یزید بن معاویہ ؓ پر لعنت کرنا اور علماء احناف کا نظریہ

حضرت مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ

یزید کاشراب پینا یا زنا کرنا کسی بھی قابل اعتماد روایت سے ثابت نہیں ہے۔ زنا کی روایت تو میں نے کسی بھی تاریخ میں نہیں دیکھی۔ کمی نے جو شیعہ راوی ہے یزید کا شراب پینا وغیرہ بیان کیا ہے ، لیکن کسی مستند روایت میں اس کا ذکر نہیں۔ اگر یزید کھلم کھلا شرابی ہوتا تو حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جماعت اس کے ساتھ قسطنطنیہ کے جہاد میں نہ جاتی۔ اس دور کے حالات کو دیکھ کر ظنِ غالب یہی ہے کہ یزید کم ازکم حضرت معاویہ کے عہد میں شراب نہیں پیتا تھا اور حدِ شرعی اس وقت قائم ہوسکتی ہے جب کہ دوگواہوں نے پیتے وقت دیکھا ہو۔ ایسا کوئی واقعہ کسی شیعہ روایت میں بھی موجود نہیں ہے۔ یزید کے بارے میں صحیح بات وہی ہے جو میں لکھ چکا ہوں۔ قانونِ الٰہی کو بدلنے کاکوئی ثبوت کم ازکم مجھے نہیں ملا۔ یزید ایک سلطان متغلب تھا۔ شر عاً اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ پورا کنٹرول حاصل کرچکا ہوتو اس کے خلاف خروج نہ کیا جائے گا، اور اس کا غلبہ روکنا ممکن ہوتو روکنے کی کوشش کی جائے۔ حضرت حسین سمجھتے تھے کہ اس کا غلبہ روکنا ممکن ہے ، اس لیے وہ روانہ ہوگئے اور دوسرے حضرات صحابہ کاخیال تھا کہ اب اس کے غلبہ کوروکنا استطاعت میں نہیں اور اس کو روکنے کی کوشش میں زیادہ خون ریزی کا اندیشہ ہے ، اس لیے وہ خود بھی خاموش رہے اور حضرت حسین کو بھی اپنے ارادے سے باز آنے کامشورہ دیا۔ ’’سرداد ندادست دردستِ یزید‘‘ کوئی نقطۂ نظر نہیں ہے ۔ حضرت حسین شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ سلطان متغلب کا غلبہ روکنا ممکن ہے ، اس لیے روانہ ہوئے اور اہل کوفہ پر اعتماد کیا، لیکن جب عبیداللہ بن زیاد کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو کوفیوں کی بدعہدی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت آپ کو یقین ہوگیا کہ اہل کوفہ نے بالکل غلط تصویر پیش کی تھی۔ حقیقت میں یزید کا غلبہ روکنا اب استطاعت میں نہیں ہے ۔ اس لیے انھوں نے یزید کے پاس جاکر بیعت تک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر عبیداللہ بن زیادہ نے انھیں غیر مشروط طورپر گرفتار کرنا چاہا۔ اس میں انھیں مسلم بن عقیل ؒ کی طرح اپنے بے بس ہوکر شہید ہونے کااندیشہ تھا۔ اس لیے ان کے پاس مقابلہ کے سوا چارہ نہ رہا۔

فتاویٰ عثمانی، جلد اوّل، فتویٰ نمبر ۴۰۴/۲۲ الف، ص ۱۷۹، ۱۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔