موت کے ڈر و خوف اور دنیا سے اندھی محبت کو ختم کریں ۔ صبر و استقامت سے کام لیں اور اپنے اندر ایمان و یقین کی طاقت کو مضبوط کریں خوف و ہراس کو نکال پھینکیں اور یہ یقین رکھیں کہ اگر پوری دنیا کے لوگ مل کر ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں ،اور اللہ کی مرضی نہیں ہے تو ہمیں بال برابر نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ اور اگر پوری دنیا مل کر ہمیں نفع پہنچانا چاہے لیکن اللہ کی مرضی نہ ہو تو ،لوگ ہمیں نفع نہیں پہنچا سکتے ،اس پر ہمیں مکمل یقین اور ایمان ہونا چاہیے ۔ موت کے بارے میں ہمارا یہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے کہ موت اللہ کے حکم سے آتی ہے ،اس میں انسان کے عمل اور مرضی کو دخل نہیں ہے ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پوری زندگی اسلام سے پہلے اور اسلام لانے کے بعد جنگ میں گزری ۔ پورے جسم پر زخم کے نشانات تھے ۔ ان کی چاہت تھی کہ شہادت کی موت ملے لیکن اللہ کو منظور تھا کہ ان کو غازی اور فاتح کی حیثیت سے بستر پر موت ہو ۔ ان کی موت میدان شہادت میں نہیں ہوئی بلکہ بستر مرگ پر ہوئی ۔ اس لئے موت کے بارے میں ہمارا پختہ یقین ہونا چاہیے کہ یہ اللہ کے حکم اور اس کی مرضی سے آئے گی ۔ اس وقت ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ایمانی طاقت کو مضبوط بنائیں اور اللہ پر یقین و اعتماد کو مستحکم کریں ،قرآن حکیم میں مشکل حالات اور نازک مواقع پر جو تعلیمات دی گئی ہیں اور رہبری کی گئی ہے ہم اس کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں ،اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزاریں اور خاص حالات میں جن چیزوں کو اپنانے کی تاکید کی گئی ہے ہم اس کو اپنائیں خاص طور پر سورہ آل عمران میں غزوئہ احد کی ظاہری شکست کے پس منظر میں جو آیتیں نازل ہوئیں ہیں ان کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں ۔ علماء نے ان آیات کے حوالے سے، جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ ہم بیان کرتے ہیں ۔ دوستو! *قرآن مجید* ایک بے مثال رہ نما کتاب اور گائڈ بک ہے _ اس میں زندگی کے ہر مسئلے،اور ہر مشکل کا حل موجود ہے، اور اس میں ہر موقع کے لیے جامع اور مکمل رہ نمائی کی گئی ہے _ ہندوستانی مسلمان اس وقت جس مشکل صورت حال سے گزر رہے ہیں، اس سے نمٹنے کے لیے انھیں سورۂ آل عمران میں مذکور قرآنی ہدایات کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور خاص طور پر اس کی درج ذیل آیت کو، _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم اَلَّذِيۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الۡقَرۡحُ ۛؕ لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡهُمۡ وَاتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِيۡمٌۚ ۞ ( آل عمران : 172 ) " جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا اُن میں جو اشخاص نیکوکار اور پرہیز گار ہیں اُن کے لیے بڑا اجر ہے _ " سورۂ آل عمران غزوۂ احد (3ھ) کے بعد نازل ہوئی تھی _ اس غزوہ میں مسلمانوں کی ایک غلطی کی وجہ سے انھیں خاصا جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا _ تقریباً 70 جلیل القدر صحابہ شہید ہوگئے تھے _ اس سورت میں غزوۂ احد پر مفصّل تبصرہ کیا گیا ہے ، اس موقع پر مسلمانوں سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں پر تنبیہ کی گئی ہے ، ساتھ ہی ان کی ڈھارس باندھی گئی ہے ، انھیں حوصلہ دیا گیا ہے اور آئندہ کے لیے راہِ عمل دکھائی گئی ہے _ ہمیں درج ذیل نکات پر غور کرنا چاہیے : (1) زخم لگنے کے بعد دل شکستہ نہ ہو کہا گیا کہ یہ حقیقت ہے کہ تمھیں زخم لگا ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم حوصلہ ہار بیٹھو _ زندگی میں ایسے مواقع بار بار آتے ہیں کہ نتائج توقع کے مطابق نہیں آتے ، لیکن یہ صورت حال تمھارے ساتھ خاص نہیں ، تمھارے دشمن بھی اس سے دوچار ہوتے ہیں _ چنانچہ اسی سورت میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا گیا : " اِس وقت اگر تمھیں زخم لگا ہے تو اس سے پہلے ایسا ہی زخم تمہارے مخالفِ فریق کو بھی لگ چکا ہے _" ساتھ ہی اس معاملے میں اللہ کی سنّت بھی بیان کردی گئی : " یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں _ " ( آل عمران :140 ) (2) اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو کہا گیا کہ ان حالات میں بھی ، جب تم زخم خوردہ اور غم سے نڈھال ہو اور تمھارے دل چور ہیں ، اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کو پیش نظر رکھو ، ان کی آواز کی طرف کان لگائے رہو ، دیکھو کہ ان کا کیا حکم ہے؟ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑو ۔ (3) احسان کی روش اختیار کرو کہا گیا کہ ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی 'احسان' کی روش اختیار کرو _ 'احسان' یہ ہے کہ ہر کام کو اعلیٰ معیار کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جائے _ اللہ کے ساتھ تعلق بھی مثالی ہو اور اللہ کے بندوں کے ساتھ تعلق بھی امتیازی نوعیت کا ہو _ 'جیسے کو تیسا' پر عمل نہ کیا جائے ، بلکہ جن لوگوں نے عداوت کی ہو اور تکلیفیں پہنچائی ہوں ان کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا جائے _ (4) تقویٰ اختیار کرو کہا گیا کہ تقویٰ اختیار کرو _ 'تقویٰ' یہ ہے کہ اپنے ہر عمل میں دیکھا جائے کہ اس سے اللہ کی رضا حاصل ہوگی یا اس کی ناراضی کو مول لینا پڑے گا _ جس طرح خار دار جھاڑیوں کے درمیان چلتے ہوئے آدمی اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہے کہ وہ کانٹوں میں الجھ نہ جائے اسی طرح آدمی کو زندگی گزارتے ہوئے ہر دم چوکنّا رہنا چاہیے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہوجائے جو اللہ کے غضب کو بھڑکانے والا ہو _ یہی تقویٰ ہے _ (5) اجرِ عظیم کی بشارت قبول کرو کہا گیا کہ جو لوگ مشکل ترین حالات میں ، زخم لگنے کے بعد بھی ، پامردی دکھائیں ، استقامت کا مظاہرہ کریں ، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہیں ، احسان کی روش پر چلیں اور تقویٰ اختیار کریں ان کے لیے اللہ نے بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے اور جس چیز کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہو اس کے پورا ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے _
سخت حالات میں اللہ تعالٰی کی طرف سے کتنی واضح رہ نمائی ہے؟! کتنے دو ٹوک الفاظ میں راہِ عمل کی نشان دہی کی گئی ہے؟! اس راہ پر چلنے والوں کے لیے کتنی بڑی خوش خبری دی گئی ہے؟! ہے کوئی جو اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہے اور اللہ کی بشارتوں کا مستحق بنے۔؟؟؟؟ (مضمون کا آخری حصہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کے مضمون سے ماخوذ و مستفاد ہے)ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔